کڑوا سچ

آج کے دور میں عورت یا لڑکیاں جو بحی آپ کہنا چاہیں بہت آگے نکل گئی ہیں اور نکل رہی ہیں ترقی کرتے کرتے سیاروں تک پہ کمند ڈالنا چاہتی ہیں جیسے حالات جا رہے ہیں ڈال بھی لیں گی۔ آج کی عورت کو آپ روک نہیں سکتے ٹوک نہیں سکتے ورنہ آپ کو حقوق نسواں کی تنظیمیں ایسا ٹوکیں گی کہ دوبارہ روکنے کی ہمت نہیں رہے گی۔ آج کی عورت صبح سے لے کر شام تک زندگی تمام کرنے تک پل پل محنت کر رہی ہے اور آدمیوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہے اور اگر عورت کا شانہ کسی آدمی سے ٹکرا جا ئے تو کیا برا ہے اس میں آخر ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے اگر لین دین میں ہاتھ سے ہاتھ صنف نازک اور صنف کرخت کا ٹکرا جاتا ہے تو کیا ہوا۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو محسوس نہیں کرنا چاہئیے دل پہ نہیں لینا چاہیئے اگر آفس میں، سکول میں، یونیورسٹی میں کوئی بھی ادارہ ہے عورت ہو یا لڑکی اس کو میل سٹاف کھا جانے والی نظروں سے دیکھے اور بلا تخصیص دو پٹے اور بغیر دوپٹے کی لڑکی کو ایک ہی نظر سے دیکھا جائے کبھی کبھار کو ئی فقرہ کس دیا چھیڑ چھاڑ کر دی پورے سٹاف نے مل کر بیوقوف بنایا باس نے باس ہونے کی وجہ سے سب سے ذیادہ تگنی کا ناچ نچایا ۔ آج کی آزاد عورت سے ساتھ یہ سلوک اسی لئے اسمبلی میں باقاعدہ قانون بنائے گئے ارکان خواتین کی انتھک محنت اور چیخ و پکار کے بعد آخر کو عورت کو تھفظ دینا انکی ذمہ داری ہے۔

ٹھیک قوانین بنا دئیے گئے ہیں اب چٹکی بجاتے ہی عورت خود مختا ر ہوگئی کیونکہ قانون نے تو اتنی آزادی دے دی ہے کہ عورت جا کر کورٹ میں شکایت کر سکتی ہے حتی کہ کوئی گھور کر دیکھ لے کوئی تعریف کر جائے کوئی ہاتھ لگا جائے فورا جا کر شکایت کریں ۔ اب معاشرے میں فوراً سے بیشتر عورت محفوظ و مامون ہو گئی ہے اب عورت کو کوئی خطرہ نہیں رہا۔ عورت کو گھر سے نکلنے سے لے کر اپنی ورک پلیس تک پہنچنے تک بس میں سوار ہونے سے لے کر سٹاپ پر انتظار کرنے تک نہ کوئی بری نظر دیکھتی ہے نہ کوئی فقرہ کسنے کی جرات کرتا ہے آخر کو ہاتھ لگا جانا تو بہت دور کی بات ہے۔

دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں میں نہیں کہ رہی بزرگ کہہ گئے ہیں کسی عورت کو معاشی بوجھ کی وجہ سے اور کسی عورت کو شوق کی وجہ سے جب گحر سے نکلنا پڑتا ہے تب اسے اندازہ ہوتا ہے کہ عورت اس معاشرے میں کتنی آزاد ہے اور کتنی خود مختار ہے اور کتنی لاچار ہے۔ آپ چادر لے کر نکلیں یا بغیر چادر کے ایک عورت کے گحر سے نکلتے ہی ایک ایسی جگہ پہنچتے ہی جہاں باس ایک مرد ہے اکثریتی کولیگ مرد ہیں اس عورت کو اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اس کی حیثیت مال مفت دل بے رحم کی سی ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سی لڑکیاں خود اپنے آپ کو مفت کا مال بنا کر پیش کرتی ہیں۔ جو نہیں کرنا چاہتیں ان کو لائن پر لانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے یا چھوٹے چھوٹے کام اسس طرح کے ضرور کئے جاتے ہیں جو کہ ٹارگٹ کو اچیو کرنا آسان بنا دیں۔

اس قسم کی صورتحال صرف ورک پلیسز پر ہی نہیں یونیورسٹیز تک میں بھی ہے اور سب سے دل دکھانے یا دل کو جلانے والی بات یہ ہے کہ کسی بھی خاتون یا لڑکی کو ہراساں کہیں پہ بھی کیا جا رہا ہو سب آس پاس جا نتے بھی ہیں کہ یہ مظلوم مخلوق کس حد تک راضی برضا ہے اور کس حد تک نہیں۔ اب جو راضی نہیں اس کو بھی بہرحال ظالم کا آلہ کار بننا پڑے گا اور سہنا پڑے گا ۔ دس لوگ تماشا ضرور دیکھ لیں گے مگر آگے کوئی نہیں آئے گا پھر سب عورت کو بد کردار کہیں گے بھی اور ایسی نظروں سے دیکھیں گے بھی۔

آج لڑکیوں نے کیا عورتوں نے بھی اپنی ذات میں سے وہ اقدار وہ وصف نکال دیا ہے جس کو عورت کا گہنا کہا گیا ہے اب کچھ نے ضرورت و مجبوری میں کچھ نے شوخی و شرارت میں خود کو اس مخلوق کے سامنے بخوشی پیش کرنا شروع کردیا ہے کہ اب ہر آدمی ہر عورت جب بھی جہاں بھی جس حد تک بھی موقع ملے ایک دوسرے کا فائدہ اٹھانے میں ضرور مگن ہیں ۔ پھر ہمیں یہ شکایت نہیں کرنی چاہئے کہ آخر دعا ئیں کیوں نہیں قبول کی جاتیں۔۔۔

sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 274804 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More