کیا کسی میں اتنی ہمت ہے جو یہ کہہ سکے یایہ مان جائے...؟

آج کیا کسی میں اتنی ہمت ہے ...؟کہ کوئی یہ کہہ سکے کہ” 66/65سالوں میں ہمارے جتنے بھی سول یا آمر حکمران اور اِنہیں بھڑکانے اور چڑھانے اور چلانے والے جتنے بھی بیوروکریٹس گزرے ہیں ،اِن سب نے اپنے اپنے انداز سے مُلک کا ستیاناس کیا ہے اورآج بھی اِسی طرح(صرف 45 / 50 دنوں میں ہی ڈرون حملوں کے معاملے میں معنی خیزخاموشی اور بجٹ 2013-14کے بعد بے لگام ہوتی مہنگائی اور مہنگائی کے جن کی آزادی سے ہی نظر آنا شروع ہوگیا ہے ) کہ گیارہ مئی 2013کے عام انتخابات کے بعد کامیاب ہوکر آنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور اِن کی حکومت کے اتحادی وفاق سمیت مُلک کے دیگر صوبوں میں جہاں کہیں بھی اپنا حقِ حکمرانی لہک لہک کر اور جھوم جھوم کرچلااور نبھارہے ہیں،یہ بھی اپنے پیش روو ¿ں کی طرح مُلک کو گُہن کی طرح چاٹ چاٹ کااپناپیٹ بھررہے ہیں اور اِسی طرح قومی خزانے سے اپنے ا ندرونِ اور بیرونِ ملک کھولے گئے بینک کھاتوں کو ایسے بھر رہے ہیں،کہ جیسے مٹکے یا پالٹی کو نل یا نہرکے پانی سے آسانی سے بھراجاتاہے، اِن کے اِس لچھن کو دیکھ کراَب تو ایسالگتاہے کہ جیسے یہ آئندہ بھی ایسی ہی عالمِ بے فکری میں مگن رہیں گے ، اورایسے میں اگر اِنہیں ابھی نہ روکاگیاتومجھے یہ اندیشہ ہے کہ شاید ہمارے حکمرانوں اور اِن کے چیلوں کایہ عمل اگلے وقتوں میں مزیدبڑھ جائے گا،اِس موقع پر مجھے یہ کہنے دیجئے ...!کہ میرے مُلکِ عظیم پاکستان کے قیام سے آج تک اِس کا ستیاناس کرنے اور اِس کی معیشت کو دیوالیہ تک پہنچانے کے ذمہ دار بھی ہمارے ہر دور کے حکمران اور اِن کے اردگرد گدوں کی طرح منڈلاتاہواخوشامدی افسرشاہی کا ٹولہ رہا ہے ،جنہوں نے قومی خزانے کو اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے خاطر ہمیشہ ایک دوسرے کا کاندھااستعمال کیا اور مُلک اور قوم کا بیڑاغرق کرکے چلتے رہے،یہ سب خوفِ خداکئے بغیر اپنے لئے وہ کچھ کرتے رہے کہ وہ لالچ میں یہ بھی بھول گئے کہ” قیامت کے دن بدترین حالت اُس شخص کی ہوگی جس نے اپنی دنیابنانے کی خاطر دوسروں کی دنیابربادکرڈالی“۔

اَب آپ یقینا میری اول اور ثانی اِن باتوں سے ضرور متفق ہوں گے کہ ”وقت کے ساتھ ساتھ دُنیا کا رنگ روپ،اندازاور رواج سب ہی کچھ بدلتے رہتے ہیں“۔مگرآج میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ رہاہوں کہ1978کی افغان روس جنگ سے لے کر آج کے ڈرون حملوں کے عذاب تک جتنے بھی ایسے فیصلے کئے گئے ہیں اِن کی وجہ سے مُلک کا استحکام ،اِس کی سالمیت اور اِس کی خودمختاری کو خاک میں ملایاگیاجن کے پسِ پردہ ہمارے مُلک پر نازل ہونے والے آمر حکمران رہے ہیں اور اِن کے بعد سول حکمران بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی حکومت کو چلانے اور اپنے ذاتی مفادات کے خاطر آمروں کے مُلک دُشمن اقدامات کے آگے بندہ باندھنے کے بجائے اِن کی توسیع کی ۔یوں آج اِن سب کے فعلِ مکروہ کی وجہ سے میرے مُلک میں تواتر سے ہونے والی دہشت گردی ، خودکش بم حملوں اور ڈرون حملوں کی وجہ سے بگاڑ پیداہواہے،آج اِن کا بھی احتساب ہوناچاہئے ، اور آج صرف ایک پر غداری کا الزام لگانے سے کسی کا کچھ بھی نہ بگڑے گا اور نہ بنے گا،اُلٹا تشنہ لبی پھر بھی باقی رہے گی، لہذاضروری ہے کہ 1978کے اُس آمر کا بھی احتساب کیا جائے جس نے ایک سول حکمران کو لٹکاکر اقتدار سنبھال اور روس افغان جنگ میں اغیار کا آلہ کار بن کر مُلک کو تباہی کے دلدل میں دھکیل کر خود بھی دنیا سے منہ موڑگیا۔

مگرآج افسوس اور صدافسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے مفادات اور لوٹ مار کے خاطر مُلک کودنیا کے رنگ و روپ، اندازاور رواج کی ہواتک نہیں لگنے دی، اِنہوں نے توپچھلے66/65 سالوں سے قوم کواِس کے بنیادی مسائل میںاُلجھاکر کچھ اِس طرح سے جکڑاکہ قوم کو اپنے بنیادی حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کی فکر کے سِواکچھ اور سُجھائی ہی نہیںدیتاہے گویا ہمارے عیار و مکار حکمرانوں اور میرے مُلک پر اول روز سے قابض مفاد پرست افسر شاہی نے قوم کی حرکت پر پہرہ لگاکرقوم کے ہر فرد کوعدم حرکت کی کیفیت سے دوچاکیا اور اِسی کیفیت میں اِسے فناکرنے کا سامان کئے رکھا۔اور آج میرے مُلک میں جتنی بھی بُرائیاں دہشت گردی اور بم دھماکوں اور ڈرون حملوں کی وجہ سے جنم لے چکی ہیں اِن سب کے ذمہ دار بھی ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ پچھلے65/ 66سالوں نے میرے مُلک میں جتنے بھی حکمران آئے، کوئی بھی مُلک اور قوم کے ساتھ مُخلص نہیں رہا، سب نے اِسے سونے کا انڈادینے والی مرغی سمجھااور اِس سے اپنے اپنے مفادات حاصل کرتے رہے،اِس عرصے میں سب کی توجہ مرغی اور اِس کے سونے کے انڈے پر تو رہی مگر کسی نے بھی مُلک اور اِس کے عوام کے حالات بہترکرنے کی طرف کوئی توجہ نہ دی،آج یہی وجہ ہے کہ میرامُلک طرح طرح کے مسائل اور پریشانیوں میں گھرکررہ گیاہے،جن سے جان چھڑانا مشکل ہی نہیں بلکہ ممکن بھی ہوگیاہے۔

اگرچہ یہاں یہ امرقابلِ توجہ ضرور ہے کہ خوش قسمتی سے میرامُلک موجودہ اِن تمام مسائل اور پریشانیوں سے نمٹنے کی خداداد صلاحیتوں سے مالامال ہے، جن کے استعمال سے یہ اپنے مسائل اور درپیش بحرانوں سے نکل سکتاہے ،مگر یہاں صرف ضرورت اِس عمل کے کرنے کی ہے کہ میرے مُلک کو پہلے کرپشن، لوٹ مار، بدامنی، نااہلی، ناقص اقتصادی منصوبہ بندی ،لاقانونیت ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ ،خودکش بم دھماکوں،ڈرون حملوں کے خاتمے اور پسِ پردہ اغیار کے اشاروں پرکئی دوسرے اقدامات کی حمایت کرنے والے حکمرانوں اور اِنہیں چلانے والے اِن کے چیلو ں سے نجات دلائی جائے ، توپھر میرامُلک بھی ترقی و خوشحالی کی راہ پرچل سکتاہے،جس سے اِس کے عوام کے دن بھی پھرسکتے ہیں۔

بہر حال ...!میں اُوپری سطور میں لگی لپٹی کئے بغیر اپنے موجودہ حکمران اور اِن کی حکومت کے کئے گئے اقدامات پر تنقیدضرور کرگیا ہوں مگرپھر بھی اِس کے باوجود میں یہاں اِن سے پُر اُمید ضرور ہوں اور میںیہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کررہاہوں کہ کہنے کو تو ہماری 50دن کی مدت گزارنے والی اِس حکومت کے چنداقدامات ایسے ضرور ہیں جن پر اگر حقیقی معنوں میں خالصتاََ نیک نیتی کی بنیاد پر عمل کردیاگیاتو ممکن ہے کہ اِس سے مُلک میں بہتری کے کچھ اثرات نظرآجائیں،اور مُلک توانائی کے بحران سمیت اور دیگرڈرون حملوں جیسے مسائل سے نکل جائے۔(ختم شُد)

مُحمدسمعیداعظم،
About the Author: مُحمدسمعیداعظم، Read More Articles by مُحمدسمعیداعظم،: 20 Articles with 12831 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.