قائد اعظم کی شہریت کے بارے میں اصل حقائق

گزشتہ دنوں جس طرح متحدہ کے قائد کی جانب سے قائد اعظم کی ذات پر جو کیچڑ اچھالنے کی مذموم کوشش کی گئی تمام پاکستانیوں نے اس کی مذمت کی ہے اور ان کے اس لب و لہجے کو چاند پر تھوکنے کے مترادف قرار دیا ہے جو کہ بلکل صیحح ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ محمد علی جناح صرف اور صرف ایک محب وطن پاکستانی ہی تھے ان کی تمام وفاداریاں پاکستان اور یہاں کے عوام کے لئے ہی تھیں جو الزامات اور جو دعوے الطاف حسین کی جانب سے پیش کیے گے وہ تمام کے تمام حقائق کے بلکل منافی ہیں ان کوئی سچائی نہیں ہے انھوں نے حقائق کو تروڑ مروڑ کر حقائق کو منسح کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے یہ بات پوری قوم جانتی ہے ان کی اس ہرزہ رسائی سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پاکستان کے سیاسی بھروپیے اپنی سیاست چمکانے کے لئے کسی بھی قومی ہیرو کو نہیں بخشتے ان کو صرف اور صرف اپنے اقتدار اور اپنے مفادات کا خیال ہوتا ہے اس حوالے سے آج میں قائد اعظم کے برٹش انڈیا پاسپورٹ کی اصل حقیقت پر روشی ڈالنے کی کوشش کروں گا جس سے یقینا عام آدمی کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا جواب ضرور مل جائے گا ۔

محمد علی جناح کا نیلا پاسپورٹ جو انڈین پاسپورٹ ایکٹ مجریہ انیس سو بیس کے تحت اٹھائیس نومبر انیس سو چھیالیس کو پانچ برس کی مدت کے لیے جاری ہوا تھاآپ کی تصویر پر جو مہر لگی ہوئی تھی اس پر پاسپورٹ آفس کراچی گورنمنٹ آف سندھ درج ہے چونکہ یہ پاسپورٹ برٹش انڈیا کے( شہری ) کو جاری کیا گیا ہے لہذٰا اندر کے پہلے صفحے پر انگلستان کے بادشاہ کے بجائے گورنر جنرل برٹش انڈیا کی جانب سے یہ درخواست چھاپی گئی ہے کہ حاملِ ہذا کی دورانِ آمدورفت بلارکاوٹ راہداری، مدد اور ضروری تحفظ فراہم کیا جائے یہ پاسپورٹ حاملِ ہذا (محمد علی جناح) کو جن ممالک کے سفر کی اجازت دیتا ہے وہ مجاز افسر نے ہاتھ سے لکھے ہیں اور درجِ زیل ہیں برطانیہ براستہ عراق، ٹرانس جارڈن، فلسطین، مصر، اٹلی، فرانس، ہالینڈ، بلجئیم، سوئٹزرلینڈ اور مالٹانیشنل سٹیٹس (قومیت ) کے خانے میں لکھا ہوا ہے ’برٹش سبجیکٹ بائی برتھ انیس سو انچاس تک سرسید احمد خان سے لے کر علامہ اقبال، علی برادران، حسرت موہانی، نہرو، سبھاش چندر بوس، محمد علی جناح، زوالفقار علی بھٹواور اندراگاندھی سمیت ہر اس شخص کو برٹش سبجیکٹ کہتے تھے جو سلطنتِ برطانیہ کی زیرِ عملداری دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہوا ہوانیس سو انچاس میں برٹش سبجیکٹ کی اصطلاح میں ترمیم ہوئی اور دولتِ مشترکہ ( کامن ویلتھ سٹیزن ) کے شہری کی اصطلاح متعارف ہوئی انیس سو اکیاسی کے برٹش سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت برٹش سبجیکٹ کی اصطلاح میں مزید ترمیم ہوئی اور اسے برطانیہ اور آئرلینڈ کے شہریوں تک محدود کردیا گیااس خطے سے باہر برطانوی عملداری میں جو علاقے موجود تھے جیسے ہانگ کانگ، مکاؤ، جبرالٹر، فاک لینڈ وغیرہ تو ان کے لیے برٹش اوورسیز اور برٹش ڈیپنڈنٹ ٹیررٹریز کی اصطلاحات و اقسام وضع کی گئیں چنانچہ جب کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد علی جناح اسی طرح برطانوی شہری تھے جس طرح میں ہوں تو ایسا دعویٰ کرتے وقت ازحد تاریخی و قانونی احتیاط کی ضرورت ہے جب آئین نافذ ہوگیا تو گورنر جنرل صدر ہوگیا اور گورنر جنرل کا انیس سو پینتیس کے ایکٹ کے تحت حلف بھی نئے حلف سے بدل گیاپہلی بات تو یہ ہے کہ جدید پاسپورٹ برطانیہ اور اس کی نوآبادیات میں انیس سو بیس کے پاسپورٹ ایکٹ کے تحت وجود میں آیااس سے پہلے راہداری اور پرمٹ پر سفر ہوتا تھادوم یہ ہے کہ اگر برٹش سبجیکٹ ( شہری ) اور برٹش انڈین سبجیکٹ ایک ہی چیز تھی تو پھر برطانیہ کو اپنی نوآبادیات کے شہریوں سے خود کو الگ شناخت دینے کے لیے انیس سو بیس میں علیحدہ پاسپورٹ جاری کرنے کی کیوں ضرورت پڑ گئی جس پر موٹا موٹا لکھا تھا (برٹش پاسپورٹ یونائٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن اینڈ آئرلینڈ ) یہ نیلا پاسپورٹ انیس سو اٹھاسی میں یورپی یونین والے سرخ جلد کے پاسپورٹ سے بدل گیاتو کیا برطانیہ اور اس کی تمام نوآبادیات میں صرف ایک پاسپورٹ کی ایک ہی جیسی عبارت سے کام نہیں چل سکتا تھا ؟اگریہ مان لیا جائے کہ برٹش انڈین پاسپورٹ رکھنے والا بھی برطانیہ کا اتنا ہی شہری تھا جتنا کہ یوکے اینڈ آئرلینڈ کا پاسپورٹ ہولڈر،تو پھر مجاز افسر کو اپنے ہاتھ سے محمد علی جناح کے پاسپورٹ پر برطانیہ براستہ عراق لکھنے کی کیا ضرورت تھی اور اس پاسپورٹ پر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، کینیڈا اور دیگر برطانوی نوآبادیات کے ناموں کا اندراج کیوں نہیں کیا گیا تاکہ جناح صاحب ایک ’برطانوی شہری ‘ کے طور پر جمیکا سے کینیا تک جس برطانوی نوآبادی میں چاہتے آ جا سکتے اگر برٹش انڈین پاسپورٹ رکھنے والا خود بخود برطانوی شہری بن سکتا تو تیرہ اپریل انیس سو اکیاون کو پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کیوں نافذ ہوا جبکہ اس تاریخ کو بھی برطانوی بادشاہ پاکستان کا آئینی حکمران تھا اور گورنر جنرل پاکستان اس کا نمائندہ تھاتو کیا حکومتِ پاکستان کے اس ایکٹ کو بین الاقوامی قانون کے تحت برٹش انڈیا کی جانشین حکومت کا ایکٹ تصور کیا جائے یا تاجِ برطانیہ سے بغاوت سمجھا جائے ؟رہی یہ بات کہ برطانوی بادشاہ یا ملکہ آزادی کے بعد بھی بھارت اور پاکستان کا آئینی سرپرست کیونکر رہے ؟ اس لیے رہے کہ چودہ اور پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کے دن نہ انڈیا کا اپنا آئین تھا اور نہ پاکستان کاچونکہ خلا میں کسی مملکت کا انتظام نہیں چلایا جاسکتا لہذٰا نئے آئین کے نفاز تک دونوں ممالک گورنمنٹ آف برٹش انڈیا ایکٹ مجریہ انیس سو پینتیس کے تابع رہے جب آئین نافذ ہوگیا تو گورنر جنرل صدر ہوگیا اور گورنر جنرل کا انیس سو پینتیس کے ایکٹ کے تحت حلف بھی نئے حلف سے بدل گیا (جیسے یحییٰ خان کی معزولی کے بعد انیس سو تہتر کے عبوری آئین کے نفاز تک خلا پر کرنے کے لیے بھٹو صاحب کو عبوری صدر کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا حلف مجبوراً اٹھانا پڑ گیا تھا پہلا پاکستانی پاسپورٹ انیس سو اکیاون کے سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت پاکستانی دفترِ خارجہ کے مڈل ایسٹ ڈویڑن کے ڈپٹی سیکرٹری محمد اسد کو جاری ہواتب تک برٹش انڈیا کے جاری کردہ پاسپورٹ پر پاکستان کی مہر لگا کر کام چلایا جاتا تھاجبکہ بھارت میں تو سٹیزن شپ ایکٹ مجریہ انیس سو پچپن کے نفاز تک پرانے پاسپورٹوں پر نئی ریپبلک آف انڈیا کی مہر لگتی رہی بالکل ایسے جیسے پاکستان کے کرنسی نوٹوں کے اجرا تک برطانوی ہند کے کرنسی نوٹوں پر پاکستان کا ٹھپہ لگا کر کام چلایا جاتا رہاچونکہ پاکستان میں تیرہ اپریل انیس سو اکیاون تک شہریت کا قانون ہی نہیں تھا اور برٹش انڈین دور کے قوانین سے کام چلایا جا رہا تھا تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گورنر جنرل اور وزیرِ اعظم سمیت پوری کابینہ اور اسمبلی کے انہتر ارکان سمیت مغربی اور مشرقی پاکستان کے سات کروڑ شہریوں میں سے ایک بھی پاکستانی شہری نہیں تھاسب کے سب ایک منقسم برٹش انڈیا کے شہری تھے اور اس ناطے برطانوی شہری تھے اور اس ناطے وہ جتنے ڈھاکہ اور کراچی میں بسنے کے قانوناً مجاز تھے اتنے ہی لندن اور برمنگھم میں بھی بسنے کے اہل تھے -

ان سب حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ قائد اعظم خالصتا پاکستانی تھے اور ان کی شہریت بھی پاکستان کی ہی تھی اب کوئی نام نہاد سیاسی لیڈر اگر اپنے آپ کو کسی دوسرے ملک کی لی گئی شہریت کے لئے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کا مسئلہ ہے مگر خدا را اس میں ان عظیم ہستیوں کو نہ لایا جائے جنہوں نے پاکستان اور اس کے عوام کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیا اور پاکستانی قوم کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے امر ہو گے۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 208699 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More