فرقہ پرستوں کے محافظ فرقہ پرستوں سے زیادہ خطرناک

مسلمانان ہند مخالف مسلم ہندوتوا عناصر کے دو طرفہ سنگین حملوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں ایک تو وہ ہیں جو مسلمانوں کی جان و مال اور عزت پر راست حملہ کرتے ہیں (خواہ وہ کانی و مالی نقصان پہنچانے والے ہوں یا زہریلی اور نفرت پھیلانے والی تقاریر یا تحریروں کے ذریعہ ماحول میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو ذہنی اذیت دے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ انتظامیہ کے مختلف شعبوں خاص طور پر پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیوں میں ایسے افراد ہیں جو مسلمانوں کے خلاف کام ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو بچانے والے افراد کو مسلمانوں کو نہ صرف بچانے نہیں دیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو نقصان اور اذیت پہنچانے والے افراد کا زبردست دفاع کیا جاتا ہے اور اصل مجرموں کو بہ حسن خوبی بچالیا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا دعووں کی تصدیق کے لئے کئی مثالیں موجود ہیں۔ ملک میں ہزاروں فساد ہوئے ہزاروں مسلمان ہلاک ہوئے لیکن آج تک شائد ہی کسی کو دورانِ فسادات کسی مسلمان یا مسلمانوں کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہو یا جانبداری برتنے یا فرائض سے غفلت برتنے کے جرم میں کسی کلکٹر ، مجسٹریٹ یا پولیس کے اعلیٰ افسروں کو کوئی سخت سزادی گئی ہو اور تو اور بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کو تک آج تک سزا نہیں ہوئی۔ گجرات فسادات 2002ء کے کرتا دھرتا نریندر مودی کو تو بی جے پی کی سرکردگی میں این ڈی اے نے کوئی سزا دینا مناسب نہیں سمجھا لیکن کانگریس کی یو پی اے حکومت نے کسی قسم کا کوئی اقدام کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ منموہن سنگھ کی مرکزی حکومت نے نریندر مودی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرکے مودی کے حوصلے و ہمت اتنی بڑھادی ہے کہ وہ 2014ء میں وزیر اعظم بننے کی فکر میں ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے والے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

قاتلوں، دہشت گردوں اورغنڈوں کو منظم کرنے والا، گودھرا کی سازش کا سرغنہ اور اپنے اعلیٰ افسران پولیس سے انکاؤنٹر کے بہانے مسلمان نوجوانوں حتیٰ کہ ایک 19سالہ طالبہ عشرت جہاں کو قتل کرانے والا نریندر مودی ہندوستان کا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ بٹلہ ہاوس میں معصوم نوجوان ہلاک ہوئے پولیس، تحقیقاتی ایجنسیاں اور وزیر اعظم کا دفتر (PMO) کوئی تحقیقات کے لئے تیار نہیں۔ وزیر اعظم کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی اور موجودہ گورنر بنگال ایم کے نارائنن نے تو بٹلہ ہاوس کے بارے میں تحقیقات کے مطالبے کو ملک سے غداری قرار دیا تھا۔ ایم کے نارائنن نے سمجھوتہ اکسپریس بم دھماکوں میں ہندودہشت گردوں کے ملوث ہونے کا پتہ چلنے پر مداخلت کی تھی جس عہدیدار نے جو دل میں آیا وہ کیا لیکن اس پر خاموشی ہی رہی وزرأ، کانگریس میں شامل مسلمان قائدین اور حزب مخالف سے وابستہ مسلمان قائدین اور دوسرے سیکولر قائدین کا رویہ تو ماضی کی روایات کے مطابق ہی رہا اگر کسی نے کچھ کہا تو وہ نقالہ خانہ میں طوطی کی صدا ثابت ہوتی ہے اس طویل پس منظر کے ساتھ یہ عرض ہے کہ ملک کی بے حد اہم ایجنسی آئی بی کے ہندوتوا ہی نہیں بلکہ مسلم دشمن چہرہ پر سے غیرجانبداری، دیانت داری اور سیکولرازم کے حسین رنگوں سے سجی نقاب اتر چکی ہے۔

مرحومہ عشرت جہاں کے ذکر سے قبل مرحوم صادق جمال کا ذکر ضروری ہے ۔ سب سے پہلے یہ سن لیں کہ صادق جمال ہوکہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھ ہلاک کئے جانے والے افراد کی موت میں آئی بی کے اعلیٰ افسرراجندر کمار کا ہی نام آتا ہے اور آئی بی نے ہی عشرت جہاں اور ان کے ساتھیوں اور صادق جمال کو دہشت گرد قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ وہ نریندر مودی کو قتل کرنے کی سازش تیار کرکے اس کو قتل کرنے کے ارادے سے احمد آباد جارہے تھے۔ مودی اور ان کے ساتھیوں اور توگڑیا و اشوک سنگھل اور دیگر بڑے ہندوتوادیوں کا قتل ان کا مقصد تھا ۔ آئی بی ہی کی وجہ سے نہ جانے کتنے بے گناہ جعلی پولیس مقابلوں کے نام پر قتل کئے گئے جھوٹے الزامات میں گجرات کے جیلوں میں بند ہیں اور چند کو بہ مشکل رہائی ملی ہے۔ گجرات 2002ء کے قتل عام کے بعد مودی نے اپنا قد بلند کرنے اور اپنے اطراف چھائے ہوئے نفرتوں اور بدنامی کے بادل چھاٹنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا کہ پاکستانی دہشت گرد تنظیمیں ہندوستان کے مسلمان دہشت گردوں (نام نہاد) کے ہاتھوں ان کو قتل کروانا چاہتی ہیں۔ مودی کے یہ سارے ڈرامے اور کھڑاگ ناکام رہے نام نہاد ڈراموں کے ذریعہ مودی نے بے گناہ و بے قصور لوگوں کو قتل کرکے مودی نے اپنا قد بڑھانا چاہا تھا۔ آئی بی نے مودی کی دل کھول کر مدد کی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور آئی بی کی پشت پر مرکزی حکومت کا محکمہ داخلہ ہے۔ گجرات میں ہوئے بدنام زمانہ جعلی مقابلوں میں صادق جمال اور عشرت جہاں کے علاوہ سہراب الدین کے معاملات میں آئی بی نے پہلے مودی کی مدد یوں کی کہ مندرجہ بالااور دیگر افراد بہ شمول پرچاپتی کو زبردست دہشت گرد قرار دیا پھر ان کو مرواڈالنے میں مودی کی مدد کی اور اب قاتل سامنے آئے تو ان کو بچانے کی فکر ہے۔ امت شاہ، مودی، راجندر سب ہی کے جرائم کھل کر سامنے آگئے ہیں لیکن ان کو بچانے کی آئی بی کوشش کررہی ہے۔

دہشت گردی یا کسی بھی جرم میں ملوث ہونے کے شبہ میں ملک میں کسی کو بھی (خاص طور پر مسلمان کو بلکہ 90فیصد مسلمان تو محض شبہ میں گرفتار کئے جاتے ہیں) تو آئی بی کے آفیسر کو عشرت جہاں کے کیس میں مرکزی محکمہ داخلہ کی راجندر کمار کو بچانے کی کوششوں کی وجہ سے محکمہ داخلہ کے ساکھ داؤپر لگ گئی ہے اس سے قبل بٹلہ ہاؤس معاملے میں بھی اسی قسم کی بے جواز اور ناقابل فہم باتیں کی گئی تھیں۔ کچھ نہیں سوجھا تو کہہ ڈالا کہ بٹلہ ہاوس کی تحقیقات سے پولیس کے حوصلہ پست ہوجاتے ہیں یہ کیسی پولیس ہے جس کے حوصلہ سچ کے اظہار سے پست ہوجائیں گے۔

محکمہ داخلہ نے ان سطور کے رقم کئے جانے تک فی الحال راجندر کمار، نریندر مودی اور امت کو بچالیا ہے۔ محکمہ داخلہ نے آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا ہے بلکہ الٹا شدید نقصان پہنچائے ہیں۔ سقوط حیدرآباد کے بعد مملکت نظام میں مسلمانوں کا جو قتل عام انتہا پسند مسلم دشمن غنڈوں نے کیا اور جس طرح لوٹ مار، زناآتشزدگی اور جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کا بازار گرم کیا تھا اس پر ایک تحقیقاتی رپورٹ مولانا آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو کی مرضی سے پنڈت سندرلال، قاضی عبدالغفار اور یونس سلیم پر مشتمل کمیٹی نے سقوط کے بعد ہوئے قتل عام او ر دیگر مظالم کی مبسوط اور مفصل رپورٹ تیار کی اور ضروری کارروائی کے لئے وزیر داخلہ سردار پٹیل کو یہ رپورٹ پیش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر مسترد کردی کہ کیونکہ یہ رپورٹ وزارت داخلہ کے حکم سے تیار نہیں کی گئی ہے اور کسی کی بھی زبانی تجویز و منظوری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے یہ تھا وزارت داخلہ کا رویہ اور کسی میں ہمت نہیں تھی کہ سردار پٹیل پر اعتراض کرے خواہ وہ نہرو رہے ہوں یا مولانا آزاد!۔ یہ واقعہ ہم نے اس لئے بیان کیا ہے کہ قارئین کو معلوم ہوکہ آج جو رویہ وزارت داخلہ کا ہے وہ آزادی کے وقت سے ہی چلا آرہا ہے۔ محکمہ داخلہ کے ہر عہدیدار نے اپنے پیشرو کا رویہ جوں کا توں اختیار کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزارت داخلہ کے اس قسم کے رویہ پر کسی بھی اعلیٰ سطح پر کبھی بھی غور نہیں کیا گیا اور نہ ہی اعتراضات ہوئے۔

کانگریس کی یو پی اے حکومت نے 2004ء میں برسراقتدار آکر مودی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت جواز، قانونی موقف کے مضبوط ہونے اور عدالت عظمیٰ کے مودی پر شدید تنقید کے باوجود نہیں کی حالانکہ 2004ء میں مودی کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنا آسان تھا ثبوت بھی مٹے نہیں تھے۔ ماحول بھی ساز گار تھا۔ مودی ہی نہیں وزیر ریلوے کی حیثیت سے نتیش کمار نے گودھرا میں ریلوے بوگی کی آتشزدگی کے معاملے میں نتیش اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر رہ کر بھاری جرم کیا تھا لیکن کانگریس نے اس کام کو بھی سبوتاج کیا جو لالو نے بنرجی کمیٹی بناکر کیا تھا۔ گجرات کے اعلیٰ پولیس افسران پر اب جس طرح شکنجہ کسا جاراہا ہے (اس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے) وہ حکومت خود بھی کرسکتی تھی۔ آج آئی بی راجندر کو بچارہی ہے جبکہ ملک کی ایجنسیوں کا حال یہ ہے کہ ہزاروں مسلمانوں کو بلاثبوت کئی کئی سال جیل میں ڈال دیتی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے افضؒ گرو کو پھانسی دلوادی لیکن آئی بی اور محکمہ داخلہ راجندر کمار (جن کے خلاف ثبوت اور شواہد سی بی آئی کے پاس ہیں) تحفظ دے کر آئی بی ہندوتوا کے نظریات پر اپنا ایقان ظاہر کررہی ہے بلکہ عشرت جہاں کو 19سال کی عمر میں دہشت گرد اور لشکرطیبہ کا ایجنٹ بناکر شہید کرواچکی ہے۔ قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ آئی بی کے کارکنان کا رویہ اپنے اعلیٰ افسران کی پیروی میں کس قدر مسلم دشمن ہوسکتا ہے؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 168356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.