آئین اگر غیر شرعی ہے تو نام نہاد نظام عدل پر دستخط کس کے ہیں

خیر سے آج خبر آئی ہے کہ ن لیگ کے نواز شریف صاحب نے بھی نظام عدل معاہدے اور صوفی محمد کی سرگرمیوں پر تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ جذبات کی رو میں بہنے والے ہمارے بہت سے بھائی صرف شریعت کے لفظ کو لے کر اور پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں وہ یہ نہیں دیکھ رہے کہ شریعت کا نام لے کر کام کرنے والوں کا مقصد کیا ہے اور ان کی عزائم کیا ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس وقت ایک ستر سالہ بوڑھے کو شریعت یاد آگئی جب جسم و جان و ہڈیوں میں زیادہ طاقت تھی تو اس وقت یہ صوفی صاحب کیا کر رہے تھے زرا یہ تو پتا چلے کہ گزشتہ تیس چالیس سال سے کون سے شرعی معاشرے میں وقت گزاری کر رہے تھے اچانک سب کچھ (عدالتیں، وکلا، آئین، ججز سیاسی لوگ) کیسے غیر شرعی نظر آنے لگے صوفی صاحب کو۔

خیر بھائی کچھ بھائیوں کو یہ بات بڑی بری لگ رہی ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم کسی طالبان کی شریعت کو نہیں مانتے ہم تو مانتے ہیں اس شریعت کو جس کو صاحب شریعت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے اور جب شریعت میں یہ کہہ دیا گیا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے تو یہ طالبان ٹائپ کے لوگ کون ہوتے ہیں جو معاہدوں سے پہلے تو اسکولوں کو تباہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں معاہدوں کے بعد دیکھیں گے کہ عورتوں کو تعلیم دلانے کے سلسلے کو بھی دیکھ لیں گے۔ اور ہمارے مذہب میں پروردگار عالم نے کہہ دیا ہے اللہ کمی بیشی معاف فرمائے سورۃ البقرہ میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے “لااکرہ فی الدین یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔“ اور سورۃ الکفرون میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے “تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر “ کیا اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ نہیں میں تو اپنے دین پر صحیح ہوں اور تمہیں تلوار کے زور پر اپنے دین میں لے آؤں گا۔

اب آہستہ آہستہ ہمارے بھائیوں کو طالبان کی شریعت اور انکے عزائم نظر آنے لگے ہیں اور انشاﺀ اللہ وہ وقت دور نہیں جب ان طالبان کے عزائم پوری طرح نظر میں آنے کے بعد لوگوں کے لیے حق کے راستے کو چننا آسان ہو جائے گا۔ میں تو خلوص دل سے دعا کرتا ہوں کہ میرے وہ بھائی جو شریعت کے نام کو لے کر چومنے اور چاٹنے میں لگ رہے ہیں وہ زرا غور تو کریں کہ شریعت کے نام پر کون کیا کیا کرنے کے عزائم لے کر آرہا ہے۔ یاد کریں محترم جناب ضیا الحق صاحب بھی تو کتنے شرعی ارادے لے کر آئے تھے اور کتنی شریعت دے کر گئے تھے جن لوگوں نے ضیا دور میں نام نہاد شرعی کوڑے کھائے ہیں ان سے پوچھیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان دیر کے علاقے پر بھی قابض ہوا چاہتے ہیں اور اسکے بعد دوسرے علاقے اور پھر دوسرے علاقے اور دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکتا ہے۔

اور مزید غور فرمائیں شانگلہ میں طالبان نے اعلان کر دیا ہے کہ جمعرات کو جو بھی غیر شرعی عدالتوں میں پیش ہوگا اس کا انجام دکھا دیں گے۔

یہی بات جب الطاف حسین بھائی کہہ کہہ کر نا تھک رہے تھے تو ہمارے دوسرے سیاسی لیڈران پتہ نہیں کیا سوچنے میں لگے ہوئے تھے اور سر ہلا ہلا کر انکاری تھے اور اب پریشانی کے عالم میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں لیڈر جو وہ کچھ وقت سے پہلے بھانپ لے جو عام لوگوں کو کچھ دیر میں سمجھ میں آئے۔ میری ان باتوں سے میرے کچھ بھائیوں کو بڑی تکلیف پہنچ رہی ہو گی اور وہ حق کی بات سمجھنے کے بجائے الٹے سیدھے بیانات اور تاویلیں نکال نکال کر لائیں گے۔ بحرحال مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دیکھ لو میرے دوستوں جب ایم کیو ایم نے نام نہاد نظام عدل کے قومی اسمبلی سے پیش ہونے کے وقت احتجاج اور مخالفت کی تھی تو جب بھی تو ایم کیو ایم حکومت میں شریک تھی مگر اصولی مؤقف جو ایم کیو ایم جیسی سیاسی جماعت کی نظر میں اصولی ہو گا اس پر ڈٹ جانا ہی اصل میں ملک و قوم کے ساتھ وفاداری ہے۔ ناکہ اس وقت بےغیرتوں کی طرح چپ رہ جانا اور اب شور کرنا کہ طالبان پر ہمیں تشویش ہے اور یہ ہے اور وہ ہے۔ ایم کیو ایم نے یہ نہیں سوچا ایک لمحے کے لیے بھی حکومت میں ہوتے ہوئے ہم بالکل اکیلے کسی چیز کی اس طرح مخالفت کے بعد برے حالات کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اچھا میرے بھائیوں اب تو دیکھتے جائیں آگے آگے کہ کیا ہوتا ہے اور کس کا مؤقف صحیح ثابت ہوتا ہے۔

ہمارے محترم لوگ تو سیاسی چیف جسٹس کی بحالی پر بھی بڑے خوش و خرم تھے کہ پاکستان کی تقدیر بس اب تو بدل ہی جائے گی مگر اپنے حلیف کی حکومت بحال کروانے میں جتنا ایکٹو کردار مسٹر چیف جسٹس نے ادا کیا اس کے بعد تو چپ سادھ کر ہی بیٹھ گئے ہیں۔

کیا یہ عدالت کی توہین نہیں ہے کہ کوئی کہے کہ ہم ان غیر شرعی اور حرام عدالتوں کو نہیں مانتے اور آئین کو بھی غیر شرعی اور اسمبلیوں کو بھی غیر شرعی کہتے ہیں۔ اور پھر بھی نام نہاد سول سوسائٹی اور زندہ ہیں وکلا زندہ ہیں کہاں ہیں بھی وہ زندہ بڑے بڑے ٹی وی پر بیانات دینے والے وکلا رہنما اور سابقہ چیف جسٹس حضرات اور وہ ہمارے بڑے فوجی تبصرہ نگار خصوصا جنرل اسلم بیگ، جنرل حمید گل اور وہ چلے ہوئے کارتوس ایکس سروس مین اور اب تو منور حسن صاحب بھی کھل کر طالبان سے ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ کاش اس وقت نام نہاد نظام عدل کی (طالبان کی نظر میں) غیر شرعی قومی اسمبلی میں پیش ہونے اور پاس ہونے کے وقت کچھ تو غیرت کا مظاہرہ بڑی سیاسی جماعتیں بھی کر لیتیں۔

ویسے یہ طالبان بھی بڑے دلچسپت لوگ ہیں سوال یہ ہے کہ ایک طرف سیاسی جماعتوں اور اسمبلیوں کو غیر شرعی قرار دے رہے ہیں دوسری طرف اے این پی اور صوبہ سرحد کی اسمبلی اور حکومت کی تعریفیں کی جارہیں ہیں۔

ایک طرف صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی غیر شرعی اور آئین پاکستان بھی غیر شرعی اور پھر بھی اسی قومی اسمبلی اور اسی آئینی صدر سے نام نہاد نظام عدل پر دستخط کروانے کے لیے زور و شور ڈالا گیا تھا کیا ہم لوگوں کو ایسے منافق لوگوں کی اب بھی سمجھ نہیں آرہی۔

زرا یہ سوال کوئی طالبان سے پوچھنے کی جسارت تو کرے

میرے کچھ بھائیوں کو بڑی تکلیف پہنچی ہو گی اور ان کے تبصرے بتا دیں گے کہ تکلیف کی شدت کتنی ہے۔ مگر میں تو جو حق سمجھوں گا کہوں گا کیونکہ مجھے کسی طالبان یا انکے کسی چیلوں کو جواب نہیں دینا آخرت میں بلکہ مجھے تو اپنے رب کو جواب دینا ہے اور میرا اپنے رب سے جو تعلق ہے اسکے بیچ میں کوئی نہیں آتا۔

M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 494282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.