ترکی ڈرامے

ترکی کےسوپ سیریل بالآخرپاکستان میں بھی واردہوگئےہیں۔ اس سےقبل ڈب شدہ ترک مزاحیہ خاکےوقتاًفوقتاًعرب ٹی وی چینلزپرنشرہوتے رہےہیں۔ اوراب یہ پاکستان میں اپنی مارکیٹ بنارہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال مزاحیہ ڈرامہ سیریل 'نور'ہے۔ اسلامی شعارواقدارکی دھجیاں اڑاتا یہ سیریل عرب ذہنوں کو متاثر کرنے کے بعد اب پاکستانیوں کے لئے آزمائش بنا ہوا ہے۔

اس سےقبل بھی وطن عزیزمیں اسلامی شعارکامذاق اڑاتے غیرملکی ڈرامےنشرکئےجاتے ہیں۔ مگراس مرتبہ مختلف چینلزناظرین کومتاثرکرنےکےلئےجس طرح اندھادھندیہ ڈرامہ دکھانےپرکمرپیشہ ہیں، وہ ہمارے باشعور طبقےکےلئےلمحہ فقریہ ہے۔ عوام میں ان مادرپدر آزاد ڈراموں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس بات کی غمازہےکہ ٹی وی کےناظرین کس حد سستے، چھچھورے اورسطحی موادکے عادی ہوچکے ہیں۔ عرب دنیا کےروایتی علماءکی طرف سےان ڈراموں کےخلاف پہلافتویٰ ترکش سوپ سیریل کی سواقساط مکمل ہونےپرآیاتھا اور اس پر بھی خاصا احتجاج ہوا تھا کہ آخر اس فتنہ کی نشاندہی کرنے میں اس قدر تاخیر کیوں کی گئی؟ اب اگروہاں یہ حالات ہیں توپھربعید از قیاس نہیں کہ ہمارےملک میں توشایدکسی کودوتین سواقساط مکمل ہونے یا کئی سارے ڈرامےنشرہونےکےبعدہی کوئی آوازاٹھے۔ دلچسپ بات یہ کہ ڈرامہ سیریل نور 2005 میں خودترکی میں بری طرح فلاپ ہوچکاہے۔ مگرجب عالم عرب کےسیٹلائٹ نیٹ ورک MBCنے 2008کےموسم گرما میں ڈرامہ سیریل Gümüsکوعربی قالب 'نور' میں ڈھال کر پیش کیاتو راتوں رات مقبولیت کےریکارڈ ٹوٹ گئےاورمیڈیاکےمطابق ہیروکےرومانوی کرداراورساحرانہ شخصیت کےباعث بہت سےخاندانوں میں طلاق کی نوبت آگئی۔ ان سوپ سیریلز میں نہ صرف نامناسب حدتک مردوزن کااخلاط دکھایاجاتاہےبلکہ زنا، شراب، جوئے اور اغوا برائے تاوان کی بھی خوب تشہیرکی جاتی ہے۔ اکثر ڈراموں میں محیرالعقول واقعات پیش آتےہیں۔ مثلاً اسی ڈرامہ سیریل میں کئی اقساط بعدشادی شدہ ارب پتی کی مردہ گرل فرینڈ نہ صرف معجزاتی طورپرزندہ ہوکر اٹھ بیٹھتی ہے بلکہ اپنےہمراہ ہیروکی ناجائز اولادبھی منظرِعام پرلےآتی ہے!

نیویارک ٹائمزکےمطابق یہ ڈرامے درحقیقت وہی مرچ مصالحہ پیش کرتے ہیں جس کےامریکی ناظرین ہمیشہ سےشائق رہےہیں۔ تاہم ترک ٹی وی ڈائریکٹروں نےان تمام کرداروووقعات پراسلامی رنگ وروپ چڑھاکرناظرین کیلئے نئی دلچسپی کا سامان پیدا کیا ہے ۔ تاہم ترکوں کی نسبت عرب عوام اس سےزیادہ متاثر ہوئے ہیں اوریہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ متاثرین کےاس ہجوم میں اب پاکستانی عوام بھی شامل ہورہے ہیں۔ اسی طرح آگےآرٹیکل میں آتاہےکہ 'سعودی علماکےفتاویٰ کےباوجود غزہ شہرمیں کسی ایک دکاندارنےبھی ڈرامہ سیریل Noor کے طرز پر بننے والے نیم عریاں لباس دکانوں سےنہیں ہٹائے۔ اب اگریہ پڑھ کرآپکاخون کھول رہاہے۔ توجگر تھام کر بیٹھیں! ابھی آگےکچھ اوربھی ہے۔

اخبار و جرائد کےمطابق ڈرامہ سیریل "نور" کےخوبرو ہیرو کی وجہ سےمشرق وسطی میں خاندانی تنازعات اورطلاقوں کی شرح میں اضافہ ہواہے۔ یہ رول ترک اداکار "کیوان" نےاداکیا ۔ "مہند" نام کےاس کردارنے (اصل ترک ڈرامے میں اس کانام مہمت آیاہے) بہت سی عرب خواتین کومسحورکرکےان کےحقیقی شوہروں سےمتنفرکردیا۔ سعودی اخبارکےمطابق "دمام" کےایک رہائشی نے اپنی بیوی کی مسلسل شکایات سےتنگ آکراسےطلاق دے ڈالی ۔ اس کی بیوی کوگلہ ہی یہ تھا کہ اس کاشوہر نہ تو مہمت کی طرح خوبرو ہے اورنہ ہی اتنا رومانوی! اس طرح ایک "اردنی" مسلمان مردنے اپنی بیوی کو یہ بات سن کرطلاق دی کہ اس کی سب سےبڑی خواہش "مہمند" کے ساتھ ایک رات گزارنا ہے چاہے پھر اسے موت ہی آجائے! اسی طرح شامی ویب سائٹ کےمطابق اس جذباتی ڈرامےکی وجہ سےحلب میں چارطلاقیں ہوئیں! اسی طرح ایک طلاق شمالی افریقہ میں رپورٹ ہوئی جب کہ ایک جوڑے میں طلاق کی وجہ بیوی کاخوابگاہ میں "مہند" کی بڑی سی تصویرلٹکانا تھا۔ ان ترک ڈراموں میں ببانگِ دہل زنا ،مرد و زن کےاختلاط، اورقریبی رشتہ داروں میں ناجائزتعلقات کےسپنوں کاپرچارکیا جاتاہے۔ اسقاط حمل کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی ہےبلکہ اسےعورتوں کےکیرئیربنانےکےلیےنہایت ضروری خیال کیاجاتاہے۔ نیم عریاں ملبوسات، مغربی کلچر، منشیات اورشراب نوشی کی خوب تشہیرکی جاتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دےکرمعاملات میں مختارِکل دکھایاجاتاہے اورمردکی قوامیت کامذاق اڑایاجاتاہے۔ اب اس کےمقابلےمیں جہاں تک پاکستانی صنعت کاتعلق ہے، وہ اپنے ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکی ہےاوراب ٹی وی کےکرتےدھرتوں کاانحصار انڈیا، ہالی وڈ اورترکی ڈراموں پرہے۔ یہاں یہ بات بھی محل نظر رہنی چاہئےکہ پچھلے کچھ عرصہ میں عرب ملکوں میں کچھ بہت اچھے پروگرام پیش کئے گئے جنہیں ڈب کرکےنشرکرنامفیدہوسکتاہے۔ یہ دراصل خطرےکی گھنٹی ہے۔ یہ سوپ سیریل اس ملک میں اس مخصوص طبقے کےناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لئے نشر کئے جارہے ہیں جو ہماری اخلاقی اور مذہبی اقدار کی باقیات کواڑادیناچاہتاہے۔

ایک ایسی قوم کو جوہرحالت میں اپنےملک میں نفاذِشریعت کےلئےکوشاں ہو، اسےاس صورتحال کافوری نوٹس لینا چاہے۔ ہماری یہ اخلاقی ذمہ داری ہےکہ میڈیا کے اس بودے بہانے کو رد کردیں کہ یہ ڈرامےعوامی اصرارپردکھائے جارہے ہیں ۔ ہمیں طاغوتی طاقتوں کےچیلوں کےان ہتھکنڈوں سےبچ کرشریعت ِاسلامی کاپرچم بلندکرناہے اورعریانی وفحاشی کےاس سیلاب میں رسولِ ہاشمیؐ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےدکھائےہوئےراستےپرثابت قدم رہناہے۔ کچھ کرگزرنےکایہی وقت ہے !!!
basit meo
About the Author: basit meo Read More Articles by basit meo: 5 Articles with 5686 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.