ڈرون حملوں کے بارے میں پینٹاگون کی پالیسی پاکستان کی نئی حکومت کے لیے چیلنج

گزشتہ روز امریکا نے کہا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے اس کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جہاں بھی ڈرون کی ضرورت محسوس ہوئی ، حملہ کریں گے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے جاری پالیسی میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں۔ دنیا بھر میں ان حملوں کا کنٹرول فوج کو دیے جانے کے باوجود پالیسی برقرار رہے گی۔ خصوصی فوجی آپریشنز کے حوالے سے نائب سیکرٹری دفاع مائیکل شی ہان نے میڈیا کو بتایا کہ القاعدہ کے خلاف جنگ مزید 20 سال جاری رہ سکتی ہے۔ امریکا کے دشمنوں کا تعین پینٹاگون کرے گا اور تمام حملے صدر اوباما کے حکم پر ہوں گے۔

پاکستان میں ایک عرصے سے امریکی حکومت کے حکم سے ڈرون حملے ہورہے ہیں جن میں اب تک بے شمار بے گناہ پاکستانی مارے جاچکے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے ہر لحاظ سے غیر قانونی ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت تمام ممالک ان حملوں کو غیر قانونی اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف قرار دے چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے بھی یورپین پارلیمنٹ کے سامنے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ امریکی ڈرون حملے غیر قانونی ہیں، اس میں معصوم لوگ مارے جاتے ہیں۔ یورپی یونین کے لیے پاکستان کے سفیر منور بھٹی کا کہنا تھا کہ ہم ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور پاکستان کی خود مختاری و سلامتی کے منافی سمجھتے ہیں۔یورپین پارلیمنٹ کے ایک رکن برونس سارہ لڈفورڈ نے نشان دہی کی کہ ڈرون حملے سراسر غیر قانونی ہیں۔ ایک بین الاقوامی این جی او کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلری سٹوفیر نے بتایا کہ امریکا کے حملوں میں 4700 لوگ مارے گئے ہیں جن میں شدت پسندوں کی تعداد 3,4 فیصد ہے۔ 3 روز قبل پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے جنگی جرائم ہیں، سیکورٹی فورسزکو اختیار ہے کہ وہ ڈرون میزائل فائر کرنے والے جہازوں کو مار گرائیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے ڈرون حملوں کو جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے وزارت خارجہ کوحکم دیا ہے کہ وہ ا قوام متحدہ میں ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد جمع کرائے اور اگر امریکا اس قرارداد کو ویٹو کرے تو امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں۔ قبل ازیں پشاور ہائی کورٹ نے وکلاءکے دلائل مکمل ہونے پر ڈرون حملوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے خلاف رٹ پٹیشن مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایف ایم صابر ایڈووکیٹ نے 2011ءمیں دائر کی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ڈرون حملے ملکی سالمیت و خود مختاری کے خلاف اور جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا کہ معصوم انسانی جانوں کے ضیاع پر امریکا ان کے ورثاءکو معاوضہ ادا کرے اور حکومت پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے قرارداد تیار کرے۔ اس قرار داد کے متفقہ طور پر منظور ہونے کی صورت میں پاکستان افغانستان میں نیٹو افواج کی سپلائی لائن اور تمام لاجسٹک سپورٹ بند کرے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق حکومت اس سلسلے میں جنگی جرائم ٹریبونل بنائے اور اس مسئلے کو حل کرے۔ پشاور کے معروف قانون دان قاضی بابر کا کہنا ہے ”بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک کوئی بھی ایسا حکمران نہیں آیا جو امریکا کو یہ کہہ سکے کہ بین الااقوامی قوانین کی رو سے امریکا پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا جبکہ انہیں یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ ان کے جاسوسی طیارے پاکستانی علاقوں میں داخل ہو کر بے گناہ افراد کو میزائل حملوں کا نشانہ بنائیں، کسی بھی حکومت نے امریکا کو یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ پاکستانی شہریوں کو اپنے مقاصد کے لیے مارنے کا حق نہیں رکھتے“۔

پاکستان کی گزشتہ حکومت نے کبھی سنجیدگی سے ڈرون حملوں کو رکوانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں بے گناہ لوگ امریکی درندگی کا نشانہ بنیں۔پاکستان کی عوام چاہتی ہے کہ کسی طرح پاکستان میں جاری امریکی اجارہ داری ختم ہو اور وہ ڈرون حملے بند کرے۔اسی لیے انتخابات میں پاکستانیوں کی اکثریت نے ڈرون حملوں کے حمایتیوںاور ان حملوں کو کسی بھی طرح جواز کی سند دینے والوں کو انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار کیا ہے۔ 11 مئی کوہونے والے عام انتخابات دراصل 86.189 ملین رجسٹرڈ ووٹروں کے یہ انتخابات پیمائش اور گنجائش کے لحاظ سے جمہوریت کی سب سے بڑی مشق تھی۔انتخابی نتائج نے علاقائی اور صوبائی خطوں پر کچھ شگاف ظاہر کیے ہیں کیوں کہ کسی بھی ایک جماعت نے پاکستان کے تمام حصّوں سے کامیابی حاصل نہیں کی ہے لیکن پاکستانی ووٹرایک محاذ پر متحد نظر آئے، وہ یہ کہ انہوں نے ایسے تمام سیاستدانوں کو مسترد کر دیا جنہوں نے چپ چاپ یا کھلم کھلا پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ امریکی ڈرون کے حمایتی ہیں کو لوگوں نے یکسر مسترد کر دیاجبکہ وہ دو جماعتیںمسلم لیگ ن اور تحریک انصاف جنہوں نے پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی کھل کر مذمت کی 11 مئی کے انتخابات میں فاتح بن کر سامنے آئے۔

میاں نوازشریف اور عمران خان انتخابات سے پہلے ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے تھے اسی لیے عوام نے ان کو کامیاب کروایا ہے۔انتخابات سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کہتے تھے کہ قبا ئلی علاقوں میں ڈرون حملے حکومت کی مرضی سے ہورہے ہیں، تحریک انصاف ہی قبائلیوں کے نقصانات کا ازالہ کرے گی،ڈرون حملے ملکی و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اور این آر او کے زریعے ڈرون حملوں کی اجازت دے کر قبائلی نوجوانوں کی زندگی تباہ کر دی، حکومت نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میںشرکت کے لیے کوئی آزاد رائے نہیں لی اور فوج سمیت قبائلیوں کوتباہ کرنے کے لیے اس جنگ میں جھونک دیا۔تحریک انصاف پاکستان کو امریکی جنگ سے نکالے گی اور قبائلیوں کے تمام نقصانات کا ازالہ کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ گیارہ مئی کے بعد میں ڈرون حملوں کو گرانے کا حکم دے دوں گا۔

میاں نواز شریف بھی کئی بار ڈرون حملوں کی مذمت کرچکے ہیں۔کچھ دن قبل ہی میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے کی مشیر روبن رافیل نے ملاقات کی اور پاک امریکا تعلقات دہشت گردی کے خلاف جنگ سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ نوازشریف نے کہا کہ پاکستان پر ڈرون حملے بند کیے جائیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مستحکم پاکستان ضروری ہے۔ ملاقات کے دوران میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کا خواہاں ہے مگر کوئی ملک ہماری سلامتی اور خودمختاری کی خلاف ورزی کرے تو اس سے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ (ن) لیگ کی قیادت نے ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا۔چار روز قبل امریکی اخبار ”وال سٹریٹ جرنل“ کو انٹرویو دیتے ہوئے میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کام کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں پر پاکستانی عوام کو تشویش ہے اور مجھے امید ہے کہ اس حوالہ سے ہم کسی تصفیہ پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔انتخابات میں عوام نے ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والوں کو کامیاب کروایا ہے،حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں انتخابات سے پہلے ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والے ہیں،یہ اگر چاہیں تو امریکی حکم کو مسترد کرتے ہوئے ڈرون حملے روکنے کا حکم دے سکتے ہیں،اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھیں عوام نے اب کی بار ڈرون حملوں کے حمایتیوں کو مسترد کیا ہے، اگر انہوں نے بھی ڈرون حملے نہ رکوائے تو اگلی بار ان کو بھی مسترد کردیں گے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638527 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.