میچ فکسنگ سے کیس فکسنگ تک

دہلی پولیس نے میچ فکسنگ کیس میں جس وقت چندکرکٹ کھلاڑیوں کو گرفتار کیا اور پھر ان پر مکوکا لگایا، اس وقت اس کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ٹرائل کورٹ ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے سے پہلے ہی پولیس کی تفتیش پر سوالیہ نشان لگاکر مکوکا لگانے سے انکار کردیگا اور تمام ملزمان کو آناً فاناً ضمانت پر چھوڑدیگا۔مکوکا عدالت نے پولیس سے پوچھاجس ’خفیہ زریعہ ‘ سے اس کو میچ فکسنگ کا سراغ ملا اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ کرکٹ کھلاڑیوں اور جوا کھلانے والے بکیز Bookies میں ساز باز کی تھی جس کی بناءپر ان پر آرگنائزڈ کرائم (منظم جرم) کا الزام عائد کرکے سخت دفعات لگادی جائیں؟ کیونکہ ان دفعات کے تحت ضمانت نہیں ہوتی، اس لئے مقدمہ طے ہونے تک، جس میں برسوں لگ سکتے ہیں،ملزمان کو جیل میں پڑا رہناپڑتا ہے۔ پولیس نے تو یہی خیال کیا ہوگا کہ جس طرح اس نے پراسرار ’خفیہ اطلاع‘ کا حوالہ دے کر گزشتہ دو دہائیوں میںدرجنوں نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے عدالتوں میں بغیر ثبوت پیش کیا اور ذیلی عدالتوں نے ’خفیہ اطلاع ‘ اور الزامات کی معقولیت پر سوال اٹھائے بغیر ان پر فرد جرم عائد کردی اور برسہا برس ان کو جیلوںمیں قید رکھ کر ان کی زندگیوں کو برباد کیا، اسی طرح اس معاملے بھی اس کی تراشی ہوئی کہانی چل جائی گی۔ مگر سری سنت، چوہان اور دیگر۸۱ ملزمان بڑے خوش قسمت رہے کہ نہ ان میں کوئی محمد عامر تھا، نہ خالد مجاہد تھا، نہ طارق قاسمی،نہ بیٹری والا،نہ کوئی کشمیری اور نہ کوئی نام ایسا تھا جس کو سیمی سے جوڑدیا جاتا، ورنہ لاکھ بے گناہ ہونے کے باوجود عمر کا کچھ حصہ ان کا جیل کی نذر ضروہوجاتا۔اس معاملے میں انڈرورلڈ ڈان داﺅد ابراہیم کا نام ضرور آیا جو بیرون ملک اپنے کسی محفوظ ٹھکانے سے ہماری پولیس کی صلاحیتوں کا امتحان لیتا رہتا ہے۔ کیا پراسرار ہاتھ ہے داﺅد کا بھی جو ہر بڑے جرم کے پس پشت کارفرما ہوتا ہے مگر اس کا سراغ محکمہ خفیہ کے ہاتھ نہیں آتا اور پولیس کے ہاتھ اس کا جو بھی گماشتہ آتا ہے اس کے خلاف ثبوت نہیں ملتا۔عجیب تضاد ہے کہ زندگی کے کسی دوسرے شعبہ میں تو اقلیتی فرقہ کی چلتی نہیں مگر جرائم کی پوری دنیا ان کے ہی دم سے آباد بتائی جاتی ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں جب سے ملک میں دہشت گردی کی وبا چلی ہے ، پولیس کی تفتیش کا طریقہ کار بدل گیا ہے۔ اب جرم کی تفتیش اس جگہ سے حاصل سراغوں سے نہیں ہوتی جہاں جرم ہوا ہے بلکہ ایرکنڈیشنڈ کمروں میںبیٹھ کر طرح طرح کی تھیوریوں کے اختراع سے ہوتی ہے۔(اس کا بس ایک ہی استثنٰی ہے کہ شہید پولیس آفیسر ہیمنت کرکرے نے مالیگاﺅں دھماکے کی تفتیش اس موٹر سائکل سے کی تھی جو دھماکہ میں استعمال ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا اس قبل گرفتار ۳۱ مسلم نوجوان آخر کار بے گناہ نکلے اور سنگھی دہشت گردی کا راز فاش ہوا۔) چنانچہ محکمہ پولیس میں ایسے ماہرین تربیت پا گئے ہیں جو فلمی انداز میں جرم کی کہانی ترتیب دے کر حسب ضرورت ثبوت تراش لیتے ہیں اور ان کو ملزمان پر چسپاں کرکے کورٹ میں پیش کردیتے ہیں۔یہ ثبوت ذیلی عدالتوں میں بھلے ہی چل جائیں ،مگر اوپر کی عدالت جاتے جاتے ان کی پول کھل ہی جاتی ہے۔

ضمانت مل جانے کے بعد سری سنت اور دیگر ملزمان کے اہل خانہ نے جلدی نجات مل جانے پر خدا کا شکرادا کیا اور عدالت کی انصاف پسندی کی تعریف کی ۔ اس اظہار تشکر اور عدالت کی تحسین میں ہم خودکو بھی شریک پاتے ہیں بلکہ اس بڑھ کر یہ دعا بھی کرتے ہیں عدالتوںمیں یہ انصاف پسندی اور یہ تندہی عام ہوجائے اور کسی بھی ملزم پر فرد جرم عائد کرنے سے پہلے پولیس کی جانچ اور شہادتوں پر اسی طرح غور ہوجایا کرے جس طرح اس کیس میں ہوا ہے تو جیلوں کی آبادی خاصی کم ہوجائیگی۔ ان کم عمر لڑکوںکا تعلق کسی بھی مذہب اورکسی بھی ریاست سے کیوںنہ ہو، آخر ہیں تو ہمارے ہی بچے۔ اگران سے کوئی خطا ہوئی ہے تو اصلاح کی ضرورت ہے، سزا کی نہیں۔

دہلی پولیس نے چند نامور کھلاڑیوں کو گرفتار کرکے جو ”دھماکہ “ کیا تھا اس میں کوئی ایسا را زچھپا ہوا نہیں تھا جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف نہ ہو۔ چھوٹے سے چھوٹے قصبے میں بھی دوچار جوا کھانے والے ،جن کو ’بکی‘ (Bookie)کہا جاتا ہے،موجود ہیں۔ جوئے کے رسیا ان کے پاس رقم جمع کراتے ہیں اور فرضی نام کے ساتھ اپنا فون نمبردے آتے ہیں ۔ بکی کے پاس ہراووَر کے ساتھ ”آگے“ سے ریٹ آتے رہتے ہیں۔کبھی جووا دس اووَر کے سیشن کا کھیلا جاتا ہے، کبھی ایک اووَر کے رنوں پر اور کبھی ہارجیت پر وغیرہ ۔ میچ دیکھنے والے،جن میں میچ کے شائق کم،جوئے کے رسیا زیادہ ہوتے ہیں، بھاﺅ معلوم کرکے بازی لگاتے ہیں اور بعد میںجاکر اپنا حساب کتاب کرآتے ہیں۔یہ دھندہ کیونکہ موبائل سے چلتا ہے اس لئے اس کے نیٹ ورک کا پتہ چلانا کچھ مشکل نہیں۔ پولیس کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ کون کھارہا ہے اور کون کھلارہاہے۔ مٹھی گرم ان کی بھی ہوتی ہوگی۔

دنیا بھر میں کرکٹ کے ساتھ جوا ایک متوازی کھیل بن گیا ہے اور اس میں پیسہ اصل کھیل سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ہمارے ملک میں جووا صدیوں سے سماج میں رچا بسا ہوا ہے، اس لئے اس کا کوئی برا بھی نہیں مانتا۔دیوالی پر تھوڑا بہت جووا ہر کوئی کھیل لیتا ہے۔ لیکن یہ سارا دھندہ بڑی ایمانداری کے ساتھ اور منظم طریقے سے چلتا ہے۔ اسپاٹ فکسنگ جیسی بے ایمانی دھندے کی ساکھ بگڑ سکتی تھی، اس لئے شائد کسی باخبر نے اس کا ’سراغ ‘دہلی پولیس کو دیدیا ہوگا۔

جوئے کی یہ وبا کسی انڈرورلڈ ڈان کی ایجاد نہیں۔ مہابھارت کی ساری کہانی جووے پر ہی ٹکی ہے ۔ کورو جب اپنے چچیرے بھائیوں پانڈوﺅںکو میدان جنگ میں نہ ہرا سکے تو چوپڑ کی بساط بجھائی گئی اور اس میں چالاکی سے پانڈوؤں کو شکست دی گئی۔ یہاں تک کہ یدھشٹر نے اپنے چاروں بھائیوں کو اور آخر میں پانچوں بھائیوں کی مشترکہ بیوی دروپدی کو داﺅں پر لگادیا اورسب کچھ ہار گیا۔ کورو دروپدی کو بھرے دربار میں اٹھا لائے اوراس کی ساڑی تک اتارپھینکی جس سے وہ برہنہ ہوگئی، اسی کو چیر ہرن کہا جاتا ہے۔ہند اور بنگلہ دیش کے درمیان جو مسئلہ کچھ ایسے علاقوں کا ہے جو ملکیت تو ایک ملک کی ہیں مگر گھرے ہوئے دوسرے ملک کی زمین سے ہیں، وہ بھی جووے کا شاخسانہ ہیں۔ ان علاقوں کو مہاراجہ رنگاپور اور راجہ کوچ بہارایک دوسرے سے ہارے گئے تھے ۔

جہاں تک آئی پی ایل کا سوال ہے، یہ میچ ڈیزائن ہی اس طرح کیا گیا کہ اس میں قدم قدم پر جوئے کی گنجائش رہے۔ دہلی پولیس کی یہ کاروائی ایک خاص سیاسی پس منظر رکھتی ہے۔ دہلی میں گینگ ریپ کی المناک واردات کے بعد پولیس پر سخت تنقید ہورہی تھی۔ پولیس سربراہ نیرج کمار حالانکہ ایک مستعد افسر ہیں، مگر ان کی برطرفی کا مطالبہ بھی ہونے لگا۔ ادھر وزیر داخلہ سشیل کمارشندے ان سے اس لئے ناراض ہوگئے کہ ایک مظاہرہ کے دوران کچھ لوگ ان کی کوٹھی میں گھس آئے تھے۔ جس طرح گینگ ریپ اور ایک معصوم بچی کے ساتھ وحشی پن کے گناہ گاروں کوبلاتاخیر پکڑلیا گیا اس کو نظرانداز کرکے نیرج کمار اور دہلی پولیس کو نشانہ بنانا جائز نہیں تھا۔ بہرحال اسی دوران ریلوے وزیر کے بھانجے کی گرفتاری اورسپریم کورٹ میں کوئلہ جانچ معاملے میں سرزنش سے یوپی اے سرکارمشکل میں تھی۔ میڈیا میں بال کی ایسی کھال نکالی جارہی تھی کہ توبہ ہی بھلی۔ ان کرکٹرس کی گرفتاریوں سے ماحول ایک دم بدل گیاجس پر وزیرداخلہ نے پویس چیف کی کمر تھپ تھپائی۔چنانچہ میڈیا ، جو یوپی اے کے پیچھے پڑا ہوا تھا، جوئے کی بھول بھلیاں میں کھوگیا۔ اب روشن امکان ہے کہ جولائی میںمسٹر کمار شرمندگی کے احساس کے ساتھ سبکدوش نہیں ہونگیں بلکہ حکومت کی نظر میں سرخرو جائیں گے ۔

بہر حال یہ نوجوان خوش قسمت رہے کہ اسقدر جلد جیل سے نجات پاگئے حالانکہ یوپی کے وہ۸۱ نوجوان جو برسوں سے بے قصور جیلوں میں بند ہیں، رہائی کو ترس رہے ہیں اور ہائی کورٹ نے قبل اس کے کہ ان پر سے مقدمات واپس لینے کا عمل ذیلی عدالتوں میں شروع ہوتا، چند سنگھی وکیلوں کی عرضی پر کاروائی پر روک لگادی۔یہ وکلاءکی عجیب منطق ہے کہ الزام ثابت ہونے سے پہلے ملزم کو مجرم بتاتے ہیں اور دہشت گردی کے سراسر جھوٹے الزامات کے تحت گرفتارشدگان کی گلو خلاصی کو ملک کے لئے خطرہ ٹھہراتے ہیں۔ اس معاملے حکومت کے اعلانات اور اقدامات میں بھی بڑی دھوکہ ہے۔ حکومت کی طرف بارہ بنکی کی عدالت میں اور اب ہائی کورٹ میںجو پیروی ہوئی اوران کاجو نتیجہ نکلا اس پر کیس فیکسنگ کاگمان ہوتا ہے۔بہرحال ہمیں امید ہے کہ ایک دن یہ نوجوان ضرور باہر آجائیں مگر کاش یہ بھی اتنے ہی خوش قسمت ہوتے جتنے یہ جووئے کے کھلاڑی رہے۔(ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164111 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.