ڈرون حملے اور نومنتخب حکومت کی ذمہ داری

ایک ایسے وقت میں جب میاں نوازشریف اور عمران خان کی صورت میں پاکستانی عوام نے دو ایسے لیڈروں کا چناؤکیا ہے جو ڈرون حملوں کے حوالے سے قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے اور طالبان کی امن پیشکش کے جواب میں قومی سلامتی کے اس اہم ترین ایشو کو مزاکرات کے ذریعے حل کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے رہے ہیں ایسے میں ڈرون حملے میں معروف طالبان کمانڈر ولی الرحمان کی ہلاکت نئی سیاسی قیادت کیلئے یقیناََ ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ امریکہ نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر پاکستان کی پیٹھ پر وار کرتے ہوئے یہ حملہ کرکے پاکستانی طالبان کو مزاکرات کی پیشکش واپس لینے پر مجبور کردیا ہے ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ولی الرحمان سے قبل2004میں طالبان کمانڈر نیک محمد سے لے کر جنوری 2013ء میں مولوی نزیر تک جب بھی پاکستان اورطالبان کے مابین امن عمل کی بیل منڈھے چڑھنے لگی امریکہ نے ڈرون حملے کے ذریعے اس عمل کو روک دیابہرحال اس تازہ ڈرون حملے کی افسوسناک خبر پر امریکی تو بیشک بغلیں بجا رہے ہیں لیکن پاکستان کے محب وطن دفاعی ماہرین ایک بار پھر یہ تبصرہ کرتے نظرآرہے ہیں کہ امریکہ کا مقصد پاکستان کو مسلسل عدم استحکام سے دوچار رکھنا اور اپنا زرخرید غلام بنائے رکھنا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان دہشتگردی کے اس عفریت سے نپٹنے کیلئے کوئی پیشرفت کرتا ہے تو امریکہ فوراََان اقدامات پر ناپسندیدگی ظاہرکرتے ہوئے پاکستان کو مجبورکرتا ہے کہ وہ ان'' شرپسندوں'' سے بات چیت کی بجائے ان کے خلاف بھرپور اور بے رحم آپریشن کرے ۔حالاں کہ یہی امریکہ افغانستان کے پہاڑوں پر دس سال تک سرٹکراکرناکامی کے بعد ایک عرصے سے افغان طالبان سے مزاکرات کی بھیک مانگتا رہا ہے جس کو عظیم افغانوں نے ہمیشہ پائے حقارت سے ٹھکرادیا بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کو سابقہ حکومت کی ناقص کارکردگی کیساتھ ساتھ جس چیز نے سب سے زیادہ سندقبولیت بخشی وہ ان جماعتوں کی ڈرون حملوں کے بارے میں سخت موقف تھا جس پر نہ صرف قائم رہنا بلکہ ان کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کرنا حکمران جماعتوں خصوصاََ مسلم لیگ نواز کی بڑی ذمہ داری ہے ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ عمران خان نے ڈرون حملوں پر مسلم لیگ ن کی بھرپور حمائت کا اعلان کردیا ہے اسی طرح ہی اگر دوسری جماعتیں بھی قومی سلامتی کے اس اہم ایشو پر قومی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے یکجا ہوجائیں اور امریکہ کو یہ مضبوط پیغام دیں کہ وہ ''امریکہ سمیت پوری دنیا سے برابری کی بنیاد پر خوشگوار تعلقات چاہتے ہیں لیکن ہم کسی کی غلامی برداشت نہیں کریں گے''تو یقیناََ یہ پیغام نہ صرف ایٹمی پاکستان کے شایان شان ہوگا بلکہ پاکستان کے ان دوست ممالک کا اعتماد بھی بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوگا جن کیلئے پاکستان گزشتہ دہائی سے ایک ناقابل اعتبار مملکت کی حیثیت اختیارکرتا جارہا ہے لیکن اب پاکستان کیلئے ایک اچھا موقع ہے کہ وہ ڈرون حملوں کے خلاف دنیا بھرمیں خصوصاََ اقوام متحدہ میں بھرپور لابنگ کرے اور ان کو یہ باور کرائے کہ ڈرون حملے نہ صرف کسی بھی ملک کی خودمختاری کیلئے چیلنج ہیں بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی کی بھی خلاف ورزی ہیں پاکستان کی جانب سے یہ آواز اٹھتے ہی اس کی حمائت میں کئی آوازیں عالمی سطح پر مل جائیں گی جیسا کہ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل ڈینس ہیلی ڈے شدید الفاظ میں ڈرون حملوں کی مذمت کرچکے ہیں اور برطانوی پارلیمنٹ کے بارہ ارکان نے تو صدراوبامہ کو باقاعدہ خط لکھ کر یہ ظالمانہ ڈرون حملے روکنے روکنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن امریکہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی جس کی بڑی وجہ خود پاکستانی حکومت کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف موثر آواز کا نہ اٹھنا ہے جس کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستانی حکومت خود ان ڈرون حملوں کو رکوانے میں سنجیدہ نہیں ہے اگرچہ میاں نوازشریف نے رچرڈ ہوگلینڈ کے ذریعے اپنا پیغام اوبامہ تک پہنچایا کہ ڈرون حملے غیرقانونی ہیں ان کا سدباب کیا جائے لیکن میاں صاحب کو اس سلسلے میں سابق ڈکٹیٹر پرویزمشرف کا وطن واپسی پر کیا گیا اعتراف بھی ذہین میں رکھنا چاہئے جس میں وہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے چندشرائط کیساتھ امریکہ کو ڈرون حملوں کی اجازت دی تھی لہٰذا حکمران جماعت کیلئے ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے جو کام سب سے پہلے کرنے کا ہے وہ امریکہ کیساتھ کئے گئے اس معاہدے کوختم کرنا ہونا چاہئے جس کیلئے میاں صاحب کو تحریک انصاف،جماعت اسلامی،جمیعت علمائے اسلام جیسی جماعتوں کی بھرپور حمائت حاصل ہوگی جو ہر فورم پر ان حملوں کو روکنے کا عہدکرتی رہی ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ پارلیمنٹ کی اور افواج پاکستان کی جانب سے ایک مضبوط پیغام ڈرون حملے روکنے کیلئے کافی ثابت ہوگا اوراگر پھر بھی امریکہ بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے باز نہیں آتا تو پھر نومنتخب حکومت کو عوامی امنگوں کی ترجمانی اور ملکی سرحدوں کے تحفظ کے تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے ڈرون گرانے کا حکم دے دینا چاہئے پوری پاکستانی قوم اس معاملے پر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی اور امریکہ بھی افغانستان اور عراق جنگ کے بعد ایٹمی پاکستان کیساتھ ٹکر لینے کی جرأت نہیں کرے گا۔
تحریر؛قاسم علی
About the Author: تحریر؛قاسم علی Read More Articles by تحریر؛قاسم علی: 119 Articles with 90870 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.