-- ایک ھنگامے پہ موقوف ہے--- گھر کی رونق

سات سمندر پار کا سفر کر کے مادر وطن پہنچی تو 12 گھنٹے پورے 12 گھنٹے میری زندگی سے حذ ف ہو چکے تھے دن رات میں بدلی اور رات دن میں' عرف عام میں اسکو جیٹ لیگ کہتے ہیں یعنی جیٹ طیاروں کی برق رفتاری سے جو ہمارے اوقات بدل جاتے ہیں نمعلوم اردو میں اسکا کوئی متبادل ہے؟ جیٹ طیاروں کی برقرفتاری کی بدولت جب ہم مغرب سے مشرق کی سمت اتے ہیں تو وقت کا زیاں' جبکہ مشرق سے مغرب کی سمت ہمیں فائدہ ہوتا ہے لیکن جسم کی گھڑی جسکو ہم باڈی کلاک کہتے ہیں اسکو تعین کرنے میں اور اہنی رفتار متوازن کرنے میں وقت لگ جاتا ہے نمعلوم پاکستان آکر میری یہ گھڑ ی کچھ سست کیوں پڑ جاتی ہےرات کو سوئی تو لگتا ہے دوپہر کا قیلولہ کیا دو ڈھائی گھنٹے کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے اور جب وہاں رات شروع ہوتی ہے تو دن دھاڑے محفلوں کے بیچوں بیچ جمائیاں اور نیند آنے لگتی ہےکم ازکم ایک ہفتہ ان اوقات کار کے عادی ہونے مین لگتاہے -علاوہ ازیں خاموش اور ساؤنڈ پروف ماحول کا عادی ہونے کے بعد جہان زیادہ سے زیادہ شور اپنے ٹی وی کا یا رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی ایمرجنسی گاڑیوں کے سائرن کا ہوتا ھےیہاں لگتا ہے کہ ہر طرف ایک شور بپا ہے-جس بالائی کمرے میں مقیم ہوں اسکے باہر کی طرف ایک گلی گزرتی ہےجہاں رات بھر آمد و رفت رہتی ہے کھڑکیاں بند ہونیکے باوجود لوگوں کی باتیں، موٹر سائیکلوں کا شور اور رات کے سناٹے کو درہم برہم کرتے ہوۓ من چلوں کے قہقہےاور چینخیں ،ذرا سا خاموشی چھائ تومساجد سے آذان فجر بلند ہوئی جو یوں تو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے ورنہ ہمیں اللہ بھلا کرے اسلامک فائنڈر ویب سائٹ کا) جسکے ذریعے سے آذآن ہمیں اپنے فون اور کمپیوٹرز پر ملتی ہے یا پھر جب مساجد کے اندر ہوتے ہیں - اللہ کی حمد وثناء کے ساتھ آداب سحر گاھی کے تقاضےاس سے قبل ہی پوری کرنے کی کوشش ہوتی ہے- ساتھ ہی ساتھ بیشمار پرندوں کی چہچہاہٹ سامنے لگے ہوۓ لوکاٹ کے درخت پر ہلہ بول دیا جاتاہے بلبل، قمری،فاختائیں،چڑیائیں ،کوے طوطے جھنڈ کے جھنڈ آنا شروع ہوجاتے ہیں- خوبصورت سریلی صدائیں ماشاءاللہ پرندوں کی آبادی بھی پاکستان کے معتدل موسم میں خوب پروان چڑھتی ہے آس پاس کے درختوں پر ایک ہنگامہ بپا کر کے ایک نئی صبح کے آغاز کی نوید لے کر آتی ہیں -

جہاں سے میں ائی ہوں میرے آنے سے دو دن پہلے موسم کچھ بہتر ہوایعنی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے ذرا ہلا تو برف پگھلنے کے کچھ آثار ہوئے اکا دکا گلہریاں اور چند پرندے پھدکتے نظر آئے -شائقین سڑکوں پر چہل قدمی اور جاگنگ کرتے ہوئے دکھائی دئے - علی الصبح ان ممالک میں، کینیڈا کی بطخوں کی شمال و جنوب کی جانب پرواز سے موسم کا اندازہ ہوتا ہے - موسم کی خنکی کے ساتھ کینیڈا کی صحتمند بطخیں جنوب کی طرف مائل پرواز ہوتی ہیں انکی ٹیں ٹیں، اڑان اور انکی ترتیب بے مثال ہوتی ہے یہ وی کی شکل میں ایک فارمیشن بناتے ہوئے اڑتی ہیں اور ہمیشہ ایک مرغابی یا بطخ انکی رہنمائی کرتے ہوئے آگے جا رہی ہوتی ہے انکے اوپر تحقیق کرنیوالے کہتے ہیں کہ رہنمائی کرنیوالی مرغابی تھک کر پیچھے کو لوٹ جاتی ہے اور پیچھے سے ایک تازہ دم اسکی جگہ لے لیتی ہے - موسم کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ سفر کرتی ہیں- امریکہ والے تو ان مرغابیوں سے عاجز ہیں - اریزونا میں جہاں گھاس ایک جنس نایاب یا کمیاب ہے اسکے اوپر مخصوص چھڑکاؤ کر دیا جاتا ہے -جسکی وجہ سے یہ اس گھاس پر نہیں بیٹھتیں اور اسے گندہ نہیں کرپاتیں- یہی حال انسانوں کا ہے معمر دولتمند افراد جو سنو برڈز یعنی برفانی پرندے کہلاتے ہیں موسموں کے لحاظ سے شمال اور جنوب کی جانب محو سفر ہوتے ہیں -

اسوقت بات پاکستان کی کرتے ہیں-

کراچی میں علی الصبح کوکتی ہوئی کوئلوں کی صدائیں سب پرندوں پر حاوی ہوتیں جب وہ میرے شریفے ، چیکو ،جامن اور انجیر کے پھل ٹونک بجا کردیکھتیں- ماحولیات کے ایک ماہر نے ایک مرتبہ کہا 'کراچی کی کویل دیوانی ہوگئی ہے 'کوئل برسات میں کوکتی ہے جبکہ کراچی میں سارا سال کوکتی رہتی ہے غالبا نمی اور رطوبت کی وجہ سے انہیں برسات کا لمس ملتا ہے-

اللہ کی شان نرالی ہے اسکی قدرت کی نشانیاں بکھری پڑی ہیں دنیا کے تمام جانور ، چرند ، پرند ایک ہی زبان بولتے ہیں جبکہ انسانوں کی بولیاں بھانت بھانت کی ہیں - پاکستان میں ہی دیکھ لیں ہر 50 میل کے فاصلے پر ایک نئی زبان ایک نیا لب ولہجہ ہے -

پنڈی اسلام آباد میں اسوقت بہت ہی پیارا موسم بہار ہے ہر طرف رنگ برنگے خوشنما پھولوں کی بھر مار ہے پرندوں کا بے پناہ شور، یہی تو وقت ہے انکی خانہ آبادی کا -خوب بارشیں ہوئیں بلکہ اسقدر اولے پڑے کہ برف باری کا گمان ہوا - اچھے معتدل موسم میں بجلی کے غائب ہونے کا احساس بھی نہیں ہوتا اور یوں بھی سب کچھ اچھا محسوس ہوتا ہے- لیکن اس نیند کا کیا کیا جائے؟

اسوقت وطن عزیز میں جمہوریت نے پہلی مرتبہ اپنے پانچ سال پورے کئے اور کل ہی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں بہت سوں نے اس حکومت کو وقت سے پہلے چلتا کرنے کیلئے بہت زور لگایا لیکن واہ رے پیپلز پارٹی اور صدر زرداری ساری لعن طعن کے باوجود سب پہ بھاری- پاکستان میں اسمبلی کی مدت پوری کرنیکا ریکارڈ بنا دیا - وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی کارکردگی بتا رہے تھے جاتے جاتے گوادر پورٹ چین کودے دیا اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا ایران سے گیس کی پائپ لاین کا معاہدہ ہوا - گیس کے ذخایر بے دریغ خرچ ہوگئے اور اسکی اشد ضرورت تھی - لیکن ان پانچ برسوں میں اندرون ملک خونریزی اور تشدد کے بھی ریکارڈ ٹوٹ گئے - راجہ صاحب بتا رہے تھے کہ سارے مسایل انکو ورثے میں ملے تھے لیکن اچھی کارکردگی والی حکومتیں مسایل کو سلجھاتی ہیں انکو اور بڑھا چڑھا کر ملک کا ستیا ناس نہیں کرتیں اگر غیر جانبدار تجزیہ کیا جائے تو پنجاب میں یقینا ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور یہ مسلم لیگ ن کا کارنامہ ہے - ابھی نگراں وزیراعظم کا تعین باقی ہے - الیکشن کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے - طاہرالقادری خم ٹھونک کر میدان میں آچکے ہیں الیکشن ملتوی کرنیکی دھمکیاں دیکر کچھ نیک کام نہیں کر رہے عمران خان 23 مارچ کو لاہور میں سونامی یا سوناما لارہے ہیں - پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کے تما م دھڑے، جماعت اسلامی اور دیگر تمام مذہبی جماعتیں اپنا اپنا ایجنڈا لیکر کھڑی ہیں- انسے بس ایک ہی درخواست ہے -
منصفو میرے ملک میں بھی اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور لے آؤ

فاٹا اور قبائیلی علاقوں میں لڑائی اور قتل و غارت زوروں پر جاری ہے کراچی کا تو ڈھب ہی نرالا ہے وہاں کی خونریزی نہ جانے کب تھمیگی اور کتنے گھروں اور خاندانوں کو ویران کریگی- اسکے اوپر ڈرون حملے اور بلوچستان جو سب پہ بازی لے جاتا ہے - لیکن یہ میرا مادر وطن ہے اور میں چاہتے ہوئے بھی اس سے اور اس میں ہونیوالے واقعات سے پیچھا نہین چھڑا سکتی-

اب جبکہ نیند نہیں آرہی ہے اور اس صورتحال نے اور نیندیں اچاٹ کی ہوئی ہیں - میں کوئی خواب آور گولی نہیں لینا چاہتی- تو بہتر یہ ہے کہ اٹھکر فطرت سے رشتہ جوڑا جاے اور قریبی پارک میں چہل قدمی کی جاۓ کافی اچھا بڑا پارک ہے-روشیں چہل قدمی یا جاگنگ کے لئے بنی ہوئی ہیں-اسلام اباد میں موسم بھار بھر پور انداز میں آتا ہے ہر طرف خوبصورت ، خوشنما پھول بھار دکھا رہے ہیںشائقین نے سڑک تک کیاریاں بنا رکھی ہیں -پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی مخصوص راستہ نہیں ہے اسی وجہ سے جب میں ترقی یافتہ ممالک میں جاتی ہوں تو انکے پیدل چلنے والوں کی گزرگاہوں سے جھاں مستفیدہوتی ہوں، وہاں مجھے سخت رشک و رقابت بھی ہوتی ہے -چہل قدمی میں صحت کی صحت اور چشم ما روشن و دلے ما شاد والی کیفیئت ہوتی ہے کیونکہ پھول پودے ہمیشہ سے اپنی کمزوری ہیں صبح آٹھ بجےسے گھنٹیاں بجنی شروع ہوئیں مالی ،ماسی ڈرائیور،کوڑا اٹھانے والےکی آمد شروع ہوئی ان سب سلسلوں سے ہم کافی بے نیاز ہو چکے ہیں اگر ہفتے دو ہفتے میں کوئی میڈ یا مالی آتا ہے تو اسکے اوقات پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں باقی شوفر وہ تو ہم خود ہی ہوتے ہیں اگر کسی کو بتاؤ کہ پاکستان میں ہمیں یہ سہولیات ہیں تو انکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں -اسکے بعد آوازوں اور صداؤں کا ایک سلسلہ بندھ جاتاہے اور جھاں تک کوڑا اٹھانے کا سلسلہ ہے ، میرے مختلف ٹھکانوں میں یہ طریقہ کار تھوڑا مختلف ہے مثلا ایک جگہ ایک ہفتے باورچی خانہ کے کوڑے کے سااتھ باغ کے کچرے کا ڈمپسٹر جائے گا اگلے ہفتے ری سائیکل کا، ایک جگہ ہفتے میں دو روز کوڑا جاتا ہے -کوڑا اٹھانے والے ٹرک کا ڈرائیور بیٹھے بیٹھے اپنے ہائیڈ رالک گئیر سے اس کوڑا دان کو اٹھاکر الٹ دیتا ہے اور یہ جا وہ جا-ٹورنٹو والے کچھ زیادہ ہی ہوشیار ہیں انکے ہاں باورچی خانے کے کچرے کے لئے ایک الگ کوڑا دان ہوتا ہے جسمیں ایک مخصوص پلاسٹک کی تھیلی لگتی ہے یہ پلاسٹک جلد تحلیل ہوتا ہے اور ماحول کا دوست ہے-اس میں اگر ایک کاغز بھی پایا گیا تو اسپر چٹ لگا کر چھوڑ دیا جائےگا-اس سے وہ کھاد بناتے ہیں -

ہمارے یہاں ری سائیکل کا انتظام کیا بہترین ہے بچے کوڑے سے ایک ایک کاغذ چن کر الگ کرتے ہیں ،انکو کوڑا چننے والے بچوں کا ناام دیا گیا ہے کیونکہ یہی انکا ذریعہ معاش ہے- کوڑا اٹھانے والوں نے بہی مختلف تھیلے رکھے ہوتے ہیں- اور اس میں مختلف اشیاء کو علئحدہ رکھا جاتاہے-اسے بیچ کر انکی کمائی ہوتی ہے -- "ردیاں اخباراں ،ٹین ڈبے لینے والے کی صدائیں میں بچپن سے سنتی آئی ہوںوہ بھی ریسائکل یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کا ایک بہتریں ذریعہ ہے -بیچنے والے کو رقم الگ مل جاتی ہے-کراچی میں جب اپنا گھر سمیٹا تو بلا مبالغہ ہزاروں کی ردی بیچی جسمیں آڈیو کیسٹ ،ویڈیو کیسٹ اور بیشمار کتابیں و رسائل شامل تھے-،"پریشر کوکر بنوالو ، منجی پیڑی ٹھکوالو، گیس کے چولہے ٹھیک کروالو -پہلے ایک اور صدا آتی تھی پانڈے قلعئی کروالو جو اب خارج از وقت ہو چکی ہے' سبزی والے آئیس کریم والے جو اب چاکلیٹ بھی بیچتے ہیںانکے ٹھیلوں کی موسیقی رات گۓ تک بچوں کو کشاں کشاں کھینچتی ہے- بھانت بھانت کی آوازیں اور صدائیں ایک چہل پہل ایک رواں دوں زندگی کی علامت -انہی آوازوں میں مجہے وہ بچی بری طرح یاد آتی ہے جو چونی مٹھی میں دبانے ہوئی اسوقت گیٹ پر لپک کر جاتی جب دور سے یہ صدا آتی' چنا جور گرم بابو میں لایا مزیدار چنا جور گرم' اسے اسکا گانا بھی بیحد پسند تھا اور اسکا گرم گرم چنا جور بھی -پھر اسکا اور چنا جور والے کا رشتہ اتنا گہرا ہوا کہ اگر کسی روز اسے وہ نہ ملی- تو وہ گیٹ پر کھڑا گھنٹیاں بجاتا رہتا اور اپنے گانے کو ذرا اور اونچا اور لمبا کر دیتا 'بیبی آگیا تیرا چنا جور گرم والا " جب بڑے ہوکر اسنے 'کابلی والا' دیکھی تو اسے اپنا چنا جور گرم والا بہت یاد آیا جب امی ابا کی ڈانٹ بھی پڑتی تھی،کہ اسکو پیچھے کیوں لگادیا ہے -- --
Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 235673 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More