آستین میں چھپا سانپ،فری میسن

فری میسن ایک ایسی بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے ، جس کا مقصد دنیا میں دجال اور دجالی ریاست کی راہ ہموار کرنا ہے ۔ اس میں بیس برس سے بڑی عمر کے لوگ ممبر بنائے جاتے ہیں۔ بظاہر تو یہ سوشل رابطوں اور فلاحی کاموں ، اسپتالوں ، خیراتی اداروں، فلاحی تنظیموں اور یتیموں کے تعلیمی اداروں کی ایک تنظیم ہے۔امریکہ میں اس کے ممبران کی تعداد اسی لاکھ سے زیادہ ہے ، بظاہر یہ ایک خفیہ سلسلہِ خوات ہے ، خیرات کرنا اس کے ممبران کے فرائض میں شامل ہے۔ تنظیم کے پاس لاکھوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالر کے فنڈ ہیں ۔ اس کے پیروکار دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہیں ، آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر جارج واشنگٹن اور گوئٹے اس کے سربراہان میں شامل رہے ہیں یہ سنہ 1771ءمیں برطانیہ میں قائم ہوئی تھی ، برطانیہ کا حکمران خود اس کا سربراہ رہا ہے اس کا ہیڈ آفس اب بھی برطانیہ میں ہی ہے ان خیراتی اور فلاحی اداروں کی آڑ میں مسلم دشمنی اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا اور اس کے اولیں مقاصد میں سے ہے ۔امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے میں یہودی خصوصا "فری میسن "ممبران کی اکثریت ہے اور امریکی افواج کے ان دستوں میں جو بیرون امریکہ یعنی عراق ، بوسینا ، چیچنیا اور افغانستان میں بھیجے جا رہے ہیں ، کثرت سے کٹر یہودی شامل ہیں تاکہ وہ اپنے مذہبی انتقام کے تحت زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کےلئے مسلمانوں پر دہشت گردی کی انتہا کرسکیں۔گوانتاناموبے میں جو مظالم مسلمانوں پر ڈھائے جار ہے ہیں اب تو وہ منظر عام پر آچکے ہیں ۔ عراق اور افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں اسی تنظیم کے ملوث ہونے کے شواہد پائےگئے ہیں ۔

پاکستان میں بھی یو ایس ایڈ کی آڑ میں فیری میسن زیادہ سرگرم نظر آنے لگی ہے۔پاکستان بھی فری میسن کی اُن ہی سازشوں کا شکار ہونے لگا ہے جیسے ترکی میں انجمن اتحاد و ترقی (comittee of union and Progress)قائم ہوئی اور اس نے اپنی خفیہ تنظیم فری میسن کے ذریعے سلطنت عثمانیہ کو پارہ پارہ کردیا۔ایک مغربی مصنف آر ،ڈبلیو سٹین واٹسن (R.W.Seton watson)اپنی کتاب قومیت کی بیداری (مطبوعہ 1917 ء)میں لکھتا ہے"نجمن اتحاد و ترقی (comittee of union and Progress) کی اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور غیر ترک اور غیر مسلم خطوط پر قائم کی گئی تھی اس انجمن کے اہم ترین عہدے داروں میں سے بمشکل ایک فرد ترک تھا ۔"درحقیقت یہودیوں کی فری میسن تنظیم ترکی میں تقریبا سو سال سے زائد عرصے سے سرگرم ہے جب 13 اگست 1878 ءکو ایک نوجوان انقلابی علی سوادی ، سلطان مراد پنجم کو ترکی کا تخت واپس دلانے میں ناکام ہوگیا اور اسے بمعہ اس کے ساتھیوں کے قتل کردیا گیا تو یہودیوں نے فورا ہی اپنے ایک دوسرے گماشتے اسکالیری (Scaleri cleanthies)کو اس کام پر مامور کردیا ۔ یہ شخص ایک یونانی تھا جو استنبول میں رہائش پزیر تھا اور فری میسن میں لاج کا ماسٹر تھا اس نے ترکی کے چند اعلی افسران سے ملکر مراد پنجم کو تخت نشین کروانے کی سازش کی۔ ( حوالہ کے لئے ملاحظہ ہو جارج حداد کی کتابRevoulutions and Military rule in middle East) یونیورسٹی آف کیلفورنیا مطبوعہ نیویارک صفحہ نمبر۸۴۔)۔جدید ترکی میں قانونی مقدمات شرعی عدالتوں سے دیوانی معدالتوں میں منتقل ہوئے،ترکی زبان کو رومی رسم الخط میں تبدیل کردیا گیا، قمری مہنیوں کے بجائے شمسی مہینے شروع کرادئے گئے ، موسیقی کی درسگائیں ، خواتین کو ملازمتوں میں جگہ فراہم کرنا اور ایک زیادہ بیوی رکھنے پر پابندی عائد کردی گئی۔جو ملک اسلامی خلافت کا آخری نشان رہ گیا تھا اور عالم اسلام کے اسخطے سے دنیا بھر میں خلعت اور خلیفہ کو اجازت نامے جاری کئے جاتے تھے وہاں یہ قراداد پاس کردی گئی کہ اذان اونچی آواز میں نہیں دی جائے گی ، طالبات تعلیمی اداروں میں حجاب استعمال نہیں کریں گی۔ یہی وہ سازشیں تھیں جو فری میسن نے یہودی ذہینت کے ساتھ اسلامی ملک میں امداد کے نام پر کروائی ۔ اس کا ثبوت لارڈ کنروس Lord Kinross کی کتاب " اتا ترک ، ایک قوم کا احیا "میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ"ترکی کی انجمن اتحاد و ترقی نے فری میسن تنظیم کے طریقوں کو آزادی سے استعمال کیا اور انجمن کارکن بنانے کےلئے اسی طریقہ کار کو اختیار کیا جو فری میسن کرتے ہیں ، انجمن کارکن بنانے کےلئے وہی تقریب منعقد کی جاتی جاتی تھی جس میں امیدوار کارکن کی آنکھون پر پٹی باندھ کر نقاب پوشوں کی سامنے پیش کیا جاتا جو لمبی لمبی عبائیاں پہنے ہوئے ہوتے اور اسے تلوار اور قرآن پر حلف اٹھوایا جاتا کہ وہ اپنے ملک کو آزاد کرائے گا،انجمن کے رازوں کی حفاظت کرے گا اور اس کے احکامات کی تعمیل کرے گا، اس حلف میں یہ بھی شامل تھا کہ اگر انجمن کسی کو قتل کرنے کا حکم دے گی تو اس کی تعمیل بھی کی جائے گی۔"مصطفی کمال پاشانے اپنے مزاج کے برخلاف یہ حلف اٹھایاانھیں فری میسن کے بجائے قرآن پر حلف اٹھانے پر تامل تھا ۔مصطفی کمال نے تین نقاب پوشوں کے سمانے حلف اٹھایا ۔ یہودیوں کی سازش کامیاب ہوئی اور سلطنت عثمانیہ جس کی حدود مغرب سے مشرق تک پھیلی ہوئی تھیں اور جس نے یورپ کی عظیم الشان سلطنتوں کو لرزہ بر اندام کیا ہو اتھا پارہ پارہ ہوگئی۔ان علاقوں کے مسلمان جو ایک امت واحدہ میں پروئے ہوئے پرسکون اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے ان میں علاقائی عصبیت کا زہر داخل کرکے چھوٹی چھوٹی حقیر اکائیوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ بین لاقوامی صہیونیت اسرائیل قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی اور جن عرب ممالک کو "آزادی"کی نعمت سے نوازا گیا وہاں اقتدار کے حقدار صرف اسرائیل کے گماشتے قرار پائے جو صرف آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرسکتے ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف متحد نہیں ہوسکتے۔

پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے اور پاکستان جس مقصد کے لئے حاصل کیا گیا تھا وہ دریائے بنگال میں برد کردیا گیا اور باقی کرم خوردہ پاکستان میں علاقائی ، صوبائیت ، لسانیت اور فرقہ واریت اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کے دشمنان پاکستان کے ٹوٹنے کی تاریخیں اور نقشے شائع کرکے پیش گوہیاں کرنے میں مصروف ہیں کہ پاکستان صرف پنجاب کی حد تک رہ جائے گا۔موجودہ سیاسی و ملکی حالات کا اگر جائزہ لیں تو اندازہ کرنے میں کوئی مشکل نہیں آئے گی کہ نظریات سے بڑھ صوبائیت ہم سب پر غالب آچکی ہے اور اس مملکت میں مسلمانوں پر ٹارگٹڈ حملے ، مساجد اور مزارات پر دہماکے سمیت بے گناہ انسانوں کی جان و مال کا عدم تحفظ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ ان عوامل کے پس ِ پشت بیرونی عناصر کارفرما ہیں۔فری میسن جیسی متعدد تنظیمیں پاکستان کی جڑیں کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں اور ہم آج بھی پاکستان کی کھوکھلی بنیادوں پر لسانیت ، صوبائیت اور فرقہ وارےت کی منزلیں بنانے میں جُتے ہوئے ہیں ۔ہم آزادی نسواں کے حوالے سے اسلامی تواریخ کے بجائے جدید مغرب کی نقالی زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ترکی کو ایک رول ماڈل ملک قرار دیتے ہوئے اُن کی موجودہ ثقافت کو نجی چینلوں میں اردو ڈبنگ کے ساتھ پھیلا کر فری میسن کے مشن کو پورا کر رہے ہیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666807 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.