ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر اینکر پرسنز کا منفی کردار

امریکہ کی ایک فیڈرل اپیلز کورٹ ، اسامہ بن لادن کی امریکی نیوی سیلز کی خصوصی ٹیم کی کاروائی میں ہلاکت اور سمندر میں ان کی تدفین جاری کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہی تھی تو امریکی حکومت کی جانب سے یہ موقف دیا گیا کہ اسامہ بن لادن کی تدفین سے متعلق تصاویر بہت خطرناک ہیں اور انھیں جاری نہیں کیا جاسکتا اس سے امریکیوں کے خلاف تشدد کو مہمیز ملے گی۔امریکی محکمہ انصاف کے اٹارنی جنرل رابرٹ لویب نے عدالت کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ تصاویر کی اشاعت سے تشدد کو ہوا دینے اور جوابی حملوں کی ترغیب دینے کیلئے بھی استعمال کی جاسکتا ہے۔جوڈیشنل وچ نامی ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے ماتحت عدالت 2012ء کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں اسامہ بن لادن کے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں واقع کمپاؤنڈ سے ملنے والی باون تصاویر اور ویڈیوز کے اجرا ء پر پابندی برقرار رکھی گئی تھی۔جوڈیشنل وچ تنظیم کے وکیل کا موقف تھا کہ امریکی ایجنسی سی آئی اے نے اسامہ بن لادن کی مختلف تصاویر میں تمیز نہیں کی تھی ۔ امریکہ آزادی اطلاعات کا سب سے بڑا دعوی کرتا رہا ہے اور آزادی رائے کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن امریکی ایکٹ کے تحت حاصل استثنی کے تحت تصاویر پر پابندی عائد کردی گئیں اور عدالت کے د و ججوں کوڈٹہ راجرز اور میرک گارلینڈ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ان تصاویر کے اجرا ء سے لیبا کے دوسرے بڑے بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملے کی طرح دوسرے امریکیوں پر مزید حملوں کی اہ ہموار ہوسکتی ہے۔ستمبر2011میں بنغازی میں حملے کے نتیجے میں لیبا کے متعین امریکی سفیر کرس اسٹیونز سمیت چار اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔یہ امریکہ کی جانب سے پاکستان میں کاروائی کے بعد کا وہ دوہرا معیار ہے کہ دنیا کو اس بات سے بھی بے خبر رکھا جائے کہ پاکستانی حدود میں کس طرح امریکی جاسوس کام کرتے ہیں اور امریکی مقاصد کیلئے قومی سلامتی کی بھی پرواہ نہیں کرتے ۔دوسری جانب ہمارے الیکڑونک میڈیا کے اینکرپرسن ہیں جنھیں اپنے پروگراموں میں قومی سلامتی و وقار سے زیادہ اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ انکے چبھتے ہوئے تلخ سوالات کے نتیجے میں عوام کے دل پر کیا گزر ے گی ، انھیں بس اپنے چینل میں ملکی وقار پر سوال کرنے کا حق ہے۔ ہمیں بھی پوچھنے کا حق ہے کہ کروڑوں عوام کے دلوں میں عسکری قوتوں کا مورال گرانے کیلئے بیرونی کمک تو انھیں مہیا نہیں ہوئی ۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی عوام کو پاک عسکری قیادت سے متنفر اور بددل کیا جائے اور عوام کو فوج کے خلاف آوازاٹھانے پر مجبور کیا جائے۔مبینہ طور پر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جوکہ336صفحات پر مبنی ہے ، جس میں افغانستان میں2001ء کے امریکی حملے کے بعد سے اسامہ بن لادن کی روز مرہ زندگی کا احاطہ بھی کیا گیا ہے اس کمیشن کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ ، طالبان سے تعاون کی بھیک مانگ رہا ہے تو دوسری جانب افغان حکومت میں امریکی غلام پاکستان کیخلاف مسلسل ہزہ سرائی کرنے میں مصروف ہیں۔ رپورٹ منظر عام آنے سے قبل افغان عسکری فوج کی چیف کی جانب سے پاکستان پر براہ راست الزام عائد کیا گیا کہ طالبان پاکستان سے افغانستان میں کاروائیاں کرتے ہیں اور طالبان ، پاکستان کے کنڑول میں ہیں۔ پھر ڈرامائی طور پر پاکستان سے باہر ڈیڑھ سال قبل مرتب ہونے والی کمیشن رپورٹ منظر عام پر آجاتی ہے اور کمیشن کے سربراہ بھی اچانک لب کشائی کرتے ہوئے اس کی تصدیق کرتے ہوئے پنڈورا بکس کھول دیتے ہیں۔پاکستانی الیکڑونک میڈیا کو تو جیسے مرچ مصالحہ مل گیا اور انھوں نے پاکستانی کی عسکری قوتوں پر لعن طعن کرتے ہوئے ایسے پوری دنیا میں شرمندہ کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا۔کسی نے امریکہ کو جدید ترین ٹیکنالوجی کا حامل ہونے کے باوجود نااہل قرار نہیں دیا کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان سے اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے میں اتنے سال کیوں لگے اور ، افغانستان کے سابق امیر ، ملا عمر اب بھی افغانستان میں موجود ہیں لیکن وہ ابی تک ان کی گرد کو پا نہیں سکے ۔یقینی طور پر کمیشن کی رپورٹ میں بہت کچھ ایسا ہے ، جس پر بحث کی جاسکتی ہے ، لیکن کچھ امور ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن پر خاموشی قوم کے بہترین مفاد میں ہوتی ہے۔حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سے لیکر اب ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ بھی ملکی سانحات پر مبنی اہم قومی دستاویزات ہے ، لیکن ہمیں اس بات کو سوچنا ہوگا کہ جب ان سانحات پر مبنی رپورٹس کو منظر عام پر اس لئے نہیں لایا جاتا کیونکہ اس سے ملکی قومی اداروں کی سبکی اور مورال کو نقصان پہنچتا ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ رپورٹس غیبی ہاتھ سے منظر عام پر آجاتی ہیں تو اس کے مقاصد پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر ان حساس رپورٹس کو کون منظر عام پر کن مقاصد کیلئے لیکر آیا۔ الیکڑونک میڈیا کے اینکر پرسن کو یہ حق کسی نے نہیں دیا کہ وہ قومی حساس معاملات پر ٹکے ٹکے کے لوگوں کو میڈیا پر بیٹھا کر اظہار کراتے رہیں۔کیا ان کے سامنے یہی ضروری ہے کہ ملکی وقار داؤ پر لگے تو لگے ، لیکن ان کے لئے ضروری ہے کہ ان کی ریٹنگ بڑھے۔میڈیا پروفیشنل ازم ہے۔ پروفیشن کو اردو میں"پیشہ"کہتے ہیں ، اگر پیشہ ور صادق ہو تو پھر اس کا احترام ضروری ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایک اور جنس کو بھی" پیشہ ور" کہا جاتا ہے ، اس لئے انھیں اس بات کا خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ اپنے ٹاک شوز میں ملکی حالات کا خیال رکھے بغیر جس قسم کی گفتگو کرتے ہیں اس سے عوام کے اذہان پر کیا رائے مسلط کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈیا ، معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، لیکن وہ اس بارے میں کیوں بحث نہیں کرتا کہ پاکستان میں ان کے اپنے میڈیا اینکر و صحافی غیر ملکی ایجنٹ اور دشمنوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔چند روپوں کی ملازمت حاصل کرنے والے آج کروڑوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ یہ اینکرز کبھی اُن صحافیوں کے حق کے لئے بات نہیں کرتے ، جن کی محنت کی وجہ سے وہ اس مقام پر پہنچے ہیں کہ انھیں تو وقت پر بھاری بھر کم مراعات مل جاتی ہیں ، لیکن خوف و جنگ کے ماحول میں کوریج کرنے والے صحافیوں کو مہینوں مہینوں تنخوائیں نہیں ملتی۔ان کیمرے ، عدلیہ کے ان کرداروں کے بارے میں خاموش رہتے ہیں ، جن کی وجہ سے کرپشن میں جوڈیشنل سسٹم پہلے نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔اینکر پرسن بے لگام گھوڑے ہیں کہ جہاں چاہیں دوڑتے چلے جائیں اور جیسے چاہیے روندتے چلے جائیں ، لیکن کسی بھی اینکر نے کسی اینکر یا زرد صحافت کے حامل شخص کے کرپشن اور ملک دشمن عناصر کی نشان دہی کی ہو۔اینکر پرسنز کو بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ، حالات و واقعات پر مثبت انداز اپنانا چاہیے اور سب سے پہلے خود اپنا احتساب کرنا چاہیے۔عوام کو حقائق کے نام اداروں سے بد ظن کرنے کی کوشش آزادی رائے نہیں بلکہ بلیک میلنگ ہے ، جس کا مظاہرہ ہم کئی ہفتوں سے مختلف موضاعات پر دیکھ اور سن رہے ہیں۔انھیں ملکی مفاد کے خاطر حساس موضوعات پر جگت بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ عوام ایسے عوامل کو قطعی نا پسند کرتی ہے جس سے سوائے نفرت، تشدد اور بد گمانی کو فروغ ملے۔اگر انھوں نے اپنا طرز عمل درست نہیں کیا تو عوامی ردعمل ، سبکیلئے خطرناک ہوگا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 674998 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.