طالبان کے پاکستان سے مذاکرات ثبوتاژ کرنے میںامریکاکامیاب ہوگیا

بدھ کے روز شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹرز میرانشاہ میں امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے نائب امیر مفتی ولی الرحمن سمیت چھ افراد جاں بحق اور 4زخمی ہوئے۔جمعرات کوتحریک طالبان پاکستان نے ڈرون حملے میں نائب امیر مفتی ولی الرحمن کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے امن مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کا اعلان کردیا۔ ترجمان کے مطابق ولی الرحمن کی موت کے بعد تنظیم کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں طے پایا کہ اب مذاکرات کا راستہ بند کر کے نائب امیر کی موت کا بدلہ لیا جائے گا۔ تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا کہ ہمیں ولی الرحمن کی شہادت پرفخرہے اوراس سے ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ ہم حکومت کوبھی ڈرون حملے کاذمہ دارسمجھتے ہیں، ولی الرحمن کی شہادت کابدلہ لیں گے۔ولی الرحمن کی شہادت کے ساتھ ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات کاراستہ بند ہو گیا ہے، ہم امن مذاکرات کوختم کرنے اوربات چیت کی پیشکش واپس لینے کااعلان کرتے ہیں۔ تحریک طالبان حکومت پاکستان کے خلاف انتقامی کارروائیاں جاری رکھے گی۔ہم نواز شریف حکومت کے ساتھ صدقِ دل سے مذاکرات کے حامی تھے مگر انہوں نے بھی ہمیں مایوس کیا اور ہمیں ایسا نظر آرہا ہے کہ امریکا اب ان کے کندھوں پر سوار ہوکر تحریک طالبان پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے، انہو ں نے کہا کہ مذاکرات وہاں کیے جاتے ہیں جہاں مثبت پیش رفت کی توقع ہو مگر گزشتہ ڈرون حملے نے واضح کردیا کہ پاکستانی حکومت مذاکرات میں مخلص نہیں، صرف امریکی خواہش پر مذاکرات کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔ کمانڈر ولی الرحمن اس سال پاکستانی سرزمین پر ہونے والے امریکی ڈرون حملوں میں مارے جانے والے دوسرے اہم طالبان کمانڈر ہیں۔ اس سے پہلے جنوری میں ایک ڈرون حملے میں طالبان کمانڈر ملا نذیرمارے گئے تھے۔ولی الرحمن کا تعلق محسود قبائل کی سب سے مضبوط شاخ مال خیل سے تھا اور اسی وجہ سے محسود طالبان کی اکثریت ان کے ساتھ تھی اور وہ ان میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ تحریک طالبان پاکستان کو 2009 میں بیت اللہ محسود کی ڈرون حملے میں موت کے بعد اب دوسرا بڑا دھچکا نائب امیر ولی الرحمن کی موت کی صورت میں لگا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں نو منتخب سیاسی جماعتیں اور طالبان آہستہ آہستہ مذاکرات کی جانب بڑھ رہے تھے اس حملے کی امریکا کو ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ایسا محسوس ہوتاہے کہ امریکا کسی صورت بھی حکومت کے پاکستانی طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتا۔یاد رہے کہ رواں سال فروری میں تحریک طالبان کے ترجمان نے ایک ویڈیو پیغام میں حکومت پاکستان کو مذاکرات کی دعوت اس شرط پر دی تھی کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن، نوازشریف اور سید منور حسن فوج یا حکومت کے لیے ضمانت دیں تو مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں۔اس کے بعد انتخابات کے قریب ایک بار پھر پاکستانی طالبان نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت دی تھی، جس کا خیر مقدم کرتے ہوئے جمعیت علماءاسلام نے ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی۔جس میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے شرکت کرکے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔اس کے علاوہ اے این پی نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی تھی جس میں مذاکرات کی مکمل حمایت کی گئی تھی۔طالبان کی پیشکش کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف نے بعد انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد کہا تھا کہ طالبان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ملک میں امن مذاکرات سے ہی آئے گا۔چند روز پہلے میاں نواز شریف اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے جمعیت علماءاسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے رابطوں کے بعد کہا تھا کہ جب قطر اور فرانس میں افغانستان کے طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتے؟۔نواز شریف اور پرویز خٹک نے مولانا سمیع الحق سے امن و امان کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے تعاون طلب کیا تھا۔اب کی بار بہت زیادہ امید کی جارہی تھی کہ طالبان سے مذاکرات کامیاب ہوجائیں گے، لیکن امریکا کو یہ سب کچھ کب گوارا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی امریکا نے ڈرون حملے کے ذریعے طالبان رہنما ولی الرحمن کو نشانہ بنا کر طالبان سے پاکستان حکومت کے متوقع مذاکرات کو سبوتاژ کر دیا ہے۔ نواز شریف کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کا عندیہ پا کر طالبان کی صفوں میں بھی خوشی کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ امریکا نے ڈرون حملے کے ذریعے تحریک طالبان کو مشتعل کر دیا ۔ تحریک طالبان کی جانب سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے گویا امریکا طالبان رہنما ولی الرحمن کو نشانہ بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب طالبان سے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی کوششوں کو امریکا نے ڈائنامیٹ کر دیا ہو۔ قبل ازیں نیک محمد کو شہید کرکے پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے عمل کو برباد کر دیا گیا تھا۔ امریکا ملا نذیر جیسے طالبان لیڈر کو بھی نشانہ بنا چکا ہے جو پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات اور امن کی کوشش کرتے تھے۔اور بھی کئی مواقع پر امریکا نے یہی پالیسی اپنائی ہے۔

طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش واپس لینے کے حوالے سے مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ امریکا ایک سازش کے تحت طالبان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات سبوتاڑ کر رہا ہے اور ولی الرحمن پر ڈرون حملہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے والا ولی الرحمن خودکش حملوں اور دہشتگردی کا بھی مخالف رہا اور وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا بھی حامی تھا لیکن جب طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے تو اب امریکا نے ڈرون حملہ کر کے اس مذاکراتی عمل کو سبوتاڑ کر دیا ہے۔ امریکا خود تو افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کرتا ہے لیکن پاکستانی مذاکرات کریں تو امریکا کو تکلیف ہوتی ہے۔ مولانا سمیع الحق نے ڈرون حملوں پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ایسے حالات میں کہ نئی منتخب قیادت حکومتوں کی باگ ڈور سنبھال کر ان مسائل کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنا چاہتی ہے اور مذاکرات کی امید سے قوم کو ایک نیا حوصلہ ملنے والا تھا، امریکاور نیٹو افواج نے ان تازہ حملوں کے ذریعہ پاکستانی حکمرانوں کو ایک وارننگ دی ہے اور پاکستانی قوم اور حکمرانوں کو ایک بدترین آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ان حملوں میں بعض ایسے اہم افراد کو نشانہ بنایا گیا جن سے مذاکراتی عمل میں سنجیدگی اور سیاسی بصیرت کی امیدیں تھیں، امریکا نے عملاً مذاکراتی راستوں کو بند کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے وفاق صوبائی اور عسکری قوتوں سے کہا انہیں اب مزید تاخیر کیے بغیر اس چیلنج کا سامنا کرنے اور پرائی جنگ میں مزید شرکت سے فوری نکل کر ملک کیلئے امن کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے ورنہ ملک میں بدامنی اور تباہی و بربادی کا سلسلہ مزید شدت اختیار کر جائے گا۔
جمعیت علما اسلام (ف )کے امیر مولانا فضل الرحمن نے طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کی پیش کش کو ترک کرنے کے اقدام پر کہا ہے بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں داخلی امن کے قیام کے لیے ایک اچھا موقع گنوا دیا ہے۔ طالبان کے ساتھ امن و امان قائم کرنے کے لیے مذاکرات کا ایک اچھا وقت تھا۔ طالبان نے مایوسی کے عالم میں انتخابات سے پہلے بھی مذاکرات منسوخ کیے تھے کیونکہ اس وقت حکومت نے کوئی مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ آئندہ حکومت کوڈرون حملوں کے حوالے سے مر بو ط حکمت عملی اپنانے کا چیلنج درپیش ہو گا۔ اب جبکہ طالبان نے دل برداشتہ ہو کر مذاکرات کی پیش کش ترک کرنے کا یہ اقدام اٹھایا ہے۔ تمام ادارے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں، سوچیں انہیں آگے کیا کر نا ہے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) ضیاءالدین بٹ نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا چاہئیں وہ اپنے لوگ ہیں۔امریکی نہیں چاہتے کہ ہم طالبان سے مذاکرات کریں، اس لیے انہوں نے ڈرون حملہ کیاہے۔میڈیا بھی اس حوالے سے کردار ادا کرے اور آگ کو ٹھنڈا کرے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ امریکا کو طالبان سے مذاکرات کی کوشش پسند نہیں آئی۔ لگتا ہے کہ امریکا نوازشریف کی حکومت کو نئی آزمائش میں ڈالنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں الیکشن 2013ءمیں قوم کے سامنے آنے والی نئی قیادت کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے قومی و ملکی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ طالبان کو بھی سوچنا چاہیے کہ مذاکرات نہ کرنے کے اعلان سے پاکستان دشمن قوتوں کو فائدہ پہنچے گا، لہٰذا طالبان کو مذاکرات نہ کرنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 635997 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.