یہ جمہوری دور ہے،ہٹلر شاہی کام نہیں آسکتی

دوماہ قبل جب نتن گڈکری کو بی جے پی کے قومی صدر کے عہدہ سے استعفی دینا پڑا تھا۔ تب آناً فاناً میں راج ناتھ سنگھ کو یہ عہدہ سونپ دیا گیاتھا۔ تب سے ہی لگاتار انتظار کیا جارہاتھاکہ راج ناتھ سنگھ اپنی پارٹی کی نئی پارلیمانی بورڈ اور نئی قومی مجلس عاملہ کا اعلان کب کرتے ہیں؟اس کے ساتھ ہی لگاتار نریندر مودی کو بی جے پی کی طرف سے 2014کے لوک سبھا انتخاب میں وزیر اعظم کے عہدہ کا امیدوار قرار دینے کی بحث بھی چل رہی تھی۔ 31مارچ اتوار کو جب راج ناتھ سنگھ نے اپنی نئی ٹیم کا اعلان کیا تو یہ صاف ہوگیاکہ بی جے پی اب نریندر مودی کو اگلے پارلیمانی انتخاب میں پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکی ہے۔لیکن راج ناتھ سنگھ کی نئی ٹیم کا اعلان ہوتے ہی بی جے پی کے اندر تنازعات بھی پیدا ہونے لگے ہیں۔ورون گاندھی کو جنرل سکریٹری کا عہدہ دئے جانے پر پرانے بجرنگی، ممبر پارلیمنٹ ونئے کٹیار نے اپنے اسٹائل میں نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ ورون کے نام کے ساتھ چونکہ لفظ گاندھی لگاہوا ہے۔ اس لیے انہیں اس کا فائدہ ملاہے۔ کٹیار کی اس نکتہ چینی پر راج ناتھ سنگھ اور ان کی ٹیم کتنا توجہ دے گی، کہنا مشکل ہے۔ مودی کو انکے ساتھیوں سمیت نئی ٹیم میں کتنا وزن دیا گیا ہے،یہ سوال اہم نہیں ہے، اہم سوال یہ ہے کہ چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ رمن سنگھ اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کو نئی ٹیم سے پوری طرح دور رکھا گیا ہے۔ جھاکرھنڈ سے بھی یشونت سنہا اور ارجن منڈا جیسے بڑے لیڈروں کو درکنار کردیا گیا ہے،کرناٹک اور مہاراشٹر سے بھی ایک گوپی ناتھ منڈے کو چھوڑ کر راج ناتھ کی نئی ٹیم میں کوئی قابل ذکر لیڈر موجود نہیں ہے۔اس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،جھارکھنڈ اور کرناٹک ومہاراشٹر کی مدد کے بغیر کیا نریندر مودی وزیر اعظم بننے کااپنا سپناپوراکرپائیں گے؟رمن سنگھ، شیوراج سنگھ چوہان، ارجن منڈا جیسے لیڈروں کو راج ناتھ سنگھ کی نئی ٹیم میں توجہ نہ دینے کا مطلب صاف ہے کہ نریندر مودی کو ان سے ڈر لگتا ہے،اس لئے نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی وزیر اعظم کے عہدے کی نریند مودی کی دعویداری کے سامنے سینہ سپرہوسکتا ہے ،بلکہ اس لیے کہ نریندر مودی پچھلے کئی برسوں سے گجرات کی ترقی کا جو ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، اس کے مقابلے چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش بھی اپنی دعویداری پیش کرتا رہاہے۔ اور سچ پوچھئے تو جن کاغذی اعداد وشمار کے سہارے مودی گجرات کے ترقی کے دعوے کرتے رہے ہیں، ویسے کاغذی اعداد وشمار میں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ بھی پیچھے نہیں ہیں۔یہ اور بات ہے کہ حقیقی ترقی کے معنی کچھ اور ہی ہیں، کسی بھی ریاست کی ترقی کا حقیقی پیمانہ، وہاں غربت کی سطح، بے روزگاری کی شرح، تعلیم کی سہولت اور صحت خدمات کی دستیابی ہوتی ہے۔ گجرات ہویامدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ ہو یا بہار، ان حقیقی ترقیاتی پیمانوں پر بالکل کھرے نہیں اترتے۔ لیکن اس کے باوجود نریندر مودی ہی کیا،شیو راج سنگھ چوہان، ڈاکٹر امن سنگھ اور نتیش کمار بھی خود کو مرد ترقی، گرداننے میں لگاتار مصروف ہیں، اور اس کے لئے طرح طرح کے ہتھ کھنڈے بھی اپناتے رہے ہیں۔

سوراجیہ اور سوشاسن کی بات کرنے والی بھاجپا کی نئی ٹیم میں نریندر مودی کے قریبی امت شاہ کو بھی اہم عہدہ مل گیا ہے۔یہ وہی امت شاہ ہیں جن پر سہراب الدین اور پرجاپتی فرضی انکائونٹر کا مقدمہ چل رہاہے اور جو تین مہینے تک جیل کی ہوا بھی کھا آئے ہیں۔ امت شاہ پریہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ جب وہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے تب اور اس سے قبل انہوں نے سہراب الدین اور پرجاپتی جیسے غنڈوں کو اپنا الہ کار بنا رکھا تھا۔ یہ غنڈے امت شاہ کے لیے گجرات کے بڑے ارب پتی ہیرا بیوپار یوں سے رنگداری وصول کرتے تھے۔بعد میں بدنامی کے ڈر سے پولیس کے کئی اعلیٰ حکام سے نہ صرف سہراب الدین اور پرجاپتی کاکام تمام کر ادیا بلکہ اپنے شوہر کی تلاش میں امت شاہ تک پہونچنے والی سہراب الدین کی اہلیہ کو ثر بی کو بھی ٹھکانے لگوادیا۔ یہ سارے معاملے عدالت میں زیر سماعت ہیں اور گجرات کے ڈی جی پی رہے بنجارہ سمیت نصف درجن سے زائد پولیس حکام جیل کی سلاخوں کے پیچھے دن گزار رہے ہیں۔

بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ دیش کا نو جوان طبقہ مودی کی ترقی کا دیوانہ ہے، اور عام ہندو ووٹر مودی کی مسلم دشمنی، کے سبب انہیں ایک آئیڈیل ہندو لیڈر مانتا ہے۔ اس لیے مودی کو وزیر اعظم کے چہرہ کے طور پر پیش کرنے سے اگلے انتخاب میں وہ دہلی کی کرسی پر قابض ہوسکتی ہے۔حالانکہ 2004کے لوک سبھا انتخاب میں لال کرشن اڈاونی اور پرمود مہاجن(آنجہانی) جیسے لیڈران’’انڈیا شائننگ‘‘کا زور دار نعرہ لگارہے تھے۔ اس وقت بھاجپا کے پاس باجپائی جیسا وزیر اعظم کا چہرہ بھی موجود تھا، جو کم از کم فرقہ پرستی کیلئے نریندر مودی کی طرح بدنام نہیں تھا۔ تب بھی دیش کے ووٹروں نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔ اب دس برسوں سے بی جے پی اقتدار میں واپسی کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔مگر پھر بھی کوئی خاص امید نظر نہیں آرہی ہے، گجرات کو جنونی ہندوئیت کی کامیاب تجربہ گاہ بنانے والے نریندر مودی کو لگتا ہے کہ وہ پورے ہندوستان کو گجرات بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔لیکن انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک کا سیکولر ووٹر انتہا پسندی اور جنونیت کو بالکل پسند نہیں کرتا۔مغرور سیاستدانوں کو ووٹروں نے کبھی بھی پسند نہیں کیا ہے۔2004کے پارلیمانی انتخاب میں جب نریندر مودی جھارکھنڈ میں بھاجپا کے لیے انتخابی مہم چلانے آئے تھے ، تو ایک انتخابی جلسے میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’گجرات بنانے کے لئے نریندر مودی جیسا چالیس اینچ چوڑا سینہ چاہیے‘‘یہ سن کر بھاجپائیوں نے خوب تالیاں بجائی تھیں، کیونکہ صرف دوبرس پہلے گجرات گودھرااور بدترین فرقہ ورانہ فسادات کے سبب بری طرح لہو لہان ہواتھا۔ پوری دنیا میں بھارت کو اس حیوانیت ‘‘کے لیے شرمندگی جھیلنی پڑی تھی۔ مودی نے اس گر جدار بھاشن کے لئے تالیاں تو بٹوریں،لیکن ووٹ بٹورنے میں انہیں کامیابی نہیں ملی، جب انتخاب کانتیجہ آیا تو جھارکھنڈ کی 14پارلیمانی سیٹوں میں سے بارہ یوپی اے کی جھولی میں جاچکی تھیں۔

بھاجپا اگر گزرے حالات وواقعات سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے،تو یہ اس کی اپنی غلطی ہے، اور اگر 2014کے انتخاب میں بھی وہ دہلی کے اقتدار پر قابض ہونے میں ناکام رہتی ہے تو یہ بھی اس کی ہی اپنی گھٹیا سوچ کا نتیجہ ہوگا۔ہلاکو،ہٹلر اور چنگیز کی طرح مزاج میں شدت پیدا کرکے جمہوری دور میں کامیابی کی امید بھلا کیونکر کی جاسکتی ہے؟
Muzassar Hasan
About the Author: Muzassar Hasan Read More Articles by Muzassar Hasan: 4 Articles with 2220 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.