پرویز مشرف کے علاوہ اور کتنے غدارِ وطن ہیں؟

وفاقی حکومت نے سابق فوجی جرنیل و صدر پاکستان پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ چلانے سے متعلق ایک چار رکنی تحقیاقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔کمیٹی ایف آئی اے کے چار افسران پر مشتمل ہے جو اس معاملے کا جائزہ لے گی۔پرویز مشرف نے جب وطن واپسی کا فیصلہ کیا تھا تو انھیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوگا کہ ماضی کی روایات کے برعکس اس بار عدلیہ اور کوئی سیاسی حکومت کسی فوجی آمر کیخلاف بڑے اقدامات کرنے کیلئے خود کو نفسیاتی طور پر تیار کرلے گی۔جنرل ایوب خان سے لیکر آج تک آمریت کو عدلیہ نے ہی توثیق دی اور نظریہ ضرورت کے تحت عوام کی مرضی کے بغیر حکومت کرنے کا اختیار فراہم کیا۔موجودہ عدلیہ نے پہلی بار این آر او کو خلاف قانون قرار دیکر جہاں ایک طرف صدر پاکستان آصف زرداری کیخلاف سوئس مقدمات کھولنے کے احکامات دئیے بلکہ حکم عدولی پر ایک منتخب وزیر اعظم کو بر طرف بھی کرکے نا اہل قرار دے دیا۔ جبکہ سابق حکومت نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے سیائیاں جی کو دوسری چھٹی بھی لکھ ماری تھی تو یقینی طور پر عدلیہ ایک زخمی شیر کی طرح اپنی رٹ چیلنج کئے جانے پر غصے میں ہے اور اب دیکھنا یہ باقی ہے کہ اعلی عدلیہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز کے خلاف کیا ایکشن لے گی۔تاہم مملکت کی تاریخ کے پہلے بڑے مقدمے میں ایک طرف وزیر اعظم نواز شریف نے ایک بار پھر ملکی ساکھ کو داؤ پر لگا دیا ہے تو دوسری جانب مسلح افواج ے افسران کیلئے بھی ایک امتحان کی گھڑی شروع ہوچکی ہے کہ اس تمام صورتحال سے کس طرح نپٹا جاسکتا ہے۔سابق سفیر حسین حقانی کی جانب سے میمو گیٹ کے مقدمے میں جس طرح نواز شریف نے ریورس گیئر لیاتھا او عدلیہ بھی اس کیس کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکی تو گمان غالب یہی ہے کہ بجٹ کی دھول چھٹنے تک ، میمو گیٹ اسکنڈل کی طرح پرویز مشرف کا ٹرائل بھی" ہوا "ہوجائے گا۔پاکستان میں بڑے اہم مقدمات کبھی بھی اپنے حقیقی اور منطقی انجام تک پہنچائے نہیں جاتے ۔پاکستان توڑے جانے کا مقدمہ سقوط ڈھاکہ کے ذمے داروں کو جب انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا تو کس طرح ممکن ہے کہ بین الاقوامی قوتوں کو کمک فراہم کرنے والے پرویز مشرف کے خلاف کمزور ، معاشی بدحال حکومت کسی بڑے فیصلے کیلئے بڑا قدم اٹھا سکتی ہے۔ جب پی پی پی اپنی لیڈر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو اپنی طاقتور حکومت میں گرفتار تو کیا ، اس کے خلاف چالان بھی نہیں پیش کر سکی اور اقوام متحدہ کی ٹیم کے تحفظات پر لائحہ عمل مرتب نہیں کرسکی تو نواز شریف حکومت کسی ایسے شخص کے خلاف کیونکر صف آرا ہوسکتی ہے ،جس نے پاکستان کو آکسیجن فراہم کرنے والے ممالک کے کہنے پر نواز شریف کو معاف کرتے ہوئے معائدے کے تحت سعودی عرب بھیج دیا تھا۔ کیا یہ ممالک اس مرحلے پر خاموش ر ہ کر پرویز مشرف کیخلاف کسی بھی ٹرائل کی حمایت کریں گے تو ایسا سوچنا بے وقوفی ہوگی۔یقینی طور پر پرویز مشرف کیخلاف مقدمات درج ہوتے رہیں گے لیکن جس طرح ماضی میں اہم مقدمات کی فائلوں پر منوں مٹی پڑی رہی ، اب بھی ایسا ہی ہوگا اور پرویز مشرف کیخلاف غیر جانبدارنہ قانونی کاروائی ممکن نہیں ہوسکے گی۔ پاکستان کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ اہم نوعیت کے تمام معاملات کو سرخ فیتے کی نظر کردیا جاتا ہے ۔اب بھی ایسا ہی ہوگا ، اکبر بگٹی کیس ، لال مسجد کیس سمیت اب غداری کا یہ مقدمہ بھی دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث ہی بنے گا۔ہمارا سارا نظام کرپٹ اور بد عنوان ہے ۔ اگر مملکت کیساتھ کسی بھی سیاسی جماعت کو دلی محبت ہوتی تو کبھی بھی اپنے اقتدار کیلئے فوج کا سہارا نہیں لیتے۔وزرات عظمی پانے والی تمام سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ فوج کا سہارا لیا اور ان کے آشیر باد کے بعد ہی اقتدار حاصل کیا۔ لہذا ان سیاسی جماعتوں سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ وہ جمہوری حکومت میں فوج کے کردار کو پس پشت ڈال کر پارلیمنٹ کو بااختیار بنا کر قومی سلامتی کے فیصلے کرسکتے ہیں۔پاک فوج ملکی انصرام و انتظام میں اس طرح گھل مل چکی ہے کہ کسی بھی سیاسی حکومت کیلئے اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر حکومت چلانا ناممکن ہے۔پاکستان اس وقت دوہرے نظام کے تحت چل رہا ہے اور اس دوہرے نظام میں ظاہری حکومت کسی اور کی تو باطنی عمل داری کسی دوسرے کے اختیار میں ہے۔ہمیں موجودہ نظام میں بہتری کی رائیں تلاش کرتے رہنے کی ضرورت ہے اور مایوسی کے اندھیروں کو دور کرنے کی سعی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اس کے بغیر حقیقی منزل کو نہیں پایا جاسکتا۔پرویز مشرف کے خلاف حالیہ مقدمات فرد واحد تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس میں ان پردہ نشینوں کے نام بھی شامل ہونگے جو کبھی بھی پاکستانی عوام کو جواب دہ نہیں رہے۔پھر بھلا مشق ناتمام کرنے کا فائدہ کیسے پہنچے گا ؟۔میڈیا کے ذریعے افواج پاکستان کی سبکی اور جمہوری حکومتوں کے تخت الٹنے کے مباحثوں سے عسکری قوت کے مورال کو نقصان پہنچے گا۔اس وقت پاکستان کے دو ستون بھرپور قوت کے ساتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔جس میں ایک عدلیہ اور ایک میڈیا ہے ۔ لیکن ہمیشہ یہی دیکھا گیا ہے کہ کمزور نے طاقت ور کا ساتھ دیا ہے ، کمزور کبھی کمزور کے ساتھ ملکر طاقت ور نہیں بنا ، بلکہ اس نے ہمیشہ طاقت ور کے سامنے خود کو شکست خوردہ تسلیم کیا ہے ۔اس وقت سب سے کمزور ترین ادارہ پارلیمنٹ ہے ، جس کے وزیر اعظم کو ایک عدلیہ کا جج ، توہین عدالت کے جرم میں جب چاہیے گھر بھیج کر نا اہل قرار دے سکتا اور ایک طاقت ور ترین ادارہ فوج ہے۔ جو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے بیک وقت الجھی ہوئی ہے ، ملکی سلامتی کیلئے جہاں سرحدوں پر جان کی بازی لگائی ہوئی ہے تو ان کے تھنک ٹینک نے پاکستان کی سلامتی کیلئے دیگر اسباب کو بھی سامنے رکھا ہو ہوگا۔ اس لئے ایسا ممکن نہیں ہے کہ ملکی سلامتی و اقتدار کے فیصلے کرنے والی قوت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس کے سابق سربراہ کو عوامی عدالت میں کھڑا کیا جاسکے گا۔یہ صرف خام خیالی ہے ۔ میڈیا ٹرائل ہے اور پاکستانی عسکری قوت کو بین الاقوامی دباؤ میں لانے کیلئے ایک چال ہے۔ یقینی طور پر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ اپنے مفادات کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے اس لئے افغانستان کی جنگ سے باہر آنے کیلئے اور خود کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کیلئے کسی بھی قسم کی کوئی بھی چال کھیل سکتا ہے اور اس کی شطرنج میں کوئی بھی اس کا مہرہ ہوسکتا ہے۔عسکری طاقت کو سیاسی دباؤ لانے کیلئے امریکہ اپنے گھوڑوں کی ڈیڑھ چال کھیل کر اپنے مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔اس لئے ایسے بھی دوسرے رخ سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھلا امریکہ اپنے اُس اتحادی کو کیسے فراموش کرسکتا ہے جس نے صرف ایک فون پر اپنے گھٹنے ٹیک دئیے اور بے شمار پاکستانیوں کو اُن کے حوالے کیا۔پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اس لئے اُس کی جانب سے بھی افغانستان کے معاملے میں بڑی باریک بینی سے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جا رہا ہے ، پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کو متحرک کرنے کیلئے امریکہ کے جان کیری کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہیں۔اب اگر فوج کو سیاسی دباؤ میں النے کیلئے اُس کے سابق جرنیل کو عوامی عدالت میں میڈیا ٹرائل کراکر الجھایا جا رہا ہے تو اس کا مقصد پاکستانی عوام میں فوج کیخلاف منفی جذبات پیدا کرنا مقصود ہیں۔اس موقع پر میڈیا کو نہایت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ معاملہ "ریٹنگ" بڑھانے کا نہیں بلکہ پاکستان کی بقا و سلامتی ہے۔یہ سب جانتے ہیں لیکن پھر بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے علاوہ اور کتنے غدارِ وطن ہیں ؟۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 674939 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.