کیا میرا قائد عوام کی توقعات پر پورا اتر سکے گا ؟

محبت بھی کیا چیز ہے اگر کسی انسان سے ہوجائے تو وہ انسان دنیا جہان سے خوبصورت اور منفرد دکھائی دیتا ہے اور دل لمحہ لمحہ اسی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔محبت صنف نازک سے بھی کی جاتی ہے اور سیاسی رہنماؤں سے بھی ۔ حسن اتفاق سے میں بھی گزشتہ 27 سالوں سے ایک ایسے شخص کی محبت میں مبتلا ہوں جس سے نہ کبھی تنہا میں ملاقات ہوئی اور نہ ہی کبھی اس نے ملاقات کے بلانا ہی چاہا نہ جانے پھر بھی دل اسی کی طرف کیوں کھیچا چلا جاتا ہے ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ملک پر جنرل محمد ضیاالحق کی حکمرانی تھی اس کی شخصیت تو اپنی جگہ موجود تھی لیکن سیاسی میدان میں ان کی ایک ایجاد واقعی قابل داد تھی ۔ جسے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان( جو بہت ذہین اور شخصیت کی پہچان میں بلا کا ملکہ رکھتے تھے )نے ایک ایسے خوبرو نوجوان کو پنجاب کابینہ میں وزیر خزانہ بنا یا جس کا سیاسی پس منظر بالکل نہیں تھا بلکہ اس کا خاندان کاروبار سے وابستہ تھا ۔ جس ملک میں جاگیر دار ٗ بڑے بڑے زمیندار ٗ سردار ٗ وڈیرے ہی اسمبلیوں میں پہنچ کر حکومتی عہدوں پر فائز ہوتے ہوں وہاں ایک کاروباری شخص کا میدان سیاست میں آنا واقعی ایک منفرد اقدام تھا وہ شخص جس کا بچپن میں زیادہ وقت کرکٹ کھیلنے اور پتنگیں پکڑنے میں صرف ہوتا تھا کلاس میں بھی اوسط درجے کا طالب علم تھا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ خوبرو اور نازو انداز میں پلا ہوا نوجوان اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تیسری مرتبہ وزیر اعظم بھی بن سکتا ہے ۔یہ سب اس مہربان رب کا کمال ہے کہ اس نے پاکستان کے تمام جاگیر داروں ٗ سرداروں ٗ وڈیروں ٗ سرمایہ داروں اور روایتی سیاست دانوں کو شکست دے کر ایک بار پھر قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ 5 جون 2013 کو سنبھال لیا ہے ۔اس عظیم شخص کو میاں محمد نوازشریف کہاجاتا ہے ۔خواہش تو تھی کہ میاں صاحب کو وزارت عظمی کا حلف اٹھاتے ہوئے اور شان و شوکت سے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے دیکھوں لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ نے مجھ جیسے کروڑوں محبت کرنے والوں سے یہ خوبصورت لمحہ چھین لیا اور میں اس وقت کا شدت سے انتظار کرنے لگا جب بجلی آئے اور میں اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھ سکوں پھر جب بجلی آنے کے بعد گھر میں موجود الیکٹرونکس کی ہر چیز زندہ ہوگئی تو میں نے دیکھا کہ اس وقت میا ں صاحب پاکستان آرمی کے جوانوں کے ساتھ خراما خراما چلتے ہوئے گارڈ آف آنر کا معائنہ کررہے تھے بظاہر تو چلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے لیکن ان کے جسم کاایک ایک اعضا نہ صرف اپنے رب کا شکر ادا کررہاتھا جس نے ایک بار پھر انہیں وزیر اعظم بننے کا موقعہ فراہم کیا ہے بلکہ ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو ان کی دلی کیفیت کی عکاسی کررہے تھے یہ لمحہ اس قدر پر تاثیر تھا کہ میں خود کو بھی اس لمحے کی حساسیت سے بچا نہ سکا اور اپنے محبوب قائد کی طرح میری آنکھوں سے بھی محبت کے آنسو بہنے لگے اور میرے جسم کا ہر اعضا اپنے قائد کی کامیابی اور حفاظت کے لیے تڑپ رہا تھا قریب بیٹھے ہوئے میرے بچے میری اس کیفیت کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے میں نے انہیں بتایا کہ بے شک میں میاں صاحب سے کبھی بالمشافہ طور پر کبھی نہیں ملا ہاں ایک مرتبہ جبکہ پاکستان کے ممتاز صحافی ڈاکٹر مجید نظامی کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا جہاں تعزیت کے لیے اور بھی بہت سے لوگ وہاں موجود تھے میاں نواز شریف بھی ڈاکٹر مجید نظامی سے تعزیت کے لیے آئے تھے حسن اتفاق سے میں بھی وہاں موجود تھا اور چند ہاتھ کے فاصلے پر وہ کرسی پر براجمان تھے ۔لیکن ان سے عقیدت و محبت کا عالم یہ ہے کہ 11 مئی کی تمام رات مجھ پر اضطرابی کیفیت طاری تھی جہاں میں اپنے قائد کی کامیابی کے لیے دعا گو تھا وہاں میری نظریں ٹیلی ویژن کی سکرین کے اس ہندسے پر جمی ہوئی تھی جس پر تازہ ترین پارٹی پوزیشن آرہی تھی جب ہندسہ 118 پر پہنچا تو میں اظہار تشکر کے لیے اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوگیا کہ اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے اب کامیابی یقینی ہے ۔اﷲ تعالی نے توقع سے بڑھ کر کامیابی عطا کی تھی ۔

11 مئی 2013 سے 5 جون 2013 تک 24 دن کس کرب میں گزرے ایک ایک دن بلکہ ایک ایک لمحہ نہ صرف مجھ پر بھاری تھا بلکہ ہر پاکستانی اس بات کا منتظر تھا کہ کب میاں نواز شریف وزارت عظمی کا چارج سنبھالیں اور غربت ٗ بے وسائلی ٗ بے روزگاری ٗ بجلی کی لوڈشیڈنگ ٗ گیس کی قلت کی شکار پاکستانی قوم کو سکون و راحت کوئی لمحہ میسر آجائے یوں محسوس ہوتا تھا کہ نگران حکمرانوں کا اقتدار چھوڑنے کو دل نہیں کررہا تھا تب ہی انہوں آئین میں دی ہوئی میعاد کے آخری دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلا یا اگر ان کا بس چلتا تو شاید ابھی کچھ اور دن وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہتے ۔بہرکیف اﷲ تعالی کے فضل و کرم سے میاں محمد نواز شریف ( میرا محبوب قائد) وزیر اعظم پاکستان بن چکا ہے اور مجھ سمیت ہر پاکستانی ان سے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق توقعات وابستہ کربیٹھا ہے ۔آیئے دیکھتے ہیں کون کون کیا کیا چاہتا ہے ۔ایک طالب علم جب سکول پڑھنے کے لیے جاتا ہے تو کلاس روم میں بجلی کی بار بار بندش کی بنا پر اسے سخت گرمی میں بیٹھ کر پڑھنا پڑھتا ہے تو بجلی بند ہونے کی وجہ سے گھر میں اتنی روشنی نہیں ہوتی کہ وہ آسانی سے کتابوں میں لکھی ہوئی باریک عبارت پڑھ سکے اندھیرے میں کتابوں اور سکول کی وردی کی تیاری میں شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے طالب علم سوچتا ہے کہ میاں نوازشریف جونہی وزارت عظمی کا حلف اٹھائیں گے تو اس کا سکول اور گھر روشن ہوجائے گا اسے کلاس اور گھر میں پڑھنے کے لیے وافر روشنی اور ٹھنڈی ہوا میسر ہوگی ۔ایک بیمار شخص چاہتا ہے کہ میاں صاحب حلف اٹھاتے ہی سب سے پہلے جعلی ادویات کا خاتمہ اور دوائیوں کی قیمتوں کو نصف کرکے عام آدمی کی دسترس میں لے آئیں گے گھر کے دیگر اخراجات پورے کرنے کے بعد اتنے پیسے نہیں بچتے کہ بیمار شخص کے لیے مطلوبہ دوائیاں ہی خرید لی جائیں ماہر ڈاکٹروں کی فیسوں اور بار بار ٹیسٹوں کی بھر مار تو وقت سے پہلے ہی انسان کو مرنے پر آمادہ کرلیتی ہے بیمار شخص نواز شریف کے حلف اٹھانے کا اس لیے منتظر ہوتا تھا کہ شاید میاں صاحب باقی معاملات کو چھوڑ کر ہسپتالوں میں غریبوں کے مفت علاج کا بہترانتظام کردیں گے اور مفت ادویات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں سے نجات مل جائے گی ۔چوراہوں میں بیٹھا ہوا مزدور جو صبح سے شام تک اس انتظار میں بیٹھا رہتا ہے کہ شاید کسی وقت کوئی شخص اسے مزدوری کروانے کے لیے لینے آجائے لیکن پیپلز پارٹی کے دور میں تعمیرات کا کام ہی ختم ہوگیا تھا جس سے 30 لاکھ مزدور جو روزانہ مزدوری کرکے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے تھے وہ ہر صبح اس امید پر چوراہے میں آکر بیٹھ جاتے ہیں لیکن شام تک کوئی خریدار انہیں مزدوری کے لیے اس لیے لینے نہیں آتا کہ تعمیراتی صنعت کاپہیہ جام ہوچکا ہے جس سے 30 لاکھ مزدوروں کے گھروں نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے نہ گھر میں روٹی پکتی ہے نہ بچے سکول جارہے ہیں بجلی اور گیس کے کنکشن بھی عدم ادائیگی کی وجہ سے کٹ چکے ہیں یہ مزدور اس لیے انتظار کررہے تھے کہ شاید وہ تعمیراتی صنعت کو ایک بار پھر چالو کرکے اس سے وابستہ 30 لاکھ مزدوروں کو روزگار فراہم کردیں گے۔فیکٹریوں میں کا م کرنے والے ورکروں کی توقعات اس لیے میاں صاحب سے وابستہ ہیں کہ اپنے اقتدار کے پہلے ہی دن اگر بجلی کی قلت ختم کردیتے ہیں تو ان کی بند فیکٹریاں ایک بار پھر چل پڑیں گی اور انہیں پھر روزگار میسر آسکے گا اور ان کے بیوی بچے ایک بار پھر زندہ رہنے کا عہد کریں گے ۔کاروباری افراد چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہی میاں صاحب سب سے پہلے ان کے مسائل حل کردیں ابھی گاہک دکان میں داخل ہی ہوتاہے کہ بجلی بند ہوجاتی ہے پھر اس وقت تک نہیں آتی جب تک گاہک وہاں موجود رہتا ہے بجلی کے کمرشل ریٹ اس قدر بڑھا دیئے گئے ہیں کہ ان کی ادائیگی الگ مسئلہ بن چکی ہے کاروبار ختم ہوچکے ہیں بجلی کے بل اور گھر کے اخراجات کہاں سے پورے کیے جائیں یہ سوچ کر مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا تھا کہ میاں صاحب آتے ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ختم کردیں گے اور مہنگائی کابھی کوئی توڑ کریں گے جس سے زندگی کچھ آسان ہوجائے گی ۔ ملک میں بے روزگاروں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے ان میں سے ہر ایک بے روزگار چاہتا ہے کہ میاں صاحب حکومت کا چارج سنبھالتے ہی مدت دراز سے بند ہونے والی فیکٹریوں کو دوبارہ چالو کرکے انہیں باعزت روزگار دلا دیں کیونکہ مہنگائی اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ گھر کے سبھی افراد کمائیں تب بھی گزارا نہیں ہوتا ہے لیکن جس گھر میں ایک ہی شخص کمانے کے قابل ہو اور وہ بھی بے روزگار ہو تو زندگی عذاب نہیں بن جاتی لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جہاں ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر نوجوان صبح جیب میں سو روپے کا نوٹ کسی سے ادھار لے کر نکلتے ہیں لیکن شام کو مایوس گھر لوٹ آتے ہیں اور سو روپیہ بھی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں خرچ ہوجاتا ہے تمام بے روزگاروں کی امیدوں کامرکز بھی میاں صاحب ہی ہیں جو چاہتے ہیں بند فیکٹریاں بھی چالو ہوجائیں اور سازگار ماحول پیدا کرکے نئی فیکٹریاں اور کارخانے بھی دھڑا دھڑا لگنے شروع ہوجائیں تاکہ سب کو باعزت روزگار مل جائے ۔کسانوں کی اپنی ضروریات اور خواہشا ت ہیں بیج کھاد اور سپرے کی قیمتوں میں پانچ سو گنااضافے نے ان کو بھی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے جب سے بھارت نے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک لیا ہے کاشتکاری کے لیے بھی پانی میسر نہ آنے کی بنا پر زرخیز زمینیں بنجر ہوتی جارہی ہیں حکومت مالیہ اور دیگر ٹیکس وصول کرکے چلتی بنتی ہے لیکن دیہاتوں میں رہنے والے کسانوں کے گھروں میں فاقوں نے پہرے لگا رکھے ہیں وہ معاشی تنگدستی کی بنا پر نہ تو اپنے بچوں کو شہر وں میں پڑھنے کے لیے بھیج سکتے ہیں اور نہ ہی دیہاتوں میں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں ۔وہ بھی چاہتے ہیں کہ میاں نوازشریف وزیر اعظم بن کر نہ صرف بھارت سے پاکستانی دریاؤں کا پانی واگزار کروائیں بلکہ بیج کھاد اور دیگر زرعی ضروریات کی قیمتوں میں ممکن حد تک کمی بھی کریں تاکہ ان کے چولہے بھی جل سکیں اور اناج اگانے والے اپنا پیٹ بھی بھر سکیں ۔بھٹوں ٗ دکانوں اور ورکشاپوں پر کام کرنے والے بچے اور خواتین بھی میاں صاحب کو امید کی نظر سے دیکھتی ہیں کہ کاش وہ ان کی بے بسی کی جانب سے دیکھ کر ان کو کم ازکم تنخواہ 15 ہزار روپے ہی دلوا دیں اور جبری مشقت پر پابندی لگا کر معصوم بچوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کردیں تاکہ وہ بھی باعزت شہری بن کر پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔خوانچہ فروشوں کا مطالبہ ہے کہ وہ جہاں بھی چھابڑی لگاتے ہیں تو سٹی گورنمنٹ کو بھتہ دینا پڑتاہے سودا چاہے شام نہ بکے لیکن طے شدہ رقم کی ادائیگی ٹاؤن ناظم کو ہر صورت کرنی پڑتی ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں میاں صاحب ان کو باعزت روزگار فراہم کرنے کے لیے سرکاری زمین پر کسی کھلی جگہ پر چھوٹی چھوٹی دکانیں تعمیر کرکے خوانچہ فروشوں کو الاٹ کردیں تاکہ وہ سڑکوں پر رکاوٹ بننے اور بھتہ خوری سے بچ جائیں ۔ پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے یہی وہ لوگ ہیں جو ہرالیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ بوتھوں پر سب سے پہلے کھڑے ہوتے ہیں ہر حکومت انہیں مالکانہ حقوق اور زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا وعدہ تو کرتی ہیں لیکن عملی طور پر کوئی بھی کچھ نہیں کرتا وہ بھی چاہتے ہیں نواز شریف ان کے مسائل حل کرنے کی جانب سے پہلے توجہ دیں ۔علمائے کرام میاں صاحب کو اس لیے امید کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ میاں صاحب کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے اور علمائے کرام کی عزت افزائی کرنے اور معاشرے میں ان کو شایان شان مقام فراہم کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں اس لیے علمائے کرام چاہتے ہیں ان کی خدمات سے استفادہ کرتے ہوئے تھانہ کلچر کی تبدیلی ٗ پٹوار خانے اور سرکاری محکموں میں رشوت اور کرپشن کے خاتمے کے لیے میاں صاحب ملک بھر میں مفتی عدالتیں قائم کریں جو شریعت محمدی ﷺ کے مطابق فیصلے کرکے ملک سے کرپشن بھی ختم کریں اور علمائے کرام کی عزت اور وقار بھی حاصل ہو ۔حکیم چاہتے ہیں کہ انگریزی ادویات اور طریقہ علاج کے ساتھ ساتھ طب یونانی کو بھی سرکاری سرپرستی حاصل ہو جتنی بڑی تعداد میں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر تعینات ہیں اتنی ہی تعداد بھی مستند حکیم بھی تعینات کیے جائیں بلکہ بین الاقوامی معیار کی حامل طب یونانی ادویات کی فروخت اور فروغ میں میاں صاحب اپنا کردار ادا کریں نیم حکیموں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے مستنداور کوالیفائیڈ حکیموں کی سرپرستی کی جائے ۔جیلوں میں بند قیدیوں کی بے پناہ توقعات بھی میاں صاحب سے وابستہ ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ جیلوں کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہوئے جیلوں کو اصلاحی مرکزوں میں تبدیل کریں جیلوں میں سکول اور کالجز کی شاخیں قائم کرکے انہیں تعلیم حاصل کرنے باشعور شہری بننے کا موقعہ فراہم کیا جائے پھر لائبریریاں قائم کی جائیں جس میں دینی کتب کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی کتابیں بھی موجود ہوں جن سے قیدی بھرپور استفادہ کرسکیں ۔

بالحاظ مجموعی عوام یہ چاہتے ہیں ملک میں قانون کی بالادستی ہو ٗ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود قانون پر عمل کرتے ہوئے عوام کو جرائم پیشہ افراد سے تحفظ فراہم کریں چوری ڈاکے ٗ اغوا ٗ جنسی جرائم کی وارداتوں کی ہر ممکن روک تھام ہو ٗ بجلی گیس کی قلت ختم ٗ ضرورت کے مطابق پینے کا صاف پانی میسر ہو ٗ فیکٹریاں کارخانے ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے نہ صرف ایمرجنسی حالات کا مقابلہ کرنے کے انتظامات کریں بلکہ ماحولیات کو خوشگوار بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں ۔پٹرول کو اصل درآمدی قیمت پر عوام کو فراہم کیا جائے گیس گندم ٗ آٹے ٗ چاول ٗ گھی ٗ چینی اور دیگر اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو 2008 کی سطح پر لاجائے تاکہ معاشی بدحالی کی بنا پر خودکشیوں کو ممکن حد تک روکا جاسکے۔ریلوے جو چاروں صوبوں کی زنجیر ہے اس کو مکمل طور پر بحال کرکے معقول سفر ی سہولتیں فراہم کی جائیں ٗ پی آئی اے جیسا قومی ادارے جو اربوں روپے خسارے میں ہے وہاں بھاری تنخواہوں والے افسروں سے نجات دلا کر بہتر انتظامی اقدامات کرکے اس ادارے پر عوام کااعتماد بحال کیاجائے ۔سٹیل ملز جو ڈیڑھ سو ارب روپے کھانے کے باوجود اب بھی 40 ارب کے خسارے میں چل رہی ہے اور روزانہ تین سے چار ارب روپے کا خسارہ ہورہا ہے اس میں سیاسی بنیادوں پر تمام بھرتیاں ختم کرکے باصلاحیت اور ہنر مند غیر سیاسی لوگوں کو ملازم رکھ کر سٹیل ملز کو خسارے سے نکالا جائے ۔

یہ وہ توقعات ہیں جو عوام براہ راست میاں نواز شریف سے رکھتے ہیں اور اپنی ان توقعات کو پورا کرنے کے لیے 11 مئی سے 6 جون سے ایک ایک لمحہ منتظر رہے ہیں ۔ اب جبکہ میاں نوازشریف نے وزیر اعظم کا چارج سنبھال لیا ہے اٹھارہ کروڑ پاکستانی ان کی ہر بات اور زبان سے ادا ہونے والے ہر لفظ پر کان لگائے بیٹھے ہیں ہر پاکستانی کی دلی خواہش ہے کہ میاں صاحب اقتدار سنبھالتے ہی قوم کو درپیش مسائل سے نجات دلا کر پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنا دیں ۔قائد ہونے کے ناطے مجھے تو یقین ہے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ملک و قوم کے لیے وقف کرتے ہوئے عوام کے دیرینہ مسائل حل کردیں گے دیکھتے ہیں قدرت انہیں اس بات کا کتناموقع فراہم کرتی ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.