پریشر گروپ بنانے کی مشقت

رکن راجیہ سبھا جناب محمد ادیب کی پہل پر دہلی میں تقریباً ایک سو مسلم شخصیات کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں 2014ءکے پارلیمانی الیکشن سے قبل متحدہ مسلم پریشر گروپ تشکیل دینا بتایا جاتا ہے ۔ اس میٹنگ کی صدارت کا شرف ایک معروف مقرر مولانا سید سلمان حسینی ندوی کو حاصل ہوا۔ مولانا حسینی حضرت مولانا علی میاں ؒ کے نواسے ہیں اور کچھ عرصہ سے سیاست میںدلچسپی لے رہے ہیں ۔ موصوف آج کل اپنے ایک کتابچہ’ ’کلیم پھلتی، اپنے دعووں اور اعتراضات کے آئینہ میں‘ ‘کی وجہ بھی سے خاصے چرچا میں ہیں۔ اس میں انہوں نے اپنے نانا جان حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ کے ایک نہایت قریبی شاگرد اور خلیفہ مولانا کلیم صدیقی پھلتی کی بقول شخصے گویا دھجیاں بکھیر ی ہیں۔

اس کتابچہ کا لب لباب یہ ہے کہ جناب کلیم صدیقی جھوٹے خطوط اور خوابوں کی کہانیاں سناسنا کر اپنی دوکان چمکارہے ہیں اور بھولے بھالے مسلمانوںکو اپنے دام میں پھنسارہے ہیں۔واللہ اعلم باالصواب۔ ہمیں اتنا ضرور معلوم ہے کلیم صاحب کافی فعال ہیں اور ہریانہ و پنجاب اور یوپی کے مغربی اضلاع میں کچھ نہ کچھ اصلاحی کام بھی کررہے ہیں۔دہلی میں بھی ان کا ایک مرکز چل رہا تھا اب باٹلہ ہاﺅس میں مسجد خلیل اللہ کے پاس ایک نئی عمارت برائے دعوتی سرگرمی تعمیر ہورہی ہے۔ ظاہر ہے یہ سارے کام بغیر رجوعات ممکن نہیں۔موصوف اکثرسعودی عر ب کا دورہ بھی کرتے ہیں اور وہاں بھی ان کا اچھا خاصا حلقہ ہے۔ ان کی زیر سرپرستی پنجاب اور ہریانہ میں کئی مدارس چل رہے ہیں۔خود پھلت میں لڑکوں کا ایک بڑا مدرسہ اسی نہج پر چل رہا ہے جو ندوہ کی ہے، ندوہ کا ہی نصاب پڑھایا جاتا ہے، چنانچہ اس کو ندوہ کی ہی شاخ جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ ایک مدرسہ لڑکیوں کا بھی چل رہا ہے۔صدیقی صاحب کی دعوت پر مجھے ایک مرتبہ لڑکوں کے مدرسہ کی سالانہ تقریب میںپھلت حاضری کا موقع ملا تھا۔ یہ سفر پروفیسر اجتباءالحسن ندوی ؒ کا ساتھ ہوا۔ محترم سید عاصم علی سبزواری ایڈوکیٹ بھی میرٹھ سے تشریف لائے تھے۔ ان دوصاحبان فکرو نظر نے مدرسہ کی کارکردگی پر اطمینان اور مسرت کا اظہار فرمایا خصوصاً ندوی صاحب کے کلمات تحسین سند کا درجہ رکھتے ہیں۔کلیم صاحب کی ایک دو تقریریں سننے کا مجھے بھی موقع ملا۔اچھی عوامی تقریر کرتے ہیں اور لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ مگر ان کی تقریر کی جادوئی اثرانگیزی اور ان کی دعوت پر قبولیت اسلام کے جو واقعات تسلسل کے ساتھ ان کے ترجمان’ ارمغان‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیںان پر حیرت ضرورہوتی ہے۔ ان میں بہت کچھ باتیںعقل میں نہیں سماتیں اوران کی صداقت پر شک ہوتا ہے۔ایک مرتبہ کاندھلہ کی ایک ثقہ، باخبرعلم دوست ہستی نے اس کالم نگار سے نجی گفتگو میں بعض ایسے واقعات کی نشاندہی فرمائی جن کی کسی دوسرے زریعہ سے کوئی سن گن نہیں ملی،حالانکہ علاقہ میں ان کی شہرت ہونی چاہئے تھی۔ میں نے جب عرض کیا کہ اس پر گرفت ہونی چاہئے تو فرمایا ’بیشک گرفت ہو، مگر دو باتیں ہیں۔ پہلے تو پوری طرح تحقیق ہو دوسرے گرفت برسرعام نہیں ہونی چاہئے۔ کوئی ان کو دروغ گومان لیگا، کوئی ہمیںجھوٹا سمجھے گا۔نقصان اور بدنامی کس کی ہوگی؟ لوگ یہی کہیںگے دیکھو یہ اسلام کے داعی ہیں۔ ‘ ہمارے یہ انداز فکر صائب اور وزنی ہے۔اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کلیم صاحب کی بعض رودادیں ان حکایات اور روایات کا چربہ معلوم دیتی ہیں جو نہایت عقیدت اور احترام سے’ فروغ ایمان‘ کے لئے ہر روز مساجد میں سنائی جاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں مہم کلیم صدیقی کے باب میں ہی کیوں چلائی جائے ان حکایتوں کا بھی ذکر ہو جن کی بنیاد خوابوں پر ہے یا جو عقل میں نہیں سماتیں؟

غور اس پہلو سے بھی کیا جانا چاہئے کہ کلیم صدیقی کی تنقید حضرت مولانا علی میاں مدظلہُ کی حیات میںبھی ہوئی ، مرحوم محترم سے لوگوں نے شکائتیں بھی کیں، مگرکیا مولانا محترم نے کوئی گرفت فرمائی؟کیا کلیم صاحب سے اپنے خلافت واپس لی؟ نہیں۔ ہم ہرگز یہ گمان نہیں کر سکتے کہ حضرت مولانا علی میاں ؒمردم شناسی میںغچہ کھاگئے،یا ایک غیرم مستحق کو اپنا خلیفہ بناکر ان کو اللہ کی حضور میں جواب دہی کا کھٹکا نہیں تھا، جس کی اصلاح اب ان کے نواسے پر لازم ہوگئی ہے۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی حددرجہ مروت اور اپنے شاگرد عزیز سے والہانہ محبت اور اس کی آبرو کی حفاظت کی فکر ہی تھی کہ انہوں نے کلیم صاحب سے تعلق منقطع نہیںکیا اور اسی تعلق کا فیض کلیم صاحب آج تک اٹھا رہے ہےں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے نانا کی اس مروت اور اپنے شاگرد کے لئے اس والہانہ محبت کا کتنا حصہ ورثہ میں سلمان حسینی مدظلہ نے اخذ فرمایا جو غالباً مولاناؒ کی روایت کے وارث باور کرائے جاتے ہیں؟ہم نے تورسول رحمت ﷺ سے منسوب یہ فرمان سنا ہے کہ اپنے مرحوم والدین کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے دوستوں اور ملنے والوں سے تعلق قائم رکھو اور ان کو ویسی ہی عزت دو جیسی وہ دیا کرتے تھے۔
کلیم صاحب کے دعووں اور ان پر ان کے پیرمرشد کے لائق نواسے کی اس سب و شتم میں سے کس میں کتنی صداقت ہے ، یہ تو اللہ کو معلوم ہے، یہاں یہ ذکربادل ناخواستہ یہ نشاندہی کرنے کے لئے کیا کہ جو حضرات ”مسلمانوں میں اتحاد“ کے مقصد سے اس میٹنگ میں تشریف رکھتے تھے وہ غورفرمائیں کہ جن صاحب کو اپنا صدر بنایا وہ خود اتحاد بین المسلمین کے تقاضوں سے کتنا واقف اور عامل ہےں؟ مسلمانوں میں اتحاد کی ہر کوشش اسی افتراقی ذہن کا شکار ہوجاتی ہے جس سے مذکورہ بالا کتابچہ لکھا گیا، شائع کیا گیا اور ہزاروںکی تعداد میں تقسیم ہوا۔اتحاد چاہئے تو ایک ایک تنکے کو سمیٹ کررکھنا ہوگا، یہ دیکھے بغیر کہ اس میں کوئی کانٹا لگا ہے یاگل کھلا ہے اور جھنڈا ایسے افراد کے ہاتھوں میںدینا ہوگا جو اتحاد کے ان مطالبوںکو اپنے مزاج کے تقاضوں پر فوقیت دیتے ہیں۔

بزرگ اوربیباک صحافی جناب حفیظ نعمانی نے اس میٹنگ پر اپنے مضمون”راستہ پرخطر ہے مولانا“ میں مسلم مجلس مشاورت کے قیام اور اس کے انجام کی کہانی کا ذکربڑے ہی پرسوز انداز میں کیا ہے۔ اس میں اس تاریخی مسلم کنونشن کاحوالہ بھی آیا ہے جو جبل پورکے فساد کے بعد مولانا حفظ الرحمٰن ؒ کی تحریک پر جناب ڈاکٹرسید محمود کی صدارت میںسنہ1964ءمیں ہوا تھا۔ یہ تحریک 1962ءکی تھی جس کے داعیوں میں جماعت اسلامی کی قائدین بھی شامل تھے۔ لیکن جب پوسٹر شائع ہوکر آیا تو (سہارنپور کے ایک بزرگ کے فرمانے پر) جماعت کے لوگوں کا نام اس میں سے غائب تھا۔گویا اتحاد امت کا ایک ارفع مقصد تعبیر کے اس جزوی اختلاف کی نذر ہوگیاجوان بزرگ نزدیک زیادہ اہم تھا۔ چنانچہ اتحاد کا جو بلبلہ اس تحریک سے اٹھا تھا اس کو اپنے ہی ہاتھوں سے پنکچرکردیا گیا۔ یہی کچھ حشر مسلم مجلس مشاورت کا ہوا اور ایسے ہی بعض پرجوش نوجوانون نے اس کوشش کو ناکام کردیا جو ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کی قیادت میں 1960ءکی دہائی میں یوپی میں ہوئی تھی۔ ان کے ایک خاص معتمد الگ ہوگئے اور دوسری تنظیم کھڑی کرلی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نہ یہ رہے نہ وہ رہے۔ ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصد خدانخواستہ کسی کو مطعون کرنا یا بددلی پھیلانانہیں بلکہ یہ یاد دلانا ہے جو قومیں اپنی تاریخ سے سبق نہیں لیتیں وہ اپنی کوششوںمیںکامیابی سے ہم کنار نہیں ہوا کرتیں۔ اتحاد ملت کے لئے جس طرح کا مزاج درکارہے وہ مسلمانوں میں مفقود ہے۔ اس کے ایک مثال اور دیدوں۔ ابھی گزشتہ اسمبلی الیکشن سے قبل ضلع مرادآباد میں ایک پرہجوم جلسہ ہوا جس میں ایک اہم مقررنے اپنے اہل مسلک کو یہ ہدایت فرمائی کہ’ چاہے غیرمسلم جیت جائے مگرخبردار فلاں مسلک کے امیدوار کو ہرگز ووٹ نہ دینا کہ یہ ہمارے ایمان کا معاملہ ہے۔‘ان صاحب نے نادانی میں یہ بات جلسے میں کہہ دی اور اخباروںمیں آگئی، حالانکہ اسے کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مسلکی تشدد پسندی نے ملت کا مزاج یہ بنادیا ہے کہ ہماری مسجدیں تقسیم ہوگئی ہیں، ہمارے قبرستان تقسیم ہوگئے ہیں، نماز جنازہ جو فرض کفایہ ہے، اس میں بھی دشواریاں آنے لگی ہیں، ایسی صورت میں سیاسی نمائندگی میں اتحاد کا تصور کیسے کیا جائے؟

ہماری ان معروضات سے کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ ہم اتحاد ملت کے قائل نہیں۔ اتحاد صحت مند بنیادوں پر ہونا چاہئے اور اس کاپہلا سبق یہ ہے کہ اختلاف کا سلیقہ آنا چاہئے۔اختلاف سے فرار نہیںمگر اس کا مطلب عزت، آبرو اور جان کی دشمنی اور انسانی شرافت اور رواداری کی بلی نہیں ہونا چاہئے۔ سیاسی اورفروعی مسلکی اختلافات کو جزو ایمان اور اسلام کا بدل بنالینا، سب سے بڑی گمراہی ہے۔ پہلے ملت کو اس گرداب سے نکالنے کی تدبیر کیجائے۔ پہلے یہ تو ہو کہ کسی مسلمان کی لاش لاوارث نہ پڑی رہے کہ اس کے ہم مسلک اس بستی میں نہیں۔ پہلے ہم ایک دوسرے کی میت کو کاندھا دینا تو سیکھیں، اس کے بعد دوسرا قدم اٹھائےں۔ اختلاف کا مطلب یہ بھی نہیںکہ برسرعام پگڑیاں اچھالی جائیں اور جب ہمارے کچھ بھائی جیل میں ہوں تو ان کے خلاف فتنے جگانے کو باعث اجر و ثواب گردانا جائے۔ یہ تنگ دلی آخر کس کی پیدا کردہ ہے؟
ہماری اجتماعی زندگی میں اس کوتاہ فکری کی ایک اور مثال حا ل ہی میں سامنے آئی ہے جس پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں صاحب نے گرفت فرمائی ہے۔ انہوں نے خالد مجاہد کے تعلق سے لکھنو میں رہائی منچ کے دھرنے میںشرکت کے بعد اس بات پر تاسف کا اظہار کیا ہے کہ بعض نادان اس مہم کو ابوعاصم اعظمی مخالف مہم میں بدل دینے کےلئے کوشاں ہیں۔ اعظمی صاحب سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایک بڑے کاز کے لئے جو مہم چلائی جارہی ہے اس کی آڑ میں ان سے اپنی مخاصمت نکالی جائے۔

اتحاد ملت کے نام پر منعقدہ مذکورہ میٹنگ پر ہندستان (ہندی) کے ایک صحافی خورشید عالم کا ایک نہایت معلوماتی مضمون بعنوان ”کیا مسلمانوں کا پریشر گروپ بن پائے گا؟“ ۴جون کو اردو کے بعض اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس کا اختتام اس جملے پر ہوا ہے: ”مبصرین کی رائے ہے کہ مجوزہ پریشر گروپ کا مقصدمسلم مسائل کا حل نہیں بلکہ سیای پارٹیوںسے سودے بازی کے لئے خود کو سامنے لانا ہے۔“ میرے خیال سے اتنی بدگمانی بھی ٹھیک نہیں۔ شرکاءمیںکئی نام ایسے ہیں جن کے اخلاص پر شک نہیںکیا جانا چاہئے۔ مثلاً خود اس کے محرک محمد ادیب ۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ہندستان جیسے ملک میں کیا ہندو اور مسلم کی بنیاد پر سیاسی صف بندی کی صدا کوئی دانشمندی ہوگی؟ تاریخ گواہ ہے کہ یہ حکمت عملی درست نہیں۔ ماضی میں ہم نے اسی کی بنیاد پر نقصان اٹھایا۔ اب بھی سوال یہ ہے کہ اگر ” مسلمانوں متحدہوجاﺅ“ کا نعرہ لگایا گیا تو کیا اس کے جواب میں غیر مسلم ووٹ کا متحد نہیں ہوگا؟جن ریاستوںمیں مسلم قیادت والی پارٹیاں پریشر گروپ کے طور پر ابھری ہیں وہاں انہوں نے غیر مسلموں کو ساتھ لینے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی قیادت والی یوڈی ایف پارٹی اس کی مثال ہے۔ ان کو کامیابی اس لئے نہیں ملی کہ مولانا نے مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا بلکہ اس لئے ملی کہ انہوںنے سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے خدمت خلق کی سیاست کی اور بڑی تعداد میں غریب مسلم اور غیر مسلم ان کے گرویدہ ہوگئے۔ جناب حفیظ نعمانی نے درست لکھا ہے کہ مسائل کا حل کچھ بیان دیدینے (جو مقامی خباروں کی زینت بن جائیں) اور کچھ نعرے لگادینے سے نہیں ہوتا۔کوئی حکمت عملی بنانی ہے تو الیکشن سے چند ماہ پہلے نہیں ، الیکشن کے بعد بنائی جائے اور پورے پانچ سال اس کو چلائیں اس کے بعد کسی نتیجہ کی امید کریں۔

ہندستان کے حالات کے پیش نظر یہاں صالح غیر مسلم عناصر کو ساتھ لئے بغیر اقلیتوں کے لئے انصاف کا حصول ممکن نہیں۔جماعت اسلامی اور جمعیة علماءہند اسی نظریہ سے کام کررہی ہیں۔ویلفیر پارٹی بھی انہی خطوط پر استوار کی جارہی ہے۔ آ پ کی خالص مسلم پریشر گروپ بنانے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے آپ خود کو پریشر کوکر میں بند کرکے ہنڈیا پکارہے ہیں۔ جب بھی ڈھکن کھلے گا، دال الگ ہوگی،بوٹی الگ ہوگی اور شوربہ الگ ہوگا۔ ہاں اس طرح کی میٹنگوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اچھا گیٹ ٹوگیدر ہوجاتا ہے، ملاقاتوں کا شوق پورا ہوجاتا ہے اور بقول اسرار جامعی کچھ نہ کرنے کے باوجود کچھ کرنا ہوجاتا ہے۔کہتے ہیں:جنتر منتر پر دھرنا دیکھا، کچھ نہ کرکے کرنا دیکھا۔(ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 165124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.