خٹک جی کا پیار بھرا خط

وزیر اعلیٰ خٹک کی جانب سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایک دوسرا پیار بھرا خط بھی لکھ دیا گیا ہے ،اِس تین صفحات پر مشتمل خط میں خیبر پختونخوا سے دہشت گردی ولا قانونیت کے خاتمے کیلئے حکومت سے صوبے میں موجود قبائلی آئی ڈی پیز کو اِن کے علاقوں میں بھیجنے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے اوراِسلام آباد و کراچی سمیت ملک بھر کے مختلف علاقوں میں موجودفرنٹیئر کانسٹیبلری دستے پختونخوا کو واپس کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گُزشتہ خط میں دی جانے والی تجویز میں ترمیم بھی کی ہے کہ اے پی سی کی بجائے وزیر اعظم کی زیر صدارت ایک ایسا اجلاس طلب کیا جائے جِس میں تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ ،چیف آف آرمی سٹاف ،ڈی جی آئی ایس آئی ،ڈی جی ایم آئی ،اوردیگرسول وملٹری حکام سب شریک ہوں،اِس میں خٹک جی کی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ میری سوچ کے مطابق افغانستان اِس وقت ایسی غیر ملکی ایجنسیزکا گڑھ بن چکا ہے جو کِسی بھی قیمت پر پاکستان میں امن نہیں چاہتیں،اِنہیں کے ٹرینگ یافتہ لوگ ڈالروں کے عوض بارڈر کراس کرکے پاکِستان آتے ہیں اور یہاں موجود افغان مہاجرین کے ٹھکانو کو اپنا مسکن بناتے ہوئے اپنے یہودی آقاؤں مقاصد کی تکمیل ایسے طریقہ سے کرتے ہیں کہ خود سامنے آنے کی بجائے ہمارا جوتا ہمارے ہی سر مارتے ہیں یعنی کہ ہمارے ہی بچوں کو مختلف جگہوں پر بٹھاکر ورغلاتے پھُسلاتے ہیں اورپھر اِنہیں اپنے تربیتی مراکز میں لے جاتے ہیں جہاں پہلے اُنہیں جنت کے متعلق بتایا جاتا ہے پھر توڑ مروڑ کر اقوال بزرگانِ دین و جنت کے حصول کیلئے اُن کی انتھک محنتوں اور شہدا کے کی شہادتوں کے قصے سُنا ئے جاتے ہیں جِس کے بعد اِنہیں جنت میں مِلنے والی حوروں اور اُن سے حاصل ہونے والی لذت سے آشنا کروانے کیلئے اِنہیں اندھیرے میں لے جایا جاتا ہے جہا ں پہلے سے موجود غیر مذہب عورتیں اِنہیں اپنے مختلف حربوں کے ذریعے موت کو گلے لگانے کیلئے بے قرار کر دیتی ہیں اِس طرح وہ ایک مسلمانوں کے قتل عام کیلئے ایک مسلمان کو ہی خود کش بمبار بنا دیتے ہیں جبکہ ہمارا مذہب یعنی کہ اسلام کہتا ہے کہ جِس نے ایک اِنسان (اپنا کلمہ گو بھائی) قتل کیا گویا اُس نے پوری اِنسانیت قتل کردی اور ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اب رہی بات پاکِستان میں موجود دہشت گردی کے نیٹ ورک کی تواِس میں کُچھ عمل دخل ہماری داخلہ و خارجہ پالیسی کا ہے اور کُچھ ہمارے حساس اِداراروں کابھی جو ہماری مذہبی جہادی تنظیموں تک اِنہیں رسائی دیتے ہیں خیر مختصر یہ کہ ملکی سلامتی و امن و امان کیلئے افغان مہاجرین کی واپسی اِتنی ہی ضروری ہے جتنی اِنسانی زندگی کیلئے سانس کی روانی ضروری ہے مگر اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی بہتر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے مگر ایسا ہونا نہ ممکن سا لگتا ہے جِس سے مُتعلق تفصیلاً اگلی بار لکھوں گااور اُس تحریر میں اپنے حساس اِداروں کا عمل دخل اور داخلہ و خارجہ پالیسی کے بہتر نہ ہو سکنے کی وجوہات بھی اپنے قارئین کرام کے سامنے واضع کروں گا۔!

لیکن اِس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ خٹک جی نے اپنے خط میں رنگ نسل اورذات پات وغیرہ کی تفریق کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ محبت اخوت اور آپس کے بھائی چارے کے فروغ دینے کی بات کیوں نہیں نہیں میرے خیال میں شاید اِس لئے نہیں کی کہ جِس علاقے کے وہ وزیر اعلیٰ ہیں اُس پورے کے پورے علاقے کے باسی رنگ نسل اور ذات پات کی تفریق کا شکار ہونے کے سبب وہاں کے جاگیر داروں اور وڈیروں کی غلامی میں گُزر بسر کر رہے ہیں اوروہاں کا قانون اُن کے ڈیروں کی لونڈی بن چُکا ہے جِس علاقے کے کِسی محنت کش کو اپنے سے کِسی دوسرے گاؤں جانے یا کِسی دوسرے گاؤں کے کِسی فرد سے ہاتھ مِلانے کی بھی اِجازت نہ ہو وہ کیسے آزادانہ ووٹ ڈال سکے گا ،کیسے اپنی مرضی کا نمائندہ منتخب کر سکے گا ؟اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیس چوری کا ہو ،لڑکی بھاگنے کا ،یاقتل کافیصلے وجِرگے کرتے ہیں جہاں فیصلے جرگے کریں وہاں قانون دانوں کی کیا اوقات ہوگی اور کون وہاں سے اِنصاف کی توقع کر سکتاہے ؟میرے علم کے مطابق کِسی بے گناہ کی جان لینا وہاں کُتا مارنے کے برابر ہے اگر وہاں کوئی کشمیری ،سندھی ،بلوچی ،یا پنجابی چلا جائے تو اُسے ایسے دیکھا جاتا ہے جیسے حاجیوں کی بستی میں سور دیکھاجائے اِن حالات میں قانون کی بادستی وہاں کیسے قائم ہوسکتی ایک غریب کو وہاں کیسے اِنصاف مِل سکتا ہے اور اِن حالات میں خٹک جی کو صحیح جمہوری بنیادوں پر منتخب وزیرِ اعلیٰ کون کہے گا شاید اِنہیں خوبیوں کا سب سے زیادہ حامل ہونے کے سبب اُنہوں نے دوسرے علاقو ں کے باسی ملازمین کو وہاں سے نکالنے اور میرٹ کی بجائے ذاتی مرضی کے نتائج و مقاصد حاصل کرنے کے لئے اُن کو اُن کے ابائی علاقہ جات میں تعینات کرنے کی فرمائش کی ہے اگر میاں صاحب اُن کی اِس فرمائش پر عمل کرتے ہیں تو وہاں کے وڈیروں اور قانون شِکنوں کے ہاتھ اِتنے مظبوط ہوجائیں گے کہ کِسی دوسرے علاقے کے باسی کا وہا ں جانا مکمل طور پر ہی ممنوع ہو جائے گا پھر اگر اِس میں وفاق نے مداخلت کی تو اِس صوبہ کو ایک الگ ریاست بنانے کی تحریک چل نکلے گی اور خٹک جی کے وزیر اعظم کو اِس تجویز دینے کے پیچھے غیر مُلکی ایجنسیز کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے تاکہ اِس تجویز پر عمل ہونے کے بعد روس کی طرح پاکِستان کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کئے جا سکیں لہذااِن تقرر و تبادلوں کی بجائے جو صحیح کام نہیں کر رہا اُسے بر طرف اور اُس کی جگہ پاک آرمی سے تعلیم یافتہ اور سُلجھے ہوئے ایسے لوگو ں کا اِنتخاب کر کے جِن کے ذہنوں میں ذات پات کی تفریق اور سفارش کا خیال تک بھی کبھی نہ آیا ہو ، متعلقہ کام کی ٹرینگ دینے کے بعد اُنہیں وہاں لگایا جائے اور اِسکے ساتھ ساتھ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہوئے ہمیں ملکی سلامتی و اپنے دین کی بقاء کیلئے ہم میں پائی جانے والی رنگ نسل ،ذات پات،سُنی ،بریلوی ،دیوبند ،اہلحدیث ،سندھی ،پنجابی، پٹھان ،بلوچی اور سُرائکی وغیرہ کی تفریق کو ختم کرکے محبت اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں میڈیا اور علماء دین کی خدمات بھی اِس میں بہت زبر دست نتائج دے سکتی ہیں کیونکہ وطن عزیز ہے تو ہم اور ہمارا مذہب قائم ہے ورنہ کشمیر فلسطین اور چیچنیاوغیرہ کے باسی مُسلمانوں کے حالات میرے اور آپ سب کے سامنے ہی ہیں مضمون کافی لمبا ہوگیا خیرمُجھ سے آپ شام 6سے 8 کے درمیان میرے موبائل نمبر 03143663818پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں آج کیلئے اِتنا ہی اِس موضوع پہ مذید اگلے کالم میں تب کیلئے اپنا اور اپنے ملک قوم کا بہت بہت خیال رکھئے گا (فی ایمان ِﷲ) ۔

Muhammad Amjad Khan
About the Author: Muhammad Amjad Khan Read More Articles by Muhammad Amjad Khan: 61 Articles with 38561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.