پارلیمنٹ: ایلیٹ کلاس کا ڈیبیٹنگ کلب

پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی، کسی بھی ملک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے، وہاں پارلیمنٹ ایسا مقتدر ادارہ ہوتا ہے جہاں نہ صرف ملکی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں بلکہ ملک کی قسمت کے فیصلے بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان کثرت رائے سے کرتے ہیں۔ جمہوریت کا حسن ہی یہ ہوتا ہے کہ ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کوئی فرد واحد نہیں کرتا بلکہ بحث و تمحیص کے بعد اس ملک کے منتخب لوگ اتفاق رائے سے یا کثرت رائے سے ایسے فیصلے کرتے ہیں اور ایسی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں جو سراسر اس ملک اور عوام کے حق میں ہوتی ہیں۔ دنیا کی اکثریتی ممالک کی طرح پاکستان میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے، آئین و قوانین موجود ہیں۔ جب کبھی فوج اپنا سانس درست کرنے کے لئے عنان حکومت سویلین اور سیاسی لوگوں کے سپرد کرتی ہے تو الیکشن بھی ہوجاتے ہیں، الیکشن ہوجائیں تو مرکز اور صوبوں میں سیاسی حکومتیں بھی قائم ہوجاتی ہیں۔ تھوڑی دیر کے لئے ہی صحیح، ٹریلر کے طور پر ہی صحیح، جب کبھی بھی سیاسی حکومتیں قائم ہوتی ہیں، اس وقت ہی جمہوریت کی روح پر عملدرآمد ہوجانا چاہئے کہ تمام پالیسیاں پارلیمنٹ میں مکمل غور و فکر اور بحث کے بعد مرتب کی جائیں اور بعد ازاں ان پر مکمل عمل کیا جائے۔ پاکستان شائد اس کرہ ارض کا وہ واحد بدنصیب ملک ہے جہاں جب جب فوج نے کمال مہربانی اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاستدانوں کو موقع مرحمت فرمایا، نہ صرف سیاستدانوں نے قوم کو مایوس کیا بلکہ قوم کا بیڑہ غرق بھی کرنے کی کوشش کی۔ سیاستدانوں نے اگر کوئی کام کیا تو وہ یہ کہ اقرباء پروری کی، رشوت اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا، سیاسی مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی اور سب سے بڑھ کر اپنی جیبیں بھرنے پر لگے رہے۔ پاکستان کے ارکان پارلیمنٹ نے اگر کبھی اپنے ذاتی کاموں سے توجہ ہٹا کر ملک و قوم کے بارے میں سوچا بھی اور کسی قسم کی کوئی پالیسی بنائی بھی تو اس پر عمل کرنا گناہ سمجھا گیا۔ اول تو ارکان پارلیمنٹ کے پاس اتنا وقت ہوتا ہی نہیں کہ وہ کسی قسم کے عوامی مفاد کی بات بھی کریں کیونکہ انہوں نے اپنے عزیز، رشتے داروں اور دوستوں کے اسلحہ لائسنس بنوانے ہوتے ہیں، پرمٹوں کے پیچھے بھاگنا ہوتا ہے، من پسند افراد کو ٹھیکے لے کر دینے ہوتے ہیں، بچوں کو امتحان پاس کرانے ہوتے ہیں، نوکریوں کا بندوبست کرنا ہوتا ہے، اپنی مراعات کے بارے غور و فکر کرنا ہوتا ہے، کسی کو بیرون ملک علاج کے لئے جانا ہے تو کسی کو سیر و تفریح کے لئے، کسی وزیر کو نئی گاڑی چاہئے تو کسی کو بنگلہ، قصہ مختصر یہ کہ ان بیچارے ارکان پارلیمنٹ کے پاس وقت ہوتا ہی کب ہے کہ وہ عوامی بکھیڑوں میں پڑیں، اور عوام انکے کوئی سگے تھوڑے ہی ہوتے ہیں، عوام تو ہیں ہی کاٹھ کے الو !

بات ہورہی تھی پارلیمنٹ کی، تو پاکستان کی پارلیمنٹ میں اراکین نے اکثر و بیشتر مواقع پر صرف دھواں دھار تقاریر کی ہیں اور آمروں (فوجی ہوں یا سیاسی) نے ربڑ سٹمپ کا کردار ادا کیا ہے۔ کبھی آٹھویں ترمیم جیسا کلہاڑا ایجاد کیا گیا، کبھی چودھویں ترمیم سے راتوں رات امیر المومنین بننے کی کوشش کی گئی اور کبھی سترھویں ترمیم سے آمرانہ اقدامات کو تحفظ دیا گیا۔ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ کا حال بھی پہلے سے بہتر نہیں ہے بلکہ شائد اس سے بھی زیادہ ابتری آگئی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ایک قرارداد پاس کرتا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے پر حملے کو پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ سمجھا جائے گا اور امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستانی سرزمین پر حملے فوری طور پرروکے جائیں، لیکن اثر کیا ہوا، پارلیمنٹ کی قرارداد کو ٹشو پیپر سمجھا گیا، جس سے غلاظت صاف کی اور گند کی ٹوکری میں پھینک دیا! پارلیمنٹ نے نظام عدل ریگولیشن بل کثرت رائے سے منظور کیا، پس و پیش کے بعد صدر نے بھی بالآخر دستخط کر دیے، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ سوات میں اس نظام کو جان بوجھ کر ناکام بنا دیا گیا، امریکی اور بھارتی ایجنٹوں نے طالبان کا بھیس بدل کر کارووائیاں شروع کردیں، اگر بہ امر مجبوری حکومت نے نظام عدل ریگولیشن منظور بھی کرلیا اور نافذ بھی کردیا تھا تو تھوڑا سا وقت بھی دینا چاہئے تھا، اب تو لگتا ہے کہ یہ سارا کھڑاگ صرف اس لئے پھیلایا گیا تھا تاکہ بعد میں فوری کارروائی کے لئے گراﺅنڈ بنائی جا سکے۔ چنانچہ فوجی کارروائی کا جواز پیدا کیا گیا، فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا اور اب ماشاء اللہ قومی اسمبلی میں سوات اور باقی شورش زدہ علاقوں کی صورتحال پر بحث ہو رہی ہے، بڑی دھواں دار قسم کی تقریریں ہو رہی ہیں، تقریروں پر ڈیسک بجائے جا رہے ہیں، واہ واہ اور بلے بلے کا شور ہے....! ارے بھائی اگر تقریروں کا اتنا ہی شوق ہے تو موچی دروازہ یا لیاقت باغ میں جلسے رکھ لئے جائیں، مزار قائد یا تبت سنٹر میں ریلی میں تقاریر کا شوق پورا کرلیں، آپ خوامخواہ اپنا اتنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں۔ اسی وقت میں اچھے بھلے دوسرے ”کاروباری“ امور نپٹائے جا سکتے تھے۔ سیر و تفریح کے لئے اسلام آباد تشریف لے جانے کی کیا ضرورت تھی، جہاں پہلے ہی طالبان طالبان ہورہی ہے، ارے بھائی لوگ! آپ سب کو تو کسی دور دراز ملک کے پر فضا مقام پر ہونا چاہئے، جہاں تک بم دھماکے وغیرہ نہ پہنچ سکیں، آپ سب کو تو کسی پر امن ملک میں ہونا چاہئے، ہو سکتا ہے آپ کے ”وہاں“ جانے سے ”یہاں“ کے حالات میں کوئی اچھائی پیدا ہوجائے، ڈیبیٹنگ کلب تو وہاں بھی بن سکتا ہے، آخر مشرف بھی تو وہاں جا کر لیکچر دیتا ہے...!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 208210 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.