تبدیلی ۔۔۔۔پہلے خود سے

شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

الیکشن کا دور دورہ ہے، روٹھے ہوں کو منانے کا وقت آ گیا ہے۔ ہمارے تما م قومی و صوبائی ارکانِ اسمبلی کو اب ہر کسی کی خوشی و غم میں جانے کے لئے وافر ٹائم موجود ہے لیکن عرصہ پانچ سال گزر جانے کو ہیں کسی بڑئے پراجیکٹ کو مکمل نہیں کیا گیا جس کی بنیاد پر یہ لوگوں سے ووٹ مانگ سکیں یا عوام خود بخود ان کو ووٹ دیں۔ضلع میانوالی میں کوئی واضح کام جو کہ خالصتاً غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیا گیا ہو جس سے بےروزگاری کا خاتمہ ہو سکے وہ یا تو کاغذات میں دفن ہے یا وہ کسی نہ کسی وجوہات کی بنیادوں پر شروع ہی نہیں کیا جا سکا۔ بجلی وگیس کے لوڈشیڈنگ نے کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ غریب عوام کی ریڑھ کی ہڈی کے اتنے ٹکڑے کر دیئے ہیں کہ اکٹھا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ ہمارے ایک سیاسی لیڈر کہتے کہ دو سالوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہ کر سکا تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ ارے کوئی ان سے پوچھے کہ پورے پانچ سال میں آپ کو کس نے روکا تھا؟ مطلب پھر حکمرانی اور حکومت میں آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔خداراہ لوگوں کو سبز باغ دیکھا دیکھا کراب تو بے وقوف نہ بنائیں۔ہر غریب عوام کے بنیادی حقوق میں سے علاج و معالجہ ، تعلیمی کا آسان حصول، روزگار، اور جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے لیکن پاکستانی موجودہ حکومت تو ان سب حقوق سے بے پرواہ ہے۔ ضلع میانوالی کی کوئی ایسی بڑی تو بڑی چھوٹی سڑک موجود نہیں جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو گئی ہو۔کالاباغ روڈ کے بارے لوگ اخبارات میں لکھ لکھ کر پاگل ہو گئے ، روز کوئی نہ کوئی حادثہ ہو جاتا، کبھی کسی کی موت واقع ہو جاتی لیکن اس روڈ سے گزرنے والے بڑی بڑی گاڑیوں والے ارکانِ اسمبلی کو کیا پتہ کہ روڈ کا کیا حال ہو گیا ہے؟ ضلع میانوالی میں یونی ورسٹی کیمپس تو بن گیا لیکن ڈگری کالج کی اصل شکل کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ضلع میانوالی میں کیا تعلیم حاصل کرنے والوں کی کمی ہے جو ضلع میانوالی میڈیکل، انجیئرنگ، لاءکالجز سے محروم ہے۔ کیوں یہاں پر گورنمنٹ کوئی بڑی انڈسٹری لگاتی جس سے ضلع میانوالی میں بے روزگاری کا خاتمہ ممکن ہو۔کیوں یہاں سے منشیات کا خاتمہ نہیں ہو پاتا۔کیوں یہاں سے سود کی لعنت ختم نہیں ہو رہی۔ہم ضلع میانوالی کی عوام بھی بے حس ہیں لیکن ہمارے حکمران ہم سے دو درجے زیادہ بے حس ہیں۔ ضلع میانوالی کی تاریخ میں ایک نڈر ڈی سی او آیا وہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ اگر وہ کچھ عرصہ ضلع میانوالی میں رہ جاتا تو ضلع میانوالی سے کرپشن، لوٹ مار، سرکاری ملازمین کے مسائل، پولیس کی کارکردگی ، ہسپتالوں کے مسائل اور نہ جانے کون ، کون سے اداروں کے مسائل جو کہ صرف غریب عوام کےلئے بنائے جاتے تھے کو جڑ سے ہی ختم کر دیتا لیکن ہماری بدقسمتی کہ اس کے جانے کے لئے بھی کئی کئی لوگوں نے دعائیں مانگ رکھی تھی۔ ضلع میانوالی میں پرائیوٹ ہسپتالوں کا جال بن گیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ضلع میانوالی میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا جال بن گیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ضلع میانوالی میں بے ہنگم ٹریفک رواں دواں دوڑ رہی کوئی پوچھنے والا نہیں اور ہمارے ٹریفک پولیس اہلکار جو کہ ایک عام شہری بھی ہیں کسی غریب کو دیکھ لیں تو چالان سے بچ جائیں یہ ممکن نہیں جبکہ اس کے برعکس کسی طاقت ور کو دیکھ کر تو منہ ہی پھر لیتے چاہے سرے سے اس کی موٹرسائیکل یا گاڑی کا نمبر ہی موجود نہ ہو۔ ہماری عوام بھی بے حسی کا مظاہرہ کرنے میں کم نہیں ایسی جگہ پارکنگ کر دیں گے جس سے آنے جانے والے کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ۔چاہے جتنا لکھیں چاہے جتنا سمجھائیں جب تک انسان خود سے عمل پیرا نہ ہو گا کوئی چیز اس پر اثر نہیں کر سکتی چاہے وہ ایک عام شہری ہو یا ایک سیاسی لیڈر ہی کیوں نہ ہو۔یہی عام شہری اور سیاسی لیڈر جب دوسرے ممالک میں جاتے تو ان کے ایئر پورٹس پر اترنے کی دیر ہوتی کہ یہی پاکستانی جو ملک پاکستان کے بنائے ہوئے قوانین کو جوتوں کی نوک پر رکھتے ایسے سیدھے ہو جاتے کہ بندہ سوچ میں پڑھ جاتے کہ یہ وہی پاکستانی جو پبلک جگہوں پر سگریٹ نوشی کرتے، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگائے پھرتے، غلط پارکنگ کرتے، ٹریفک سگنل کو بڑے اکڑ کر گزر جاتے، اپنی باری کا انتظار کرنے کی بجائے لائنوں کو پھلانگ پھلانگ کر دوسروں کی جگہوں پر پہنچ جاتے وغیرہ وغیرہ۔اس سے یہ تو بخوبی اندازہ ہو جاتا کہ پاکستان میں بھی قوانین موجود ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے والے خود ہی عمل پیرا نہیں تو عام شہری کیا کریں گے۔یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے سیاسی لیڈر منتخب کریں جو پہلے خود صاف عمل اور اچھی سوچ کے حامل ہوں جن کو دیکھ کر کروڑوں پاکستانی بھی اپنے آپ کو تبدیل کریں۔ایسے بہت سے غیر قانونی اور جعلی حکمران پاکستان میں موجود ہیں جو کہ جعلی ڈگری، ٹیکس ناہندگان، کرپشن اور ناجانے کن کن عمل میں ملوث لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہمارے پاس بھی تو جعلی ڈگری موجود ہے، ہم بھی تو حکومت کو ٹیکس نہیں دیتے، ہم بھی تو کرپشن کرتے اور ہمارے ہی سے تو کرپشن شروع ہوتی۔ہر کسی کو دوسروں کے عیب نظر آتے اور جب ہر کسی کو اپنے عیب نظر آنے لگ گئے تومیرا کامل یقین کہ وہ دن پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے حقیقی تبدیلی کا دن ہو گا۔
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 56 Articles with 90019 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.