پینتیس برس بعد کشمیر سنگھ آزاد

پاکستان میں تقریباً پینتیس برس سے قید بھارتی شہری کشمیر سنگھ کو پیر کو رہا کر دیا گیا۔وہ منگل کے روز سرحد پار کر کے اپنے اہلِ خانہ کے پاس پہنچ جائیں گے۔

ساٹھ سالہ کشمیر سنگھ لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے اور پیر کی رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب خصوصی احکامات کے تحت جیل سے رہائی کے اوقات ختم ہونے کے بعد ان کی رہائی عمل میں آئی ۔

جیل حکام نے کشمیر سنگھ کو نگران وفاقی وزیر انسانی حقوق انصار برنی کی تحویل میں دے دیا۔

کشمیر سنگھ کو پینتیس برس قبل جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور موت کی سزا سنائی گئی تھی۔امرتسر پولیس کے سپاہی کشمیر سنگھ کو ان کے ایک ساتھی سمیت انیس سو تہتّر میں راولپنڈی کے علاقے بائیس نمبر چونگی سےگرفتار کیا گیا تھا اور کشمیر سنگھ کو جاسوسی کے الزام میں فوجی عدالت نے سزائے موت دی تھی جبکہ اس کے ساتھی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد بھارت چلے گئے تھے۔

کشمیر سنگھ گزشتہ پینتیس سال سے قید میں تھے اور نگران وفاقی وزیر انصار برنی کی مداخلت پر پاکستانی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے ان کی رحم کی اپیل منظور کرتے ہوئے موت کی سزا ختم کر دی تھی۔

کشمیر سنگھ نےعدالت کی طرف سے دی جانے والی موت کی سزا کے خلاف انیس سو اٹھہتر میں اس وقت کے صدر چوہدری فضل الٰہی کے سامنے رحم کی اپیل کی گئی تھی جو مسترد کر دی گئی۔

انصار برنی کے مطابق کشمیر سنگھ کی رہائی پیر کی شام چار بجے کے قریب عمل میں آنی تھی۔ان کے بقول صوبائی محکمہ داخلہ کی ایڈیشنل سیکرٹری کی وجہ سے کشمیر سنگھ کی رہائی چار گھنٹے تاخیر سے ہوئی جس کا ان کو دکھ ہے۔

کشمیر سنگھ نے پیر کی رات انصار برنی کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان پر جاسوس ہونے کا الزام غلط ہے بلکہ وہ محکمہ پولیس میں اپنی معطلی کے بعد کاروبار کے لیے پاکستان آئےتھے۔

ان کا کہنا ہے کہ جیل میں ان کو بچوں کی بڑی یاد آئی تاہم وہ اپنی بیوی کے سواء کسی بچوں کو نہیں پہچان سکتے کیونکہ جس وقت وہ پاکستان میں گرفتار ہوئے تھے ان کی بچے بہت چھوٹے تھے۔

جب کشمیر سنگھ سے پوچھا گیا کہ ان کو یہ امید تھی کہ ان کی اپنے وطن واپس ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ انسان آس کے سہارے زندہ رہتا ہے اور اگر زندگی میں آس نہ ہو تو زندگی ختم جاتی ہے۔

کشمیر سنگھ نے بتایا ان کی پسند کی شادی ہوئی تھی اور جب وہ پاکستان آئے تو اس کے وقت کی بڑے بیٹے کی عمر چھ برس، چھوٹے بیٹے کی عمر تین سال اور بیٹی کی عمر سوا سال تھی۔

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے ہیں۔پریس کانفرنس کے دوران کشمیر سنگھ نےانصار برنی کے موبائل فون کے ذریعے امرتسر میں اپنی بیوی، بیٹے اور پچپن کے دوست کے علاوہ دیگر رشتہ داروں سے بات کی اور ان سے خیریت پوچھی۔

کشمیر سنگھ کے مطابق پینتیس برس میں ان کی اپنے گھر والوں سے پہلی مرتبہ بات ہوئی ہے۔

کشمیر سنگھ نے اپنی بیوی پرم جیت کے ساتھ فون پر بلا تکلف گفتگو کی اور کہا کہ اخبار والے ان سے پسند کی شادی کے بارے میں پوچھے رہے ہیں جس پر کشمیر سنگھ کی بیوی کا کہنا تھا کہ’ سب کی شادیاں پسند سے ہوتی ہیں کیا کوئی ناراض ہوکر بھی شادی کرتا ہے۔

کشمیر سنگھ کی بیوی نے پریس کانفرنس میں فون پر پوچھے گئے سوال پر کہا کہ انہیں صرف پیار تحفہ چاہئے۔ایک سوال پر پرمجیت نے کہا کہ ان کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ان کا شوہر پتلون یا شلوار قمیض میں کونسا لباس پہن کر بھارت واپس آتے ہیں۔

انصار برنی کے بقول کشمیر سنگھ منگل کی صبح بھارتی وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے واہگہ سرحد سے بھارت جائیں گے اور جب کشمیر سنگھ اپنے گھر والوں سے ملاقات کریں تو یہ لحمہ ان کے لیے عید ہوگا۔

ادھر کشمیر سنگھ نے اپنی رہائی کے بعد لاہور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑی پر گئے جہاں انہوں نے ماتھا ٹیکہ اور لنگر کھایا۔

انصار برنی نے بتایا کہ جس وقت کشمیر سنگھ کو گرفتار کیا گیا تھا اس وقت اس کی عمر چھبیس برس تھی اور وہ قید کے دوران ملک کی مختلف جیلوں میں رہے ہیں اور قید کا زیادہ حصہ انہوں نے ساہیوال میں گزارا ہے جو چودہ سال پر محیط ہے۔

عوام نے ملے جلے رد عمل کااظہار کرتے ہوتے کہا ہے کہ بھارت کوبھی پاکستانی قیدیوں کورہا کرنا چاہیئے اور کشمیر سنگھ کی رہائی سے پاک بھارت تعلقات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے جوکہ خطے میں امن کے قیام کے پیش نظر مزید آگے بڑھنی چاہئے

YOU MAY ALSO LIKE: