نتیش کمار اور بہار کے مسلمان

یہ ملک کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ 2014ء میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے لئے جن تین امیدواروں کے نام سامنے آرہے ہیں ان میں (راہول گاندھی) نتیش کمار اور نریندر مودی کوئی بھی اس عہدے کے لئے موزوں یا مستحق نظر نہیں آتا ہے۔ نریندر مودی کی تائید یا حمایت تو ہندوتوا دی گروہوں تک محددد ہے تاہم انہیں کمزور یا مقابلے کی صلاحیت سے محروم سمجھنا بھی غلط ہے۔ راہول غالباً ابھی خود طئے نہیں کرسکے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔ وہ لوگ جو یا تو جانتے نہیں ہیں کہ سیکولرازم کیا ہے؟ کس کو سیکولر کہا جاسکتا ہے؟ وہ نتیش کمار کو سیکولر گردانتے ہیں ان کا خیال ہے کہ نریندر مودی سے نتیش کمار بہتر رہیں گے۔

نتیش کمار خود کو سیکولر ظاہر کرکے ملک کو دھوکا دے رہے ہیں۔ ممتاز سوشلسٹ قائد آنجہانی رام منوہر لوہیا کے خاص شاگردوں یا ان کی جانشینی کے دعویداروں میں صرف جارج فرنانڈیز اور نتیش کمار کا سیکولرازم ہمیشہ مشکوک ماناگیا۔ مشہور مثل ہے کہ آدمی دوستوں سے پہچانا جاناتا ہے۔ جس طرح شریف آدمی غنڈوں کی صحبت میں خوش رہ سکتا یا سیکولر ذہنیت کا بندہ فرقہ پرستوں میں نہیں رہ سکتا ہے تو پھر جارج فرنانڈیز یا نتیش کمار بھلا کس طرح سیکولر ہونے کا دعویٰ کرکے بی جے پی کے ساتھ کس طرح رہے ہیں؟ اٹل بہاری واجپائی کی اچھائی یا نیک نفسی ان کے بی جے پی میں رہنے سے ہمیشہ ہی مشکوک رہی ہے۔ یہی حال فرنانڈیز کا تھا اور اب نتیش کا ہے۔

نتیش کمار کے دعووں کی مضبوطی کا انحصار ٹی وی چینلز اور نہ صرف ریاستی بلکہ قومی اخبارات پر ہے۔ نتیش نے اخبارات و ٹی وی چینلز کو اپنا ہم نوا بنانے کی اتنی کوشش نہیں کی ہوگی جتنا کہ میڈیا نے خود کو نتیش کمار کے حوالے کردیا ہے۔ بہار کے اخبارات میں (بہ شمول اردو اخبارات) نتیش کے خلاف خبریں یا مضامین شائع نہ کرنے کا مدیران جرائد نے خود کو اتنا پابند کرلیا ہے کہ پریس کونسل کے صدرنشین جسٹس کاٹجو کو خیال ہوا کہ کہیں نتیش کے بہار میں غیر اعلان شدہ سنسر شپ تو نہیں لگارکھی ہے۔ نتیش کے خلاف لکھنے والا قیمتی سرکاری اشتہار سے ضرور محروم ہوجاتا ہے۔

بہار کے عوام نے لالو پرسادیادو کی چند غلطیوں کی سزا انہیں تو سخت سزادی جبکہ 2005ء میں کانگریس نے بہار میں لالو کا زور توڑنے کے لئے سیکولر ووٹس کی تقسیم کا مکمل انتظام کیا تھا اور بہار پر بی جے پی اور نتیش کمار مسلط ہوگئے۔

نتیش کمار بی جے پی کے پرانے وفادار ہیں ان کو ہندوتوا کے علمبرداروں کی فرقہ پرستی، مسلم دشمنی اور فاشزم پر کبھی بھی اعتراض نہ رہا۔ 2002ء میں جب نریندر مودی نے ہندوتوادیوں سے گودھرا اسٹیشن پر سابرمتی اکسپریس کی بوگی نمبر6 کی آتشزدگی کا ڈرامہ کیا تو نتیش کمار جو اس وقت ریلوے کے وزیر تھے انہوں نے ریلوے کی جانب سے تحقیقات کا اہتمام نہیں کیا اور نہ ہی مقام حادثہ کا دورہ کیا۔ مودی کے تمام کذب و افتر کو تسلیم کیا اور مودی کو گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام، نسل کشی اور تباہی کا موقع فراہم کرکے قاتل مودی کے آلہ قتل بن گئے۔ وہ مسلمان جو نتیش کے مداح ہیں ان کا فرض ہے کہ وہ دیر سے سہی گودھرا پر سوالات ضرور کریں۔

بہار میں نتیش کمار وکاس (ترقی) کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ بہار کے مسلمان جو لالو جی کے دور میں مسلم کش فسادات کو بھو ل چکے تھے ان کو فاربس گنج میں بدترین فسادات کو بھول چکے تھے۔ ان کو فاربس گنج میں بدترین فسادات اور پولیس فائرنگ سے خاصہ مالی و جانی نقصان ہوا۔ لالو پربے عملی کا الزام لگانے والوں نے نتیش پر بے عملی کا الزام لگاکر تو دیکھیں کہ نتیش کیا کرتے ہیں؟

فاربس گنج میں ہی نہیں نتیش نے مونگیر، نوادہ وغیرہ اور مسجد میں گولی تو چلوادی لیکن مسلمانوں کے زخموں پر مرہم لگانے کا اہتمام نہیں کیا۔

دہشت گردی کے الزام میں مسلمانوں کو پھانسنا ان کو ہراساں ہی نہیں بلکہ ان کی زندگی اجیرن کرنے کو دہلی۔اترپردیش، آندھراپردیش، مہاراشٹرا، گجرات اور اب کرناٹک کی پولیس اور مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں نے فرض مان لیا ہے۔ دھماکے حیدرآباد میں ہوتے ہیں اور پکڑ دھکڑ بہار میں ہورہی ہے!۔ بہار کے ایک نوجوان (قتیل) کو پونا جیل میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔ نتیش کمار نے احتجاج، قاتلوں سزأ کو مطالبہ اور معاوضہ کی ادائیگی کے مطالبے تو خیر دور کی بات ہے قتیل کی لاش پونا سے بہار لانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے ہیں۔ بہار سے سعودی عرب گئے فصیح محمود کو ہندوستانی ایجنسیاں ہندوستان لانے میں کامیاب رہتی ہیں لیکن خاصے عرصے تک فصیح کے بارے میں ان کی اہلیہ پریشان رہتی ہے۔ عدالت عظمیٰ سے رجوع ہوتی ہے اور نتیش نے کچھ نہیں کیا ۔ ٹاملناڈو اور پنجاب کی حکومتیں راجیو گاندھی اور بینت سنگھ (وزیر اعلیٰ پنجاب) کے قاتلوں کو بچانے کے لئے ریاستی اسمبلیوں سے سیاسی دباؤ ڈال سکتی ہیں لیکن اپنی ریاست کے لوگوں کو بچانے کے لئے نتیش ’’بکاؤ‘‘ قسم کے مسلمان سیاسی قائدین کو خریدنے اور مدرسوں اور خانقاہوں کے نام پر رقمیں بٹورنے والی مذہبی شخصیات کو اپنے ارد گرد جمع کرکے مسلم دوستی کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور ہ بگاؤ لوگ نتیش کے قصیدے پڑھتے ہیں۔

بہار کے مسلمان اگر گزشتہ دو ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی طرح نتیش کو اپنے ووٹ دے کر ان کو اور ان کی پارٹی کے زیادہ امیدوار کامیاب کروائیں گے تو این ڈی اے میں رہتے ہوئے نہ سہی کانگریس کا ساتھ دے کر وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے کوشش کرسکتے ہیں لیکن کیا بہار کا مسلمان پھر ایک مرتبہ سابقہ غلطیوں کو دہراکر بہار پر نہیں بلکہ ملک پر ہندوتوا کا علمبردار نہ سہی ان کا دوست بن کر ملک پر مسلط ہونے کے ارادے رکھنے والے نتیش کو ووٹ دینے کی غلطی کریں گے تو مورخ ان کو مسلم دشمن قرار دے گا!

بہار میں مسلمانوں کو چھوڑیں غیر مسلم ارکان ریاستی اسمبلی سے بھی نتیش کمار نے خود کو دور رکھا ہے۔ 7-8سال سے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر فائز رہنے والے اپنے بے شمار ارکان اسمبلی سے کبھی ملے ہی نہیں اور ملے بھی تو ان کو مایوس کیا ہے تو بھلا ایسا بندہ کیا سارے ملک کو لے کر چلے گا؟ بہار میں نتیش نے ادھیکار ریلیاں منعقد کروائیں وہ پانی کی طرح پیسہ خرچ کرنے کے باوجود ناکام رہیں اور دہلی کی ادھیکار ریلی بھی پیسہ خرچ کرنے ٹیلی ویژن پر طول طویل کارروائی بتانے کے لئے مودی اور نتیش دونوں ٹی وی والوں کو موٹی رقوم ضرور حاصل کی ہوں گی۔ دہلی کی ریلی میں کانگریس اور بی جے پی کو علانیہ بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نتیش کمار کو لوگوں کو خریدنے کے علاوہ اپنی قیمت لگوانے اور موقع سے فائدہ اٹھانے کا ہنر خوب آتا ہے فی الحال کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی کو الو بنانے، دھوکے میں رکھنے میں مصروف ہیں۔ بہ یک وقت دو کشتیوں یا دو گھوڑوں پر سواری اکثر خطرناک ثابت ہوتی ہے یہی نتیش کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ جو لوگ بہار کے حالات سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک طرف نتیش مودی کے مقابل ہیں دوسری طرف ا ن کی پارٹی جے ڈی یو کے قائدین ہی نہیں بلکہ پارٹی ترجمان تک کو مودی کے خلاف کچھ کہنے سے منع کردیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں پارٹی ترجمان اور وزیر دیہی امور بھیم سنگھ کی معذرت خواہی اور مودی کے خلاف بیان واپس لینے کا واقعہ ہمارے دعوے کا ثبوت ہے (’’چوتھی دنیا ‘‘۔ دہلی مورخہ25فروری تا 3 مارچ 2013)

لالو کے بعد اقتدار جب نتیش کمار نے سنبھالا تو کچھ کرکے دکھایا تھا کچھ سڑکیں بنوائیں۔ امن و قانون کی صورت حال اور غنڈہ گردی پر کسی حدتک قابو پایا تھا لیکن بجلی و پانی کی صورت حال خاصی ابتر تھی اور اب تک ہے جو نئی سڑکیں بنی تھیں وہ اب خستہ ہوچکی ہیں اور جو نہیں بن سکی تھیں وہ ہنوز جوں کی تو ہیں۔ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے ریاستی سرکار یا مرکزی حکومت کی اسکیموں پر خاطر خواہ عمل نہیں ہورہا ہے نہ ہی نئی صنعتوں کا قیام عمل میں آرہا ہے اور نہ ہی ریاست میں سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ نکسلی تحریک و تشدد کا اثر ریاست کے دس اضلاع سے بڑھ کر 23اضلاع میں ہوچکا ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ اردو کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے اس کا احوال ضبط تحریر میں لانے کے لئے ایک طویل مضمون لکھنا ضروری ہے۔ ہم صرف چند واقعات کا ذکر کریں گے۔ رحمانی فاؤنڈیشن نے تعلیمی اداروں کے قیام کے لئے پوٹھیا (ضلع کشن گنج) میں قیمت دے کر زمین خریدی پولیس اس زمین پر قبضہ اس وجہ سے نہیں دلاسکتی ہے کہ اس زمین پر آدی واسی آباد ہیں!۔ پولیس کو ان پر سختی کرنے سے احتراز ہے۔ بہار کی وزارت تعلیم نے اسکولوں کے نصاب سے بعض جگہ اردو اور فارسی خارج کردی ہے۔ مدرسہ ایجوکیشن کے ملازمین کی حالت دوسرے تعلیمی اداروں کے ملازمین کے مقابلہ میں بدتر ہے۔ حکومت کی بے ایمانی کی انتہا یہ ہے کہ اقلیتوں کے لئے مرکزی حکومت کی فلاحی اسکیموں کی رقم مسلمانوں پر بہت کم خرچ کی جاتی ہے جو خرچ کی جاتی ہے اس کو بھی ریاستی حکومت اپنے کھاتے میں ڈال دیتی ہے (12862) اردو اساتذہ کی جائیدادوں کو کس طرح بہانوں اور سازشوں سے محفوظ کو غیر محفوظ بناکر اردو والوں کی حق تلفی کی گئی۔ غیر اردو داں اور اردو داں کے لئے الگ الگ معیار مقرر کرکے اردو دانوں پر ظلم کیا گیا۔ اس سلسلے کی ساری تفصیلات ’’سیکولر محاذ ‘‘(پٹنہ) کے (1تا15) فروری2013) کے شمارے میں ملاحظہ کریں۔ نتیش کمار سنگھ پریوار کے زعفرانی ایجنڈے پر کس طرح عمل کررہے ہیں اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بہار قانون ساز کونسل کے 100سال مکمل ہونے کی تقریب ’سنکھ‘بجاکر شروع ہوتی ہے۔ یوم بہار میں اردو اور مسلم تاریخ کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

بہار کے سرکاری اسکولوں میں ’سوریہ نمسکار‘ کو داخل نصاب کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں کے احتجاج پر وزیر اعلیٰ کے سامنے احتجاج کرنے والے رکن کو پاکستانی اور غدار وطن کہا گیااور نتیش خاموش رہے اور صرف اتنا کہا کہ ’سوریہ نمسکار زبردستی نہیں کروایا جائیگا گویا سوریہ نمسکار پر زور دینا نہ غیر آئینی ہے اور نہ غیر قانونی۔

تیش کا بینہ کے تمام اہم وزیر ہندوتوا کے علمبردار ہیں ان کا نائب وزیر اعلیٰ آر ایس ایس سے وابستہ سوشیل مودی کسی طرح بھی نریندر مودی سے کم نہیں ہے۔

نتیش صرف اقتدار کے بھوکے ہیں اور ان کی تمام تر وفاداری سنگھ پریوار سے ہے سیکولرازم کی نقاب اوڑھ کر وہ ہر ایک کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ ان میں اور نریندر مودی میں بہت زیادہ فرق نہیں ہیں۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 168382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.