پاکستانی سیاست میں جھوٹ و دھوکہ کا مکسچر

پاکستان حالات کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایک علاقے کے لوگ اس طرح بیس تیس لاکھ کی تعداد میں اپنے گھروں سے بے گھر و دربدر نہیں ہوئے اور اس کی ذمہ داری ان تمام کی ہے جنہوں نے نظام عدل کی حمایت کی اور صوفی محمد جیسے غیر ملکی آلہ کاروں کے دہشت گردی کے عزائم کو اور مستحکم کیا۔

پھر حالات نے پلٹا کھایا اور جیسے کہ سب کو علم ہے کہ ملک بھر میں صرف متحدہ قومی موومنٹ نے نظام عدل کی روز اول سے مخالفت کی تھی۔ پھر ہمارے بھولے سیاست دانوں کو بھی عقل آنے لگی اور ایک کے بعد ایک نظام عدل اور صوفی محمد اور اس جیسے فتنہ انگیزوں کے خلاف ڈھکے چھپے انداز میں بیانات آنے لگے (منور حسن بھی کہہ گئے کہ صوفی محمد نے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا تھا تھوڑے کافر تو وہ بھی ہو گئے ہونگے۔ اور منور حسن صاحب نے صوفی محمد کو تنبہہ بھی فرمائی کہ دیوبندی اکابرین جو الیکشن کے حامی اور اس میں شریک رہتے ہیں ان کے خلاف کہنے سے پہلے صوفی محمد اپنے اکابرین سے مشورہ کرلیں۔

بحرحال اب پاک فوج دہشت گردوں اور انتہا پسندوں پر حملے کرنے پر مصروف ہے تاکہ ملک کے سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقے کو دہشت گردی سے پاک صاف کیا جائے۔ اب کچھ سیاست دان جن کا کام ہی لاشوں پر سیاست کرنا ہے ان کے لیے تشویش کی بات یہ ہوئی کہ عوام تک ہمارے کچھ بیانات نہیں پہنچ سکے تو ہم اگلے انتخابات میں کیسے کامیابی کی کوشش کر پائیں گے۔ چنانچہ منافقین کے ایک گروہ جس میں چند جماعتیں شامل ہیں انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس جو سوات باجوڑ وغیرہ کے اوپر فوج کشی کے سلسلے میں بلوائی گئی تھی اس میں متفقہ عسکریت پسندوں کے خلاف قرار داد پیش کی اور ظالموں نے اپنے دستخط بھی ثبت کیے اور انہیں پتہ ہے کہ عوام کی یاداشت کمزور ہوتی ہے چنانچہ اب سوات میں جاری آپریشن کی مخالفت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ بھولے عوام یہ سمجھیں کہ یہ جماعتیں آپریشن کی مخالفت کر رہیں ہیں اور انہیں ہماری فکر ہے ۔ نہیں پیارے اور بھولے پاکستانیوں یہ منافق جماعتیں کسی کی فکر میں نہیں اپنے ووٹ زیادہ کرنے کے چکر میں اور چونکہ اس آپریشن میں انکے حمایتی اور ان کے سرپرست اور انکے شاگرد مارے جارہے ہیں اسلیے یہ دہشت گرد جماعتیں جو اسمبلیوں میں بھی نہیں ہیں مگر پھر بھی سیاست کے کھیل میں گھسی ہوئی ہیں (طاقت کا اندازہ اب کیجیے کہ اسمبلیوں میں بھی نہیں ہیں اور سیاست بھی قومی سطح پر کرنا چاہ رہی ہیں۔ اسمبلیوں میں اسلیے نہیں ہیں کہ عوام کے موڈ کا انہیں پتہ ہے کہ عوام نے انہیں مسترد کرنا شروع کردیا تھا گزشتہ کئی برسوں سے اس ڈر سے الیکشن کا بائیکاٹ بھی کیا )۔

ان منافق جماعتوں کی منافقت کا بھانڈہ اسفندیار ولی نے اکیس مئی ٢٠٠٩ کو جنگ کے اخبار میں اسطرح پھوڑا مندرجہ زیل پر خبر صاف ہے جنگ کی موقع ملے تو پڑھ دیکھیں یقین آجائے گا

https://www.jang.com.pk/jang/may2009-daily/21-05-2009/update.htm#76

“جو سیاسی جماعتیں عسکریت پسندوں کیخلاف کاروائی کی مخالفت کر رہی ہیں وہ اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ اٹھا کر دیکھیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کی حمایت کی تھی (تمام میں یقیناً جماعت اسلامی، تحریک انصاف، اچکزئی اور دوسرے سنگل سنگل سیٹوں والے وہ بھی اگر انتخابات میں حصہ لیتے تو )۔ اس مشترکہ اعلامیہ پر کانفرنس میں شریک تمام سیاسی رہنماؤں کے دستخط موجود ہیں۔ جو کاروائی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ اعلامیہ کو ایک بار پھر اٹھا کر دیکھ لیں۔ اسفند یار ولی نے کہ وہ اے این پی مالاکنڈ آپریشن سے مطمئن ہے۔ اگر مقاصد پورے نہ ہوئے تو آگے بھی جانا ہوگا۔ جماعتیوں اور ن لیگ والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسفندیار ولی نے لاشوں اور مفادات کی سیاست کرنے والوں کے ارمانوں پر مٹی ڈالتے ہوئے کہا کہ امدادی کیمپوں میں آئندہ آنے والے وی آئی پیز کو کوئی پروٹوکول نہیں دیا جائے گا۔ یہ وقت پوائنٹ اسکورنگ اور پولیٹیکل گینز کا نہیں ہے۔ بلکہ بہت بڑا قومی سانحہ ہے۔

سلام ہے قائد تحریک جناب الطاف حسین بھائی کی دور اندیشی کو کہ انہوں نے کتنا جلدی یہ محسوس کر لیا تھا کہ یہ نام نہاد نظام عدل دراصل نظام جبر و قتل ہے۔ اور کس طرح وقت نے ثابت کیا کہ الطاف بھائی کی بات صحیح تھی اور باقی تو اب سب اس معاملے میں الطاف بھائی کی تقلید کر رہے ہیں۔

اور جس طرح طالبان کے معاملے پر الطاف بھائی نے پوری قوم کو متنبہ کیا تھا وہ ثابت ہو رہا ہے کہ ریسکیو ون فائیو کی عمارت جو دوسروں کو مدد فراہم کرتی ہے خود ایسے دہشت گرد اور انہتا پسند طالبان سوچ رکھنے والوں کے ہاتھوں سے کس بری طرح تباہ ہوئی اور کتنے لوگ فرض کی ادائیگی میں شہید ہوئے ۔ اور کس طرح پشاور میں کل دھماکے ہوئے اور لوگ مارے گئے کس طرح دوسرے علاقوں میں دھماکے ہوے اور درجنوں افراد مارے گئے مگر ٹھریے کیا ان افراد کی شہادت کسی طرح جماعتی اور تعصبی لوگوں کی سیاسی تاریخ بارہ مئی کے شہیدوں سے کسی طرح کم ہے کیوں ان لاہور پشاور ڈیرہ غازی خان کے شہیدوں اور خاص کر سوات مالاکنڈ اور دوسرے علاقوں میں شہید ہونے والوں کے لیے مزہبی اور تعصبی جماعتیں ریلیاں وغیرہ نکالتیں اور یوم سوگ وغیرہ مناتیں۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 501028 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.