2014 کا افغانستان

افغانستان میں اتحادی افواج کی موجودگی اور 1979سے افغان عوام کو درپیش مسائل میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے ۔ بنیادی طور پر افغان عوام اور دنیا کے امن کو امریکی جارحیت کی وجہ سے مسلسل خطرات کا سامنا رہا ہے ۔ امریکہ اپنے مقاصد کے حصول کےلئے استبدادی طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلسل امریکی جارحیت کی وجہ سے قیام امن کےلئے کی جانے والی عالمی امن کو مسلسل نقصان پہنچا ہے۔افغانستان کے لاکھوں عوام سرد جنگ کی وجہ سے بھینٹ چڑھے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ دوحہ آفس دراصل افغانستان کے مستقبل کے لئے نہیں بلکہ امریکہ کی شکست کے اثرات سے باہر آنے کےلئے غور وفکر کےلئے بنایا گیا ہے۔افغان سرزمین پر اتحادی افواج کےلئے ویتنام سے زیادہ تباہی کے بعد مذاکرات کےلئے ایک بار طالبان کو دعوت دینا امریکہ کی پالیسوں کی ناکامی کا اہم اعلان ہے۔افغانستان کے مستقبل کے نام پر امریکہ کا اپنی شکست سے باہر آنے کےلئے راہ کی تلاش میں پاکستان کو ایک بار پھر قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ۔ بد قسمتی سے پاکستان نے اپنی ملکی خارجہ پالیسی کے بجائے بیرون درآمد پالیسوں پر زیادہ انحصار کیا ، جس کی وجہ سے پاکستان پرائی جنگ کو اپنی جنگ بنانے پر مجبور ہوگیا افغانستان کے امن کے لئے عالمی برادری نے سوائے لاکھوں عوام کو جنگ کی آگ میں جھونکھنے کے کوئی اہم کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ۔عالمی برادری کی جانب سے امریکی مفادات کے لئے کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کےلئے امریکہ کو آشیرباد دینا منافقت کی انتہا ہے۔ امریکہ خود کو محفوظ بنانے کےلئے پوری دنیا کو خطرات سے دوچار کررہا ہے۔امریکہ سمےت تمام اتحادی ممالک اگر افغانستان میں امن کے قیام میں سنجیدہ ہوتے تو پاکستان کے تحفظا ت کو ترجیح اور فوقےت دینی چاہیے تھی۔پاک، امریکہ تعلقات کبھی بھی افغانستان اور پاکستان کی عوام کے لئے سود مند نہیں رہے ہیں۔ زمینی حقائق کے برخلاف امریکہ کو اپنا اتحادی بنانا ملکی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی ہے جیسے دور کرنے کےلئے سالوں سال کا عرصہ درکار ہوگا۔پاکستان کے خلاف جس منظم انداز میں دنیا بھر میں پروپیگنڈا کیا جارہا ہے ایسے مزید ہوا دینے کےلئے پاکستان میں موجود ایسی لابی بھی سرگرم عمل ہے جیسے مملکت سے زیادہ اقتدار کے حصول کا سودا سمایا ہوا ہے۔پاکستان ماضی میں اپنائی جانے والی خارجہ پالیسی کی آسیب سے باہر نہیں نکل سکتا ، پاکستانی عوام کو لاتعداد قربانی دینے کے لئے خود ذہنی طور پر تےار کر لینا چاہیے۔بد قسمتی سے ملکی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور الزامات کی درشت سیاست کی وجہ سے ملکی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ اگر پاکستان کے تحفظ کے نام فوجی حکمران جمہوریت کو پنپنے دےتے تو یقینی طور پر پاکستان کبھی دو لخت نہ ہوتا اور آج مزید ٹکڑے ہونے کے لئے راہ ہموار نہیں ہوتی۔ملکی سا لمیت اور خود مختاری کو بدقسمتی سے اپنے ملکی اداروں اور خارجہ پالیسوں نے تاراج کیا ،آج بھی یہ عمل زور و شور سے جاری ہے لیکن کوئی بھی رجوع کے عمل کو اختیار کرنے کےلئے پہل کو تیار نہیں ہے جس کا خمیازہ یقینی طور اچھا نہیں نکلے گا۔امریکہ افغانستان میں مکمل شکست سے دوچار ہوچکا ہے ، افغانستان اب امریکی معیشت کے گلے میں ہڈی بن پھنس چکا ہے جیسے اگلنا اور نگلنا اس کےلئے ممکن نہیں رہا ہے ۔ گھوم گھام کر طالبان سے مذاکرت پر سب مجبور نظر آتے ہیں تو یہ ثابت کرجاتا ہے کہ طالبان نے اپنی قوت کی بناءپر نیٹو افواج کو مکمل شکست سے دوچار کردیا ہے اور امریکہ اب راہ فرار اختیار کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کوئی راہ نہیں مل رہی اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود امریکہ اتنا بے بس ہے تو 2014ءکے بعد طالبان کی قوت کا کیا حال ہوگا ۔افغانستان کے مستقبل کے نام پر پاکستان کو الجھانے کےلئے امریکہ اپنے مقاصد کا حصول چاہتا ہے لیکن پاکستان اپنے مستقبل کے تحفظ کےلئے ہر امریکی شرط کو ماننے سے گریزاں نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بار بار عسکری اور سیاسی مسائل دونوں ممالک کے باہمی تنازعات کا شکار نظر آرہے ہیں اور اس نفسیاتی جنگ میں پاکستان اپنی کم قوت کے باوجود امریکہ پر حاوی نظر آرہا ہے اور امریکہ کی جانب سے دانت پیسنے کے علاوہ کوئی دوسرا عمل مجبورا اختیار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کے کردار کو ختم کرنے تمام کوششیں لاحاصل ہیں۔پاکستان عملی طور پر 32سال سے افغان سرزمیں پر موجود ہے اور موجودہ زمینی حقائق کے پیش نظر ممکن نہیں کہ پاکستان کے کردار کو یک بہ جنبش ختم کردیا جائے یا عراق کی طرح مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر پاک سرز مین پر نیٹو افواج کو چہل قدمی کا موقع دیا جائے۔پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہے اور تمام تر کمزوریوں کے باوجود آخری پتے تک کھیلنے کی مکمل صلاحیت اور ہمت رکھتا ہے۔امریکہ سمیت عالمی برادری کو پاکستان کی اہمیت اور تحفظات کی دوری کےلئے ایک کے بجائے کئی قدم پیچھے ہٹنا ہونگے ، پاکستان کسی بھی ملک سے براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اور گھاس کھانے کے دعوی محض جذباتےت سے زیادہ کچھ نہیں ہے لیکن پاکستان گوریلا جنگ کا اسپیشلسٹ بن چکا ہے اور اس کی استعداد کا مقابلہ کرنا آسان عمل نہیں ہے۔مذاکرات کے عمل کے بغیر افغانستان پر ہمیشہ طالبان کے خوف کی تلوار مسلط رہے گی اور طالبان کی موجودگی کو ختم کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔القاعدہ سمیت تمام شدت پسند تنظیمیں امریکی صدر کے اس بدعوی کے باجود قلع قمع کردیا ہے ، پریشانی کا سبب بنتی رہیں گی لیکن دوحہ میں مزاکراتی عمل کا انعقاد طالبان کو یکدم ختم کرنے میں نیٹو اور امریکہ افواج کی ناکامی عالمی برادری کےلئے اپنی خامیوں کو تلاش کرنے کا ایک موقع ہے۔کوئی ملک کسی بھی بیرونی ملک کی جارحیت کو زیادہ عرصے برداشت نہیں کرسکتا اور عوام میں بالاآخرکوئی غلط مفروضہ بھی درست بن جانا غیر فطری عمل نہیں ہے۔یقینی طور پر دنیا بھر کے تمام بنی نوع انسان جاننا چاہیں گے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کےلئے کیا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ تھلگ مملکت کے طور پر نہیں رہ سکتا ، خاص طور موجودہ ملکی حالات اور معاشی افراتفری کی بناءپر پاکستان کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا عمل خواب و خیال ہی ہوسکتا ہے۔ امریکہ ، افغان امن مذاکرات عمل سے خود پاکستان میں مستقل امن آئےگا اور افغانستان کے امن سے پاکستان کا امن پوشیدہ ہے جیسے حکمت عملی سے اختیار کیا جائے تو کروڑوں عوام کی جان و مال کے تحفظ مل سکتا ہے۔پاکستان اس موقع پر مذاکرات کے تمام عمل میں اہم فریق کے طور پر اپنا کردار کرے کیونکہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان براہ راست متاثر ہے ۔مذاکرات یہی واحد راستہ ہے جس سے تمام فریق اپنے تحفظات دور کرکے جنگ سے نکل سکتے ہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 674899 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.