ترشنگ (دنیا کا خوبصورت ترین گاؤں)

یوں تو پاکستان کے شمالی علاقہ جات اپنی خوبصورتی اور رعنائی کی بنیاد پر دنیا بھر میں مشہور ہیں ، مگر ترشنگ کو بلامبالغہ دنیا کا خوبصورت ترین گاؤں کہا جاتا ہے اور اس کا اظہار بہت سے ملکی اور غیر ملکی سیاحوں نے کیا ہے۔ روپل استور سے آگے ایک اور خوبصورت وادی ہے اور اس کی ایک وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا نواں اونچا پہاڑ نانگا پربت کو سر کرنے والے کوہ پیما وادی روپل میں ہی قیام کرتے ہیں اور اس وادی کے ایک سرے پر اپنا بیس کیمپ بناتے ہیں۔ خوبصورت وادی ترشنگ تک تاریخی شہر استور سے ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں بذریعہ جیپ پہنچا جاسکتا ہے۔ استور سطح سمندر سے 3200میٹر بلند ایک تاریخی شہر ہے۔ تقسیم سے پہلے قافلے سری نگر سے گلگت جانے کے لئے اسی شہر سے گذرتے تھے۔
 

image

استور شہر روڈ کے ذریعے شاہراہ قراقرم سے منسلک ہے۔ استور پہنچنے کے دو طریقے ہیں یا تو اسلام آباد سے فوکر جہاز کے ذریعے گلگت پہنچا جائے ، گلگت سے استور کے لئے وقفے وقفے سے کوچ چلتی رہتی ہے جو تین تا چار گھنٹے میں استور پہنچا دیتی ہے۔ دوسرا راستہ زمینی ہے راولپنڈی کے پیرودہائی بس اسٹینڈ سے استور کے لئے کوچ چلتی ہیں۔ یہ کوچ ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے شاہراہ قراقرم میں داخل ہوتی ہے۔

اس شاہراہ کا اصل ایڈونچر تھاکوٹ کے پل سے شروع ہوتا ہے۔ پیچ در پیچ موڑ ، فلک بوس چٹانیں اور ساتھ ساتھ کہیں خراماں خراماں بہتے اور کہیں سیلابی انداز میں پہاڑوں سے سر پٹختا دریائے سندھ۔ ان سنگلاخ چٹانوں میں کہیں کہیں باریک سی پانی کی لکیر نظر آتی ہے، یہ دراصل پہاڑی چشمے ہیں، جس کے ساتھ ہریالی کا ایک ٹکڑا نظر آتا ہے ، جو کہ ایک گاوّں ہے۔ جن کے ساتھ کھیت ہیں بھورے پہاڑوں کے پس منظر میں یہ ہرے کھیت بہت بھلے لگتے ہیں لیکن ساتھ یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس بلندی پر اس ویرانے میں بنیادی ضروریات زندگی کے بغیر لوگ کیسے زندگی گذارتے ہوں گئے۔ یہ راستہ بشام اور چلاس سے ہوتا ہو ا رائے کوٹ پل پہنچے گا۔ یہیں سے ایک راستہ فیری میڈو کی طرف نکلتا ہے جو کہ نانگا پربت کے دامن میں ایک خوبصورت وادی ہے۔ ہم جگلوٹ سے کچھ پہلے تقریباً 16 گھنٹے کے سفر کے بعد شاہراہ قراقرم چھوڑ کر دائیں طرف شاہراہ استور میں داخل ہو ں گے اور مزید دو گھنٹے پہاڑوں کے درمیان اور کئی لکڑی کے معلق پلوں سے گذرتے ہوئے استور آئے گا۔ استور کا پہلا نظارہ مایوس کن تھا ایک عام سا بازار، کوسٹر اور جیپوں اور ان کے کنڈکٹروں کا شور، یہاں کراچی کے صدر کا ماحول تھا۔ لیکن استور شہر سے نکلتے ہی علاقے کی اصل خوبصورتی سامنے آتی ہے۔ یہاں رہائش کے لئے ہوٹل کافی تعداد میں موجود ہیں اس لئے اپنی اگلی منزل سے پہلے ایک دن آرام کیاجاسکتا ہے، لیکن اگر حوصلے جوان ہوں تو سفر جاری رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ہماری اصل منزل اب زیادہ دور نہیں ہے۔
 

image

استور سے ترشنگ جانے کے لئے جیپیں 30روپے فی کس کے حساب سے چلتی ہیں ۔ ترشنگ سے جب جیپ نکلتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم کس بلندی پر بیٹھے ہیں۔ آد ھے گھنٹے کے سفر کے بعد گریگوٹ آئے گا یہ ایک مختصر سا اور عام سا پہاڑی گاؤں ہے۔ یہی سڑک آگے کارگل اور دیوسائی کے میدان کو جاتی ہے۔ ہم اس سڑک کو چھوڑ کر دائیں طرف ایک ذیلی کچی سڑک کی طرف مڑ جاتے ہیں یہ سڑک مسلسل بلند ہوتی ہے اور بعض مقام پر جیپ سے باہر دیکھنے سے ہوائی جہاز کی بلندی سے دیکھے جانے والا منظر محسوس ہوتا ہے۔ بعض موڑ اتنے اچانک اور عمودی ہیں کہ جیپ کو کئی دفعہ ریورس کرنا پڑتا ہے، اس دوران جیپ کے ٹائرکھائی کے کونے پر پہنچ جاتے ہیں اور بعض کمزور دل کے لوگ ایسے میں آنکھیں بند کرلیتے ہیں یا پھر جیپ سے اتر جاتے ہیں۔ یہ سفر جتنا مشکل اور خطرناک ہے اتنا ہی خوبصورت بھی ہے۔ حد نظر تک پھیلی ہوئی ہریالی آنکھوں کو جلا بخشتی ہیں۔ اس چڑہائی کے بعد پھر جیپ ہموار سطح پر آجاتی ہے اور آبادی کے آثار نظر آتے ہیں آپ کے اطراف میں کھیت اور آتے جاتے اسکول کے بچے سیاح کو حیران کرتے ہیں کہ اس دور افتادہ علاقہ میں جہاں پہنچنا بھی مشکل ہے، اسکول بھی ہے اور بچے بڑی تعداد میں اس میں پڑھتے بھی ہیں۔ ہوا کی خنکی اور ٹھنڈک سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نانگا پربت قریب ہی ہے اور پھر اچانک ہی سامنے کا منظر سفید ہوجاتا ہے نانگا پربت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ منظر پر چھا جاتا ہے اور اس منظر کو دیکھتے ہی سیاح اپنے سفر کی تمام تکالیف بھول جاتا ہے اور تازہ دم ہوجاتا ہے اس کے چہرے پر سفر کی تکان کے بجائے ایک حیرت انگیز خوشی ہوتی ہے۔وہ خوشی جو صرف ایک سیاح کے مقدر میں ہے۔
 

image

 نانگا پربت دراصل ایک پورے پہاڑی سلسلے کا نام ہے جس کی بہت سی چوٹیاں ہیں، رائے کوٹ پیک، چانگرہ پیک وغیرہ اسی حوالے سے مقامی لوگ اسے شل مکھی دیامیرکہتے ہیں یعنی سو چہرے والا پہاڑ۔اس کی بلند ترین چوٹی 8126 میٹر بلند ہے K2 کے بعد پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے۔ اس پہاڑ کو دیکھنے کے لئے پہلے تو اپنے سر کو نوے درجے پر اٹھانا ہوتا ہے پھر ایک کیمرے کے انداز میں پین کرنا ہوتا ہے۔ ترشنگ پر پہلی نظر پڑتے ہی سیاح اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے یہ منظر دکھایا۔ ترشنگ کی خوبصورتی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لینڈ اسکیپ میں کوئی بھی جگہ ہریالی یا پھولوں سے خالی نہیں ہے اور ان کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی ہے جس کا پانی یخ بستہ اور شفاف ہے۔اس پوری وادی پر نانگا پربت سایہ فگن ہے۔ پوری وادی کو چاروں طرف سے گلیشئیروں نے گھیر رکھا ہے ۔
 

image

یہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لکڑی اور مٹی کے گھر ہیں۔ یہاں دنیا میں موجود ہر رنگ کے پھول اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اور ان کی خوشبو ماحول میں رچی بسی ہے۔ اور ان سب کے پس منظر میں نانگا پربت کی بلند ہوتی سفیدیاں ایک سینری یا کسی آرٹسٹ کا تخیل محسوس ہوتی ہیں اور سیاح اللہ کی اس صناعی کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتا ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی نانگا پربت سے اترتی ٹھنڈک اس کو ایک ڈیپ فر یزر میں تبدیل کردیتے ہیں۔لیکن دن کو موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ یہاں بجلی ابھی نہیں پہنچی ہے رہائش کے لئے دو ہوٹل ہیں۔یہاں کھانا بھی آرڈر پر مل جاتا ہے۔یہاں کے لو گ زیادہ تر فوجی ہیں یا پھرکھیتی باڑی کرتے ہیں اور مویشی پالتے ہیں۔ سیاحت کے موسم میں یہاں کہ لوگ گائیڈ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کاطرز زندگی نہایت سادہ ہے لالچ بالکل نہیں کرتے، بلتی زبان بولتے ہیں۔نئی نسل میں پڑہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور کافی نوجوان کراچی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔سیاح ترشنگ سے تو واپس آجاتا ہے مگر پھر واپس آنے کی خواہش اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔
Asghar Karim Khan
About the Author: Asghar Karim Khan Read More Articles by Asghar Karim Khan: 14 Articles with 270251 views I am Assistant professor in Physics at Government college in Karachi. I have done Masters in Physics and Computer Science. Traveling in Northern areas.. View More