مجارستان (ھنگری) میں گل بابا کا مزار

جمشید خٹک

بڈاپسٹ (ھنگری) کے عین وسط میں مرکزی بازار میں سے گزررہاتھا۔تو سامنے ایک نہایت ہی خستہ حالت میں ایک بورڈ نظر آیا۔جس پر یہ الفاظ کندہ تھے ۔ ’’ گل بابا کا مزار ‘‘ " Tomb of Gul Baba " مجھے بڑا تجسس ہوا۔ کہ مجارستان (ہنگری) مرکزی بازار میں واقع یہ مزار ضرور مسلمان اکابرین میں کسی مذہبی راہ نما کا ہے ۔جس کو شہر کے وسط میں دفن کرکے مزار بنایا گیا ہے ۔میں نے تحقیق شروع کی ۔ جس جگہ گل بابا کا مقبرہ بنایا گیا ہے ۔اس گلی کا نام بھی مسجدگلی ہے ۔

گل بابا ایک درویش شاعرتھا۔ایک روایت کے مطابق گل بابا کا انتقال 1541 عیسوی میں ہوا ۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے ۔کہ شاید گل بابا 21 اگست 1541 کو بڈاپسٹ (ہنگری ) کی لڑائی میں شہید ہوا۔میں نے تحقیق شروع کی ۔لائبریریوں کو تلاش کرنا شروع کیا ۔آخر میں عثمانیہ سلطنت کے دور کے دوران فتوحات پر نظر دوڑائی۔ تو تاریخ کے اوراق پلٹنے سے آشکارا ہوا ۔ کہ سلطنت عثمانیہ کی حکومت مجارستا ن کے کئی علاقوں تک 1541 عیسوی سے لیکر 1699 عیسوی تک تقریباً 150 سال پر محیط رہی ۔ مجارستان میں ترکوں کی ثقافت ، اثرورسوخ اور مخالفت کی کئی داستانیں تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں ۔ایک طرف اگر گل بابا جیسے صوفی شعراء کی یادیں مجارستان کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ دوسری طرف غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف مجار قوم کے جذبات اب بھی پائے جاتے ہیں ۔

گل بابا کا مقبرہ سلطنت عثمانیہ کے دوران 1543 اور 1548 عیسوی کے عرصے میں بنایاگیا تھا۔ اُس وقت بڈھا کے حکمران پاشا سوم کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔یہ مقبرہ 1686 عیسوی تک صحیح سلامت رہا۔ 1686 میں بڈھا کے دوسری جنگ کے بعد اس کو کیتولک چرچ میں تبدیل کیا گیا ۔جس کا نام ’’ سینٹ جوزوف چیپل ‘‘ رکھ دیا گیا۔بعد میں یہ جانس ویگنر کے قبضے میں چلا گیا ۔ جس نے اس کی پرانی حیثیت بحال کی ۔اور مسلمانوں کو زیارت کی اجازت دے دی گئی ۔

1885 میں سلطنت عثمانیہ نے ایک کمیشن تشکیل کی ۔تا کہ مقبرے کی بحالی کرے۔1914 میں یہ مرمت تزئین آرائش مکمل ہوا۔گل بابا کے مقبرے کو قومی ورثہ قرار دیاگیا۔ 1960 میں بھی مقبرے کی مرمت کی گئی ۔ 1990 میں اس کو حکومت ترکی کی ملکیت قرار دی گئی ۔

سلطنت عثمانیہ نے سولہویں صدی میں مشرقی یورپ بشمول مجارستان (ھنگری) میں قدم جمانے شروع کئے ۔1521 عیسوی میں نے ترک فوج بلغراد میں داخل ہوگئی۔اور آہستہ آہستہ 1526 میں ھنگری پر قبضہ کر لیا گیا۔ھنگری ترکوں کی حکومت کے دوران بھی مجار قوم کی جانب سے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر یورشیں ہوتی رہیں ۔ 1683 عیسوی میں کارا مصطفی پاشا کو پولینڈ اور سلطنت روم کی مشترکہ فوجوں نے ترکی فوجوں کو شکست دے دی ۔اس 150 سال کے قبضے کے دوران سلطنت عثمانیہ کی حکومت نے ھنگری میں گہرے نقش چھوڑے ہیں ۔سلطنت عثمانیہ نے ھنگری میں استنبول (قسطنطنیہ ) کے طرز پر عمارات کی تعمیر کی تھی ۔جو آج بھی عثمانیہ سلطنت کی عظمت رفتہ کی یادگار کی شکل میں پل، گرم پانی کے حمام نظر آتے ہیں ۔ترکی ثقافت زندگی کے ہر شعبے میں پھیل گئی تھی ۔سترہویں صدی میں 165 مکتب اور 77 مدرسے ھنگری کے 39 قصبوں میں قائم کئے گئے تھے ۔مساجد میں باقاعدہ طور پر نماز کے ساتھ ساتھ دینی علوم سکھانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔اسلامی طرز زندگی کو اپنا تے ہوئے ھنگری میں مذہبی رواداری کی پاس داری کی گئی ۔عیسائی مذہب کے ماننے والوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی تھی ۔ان علاقوں میں اسلام کو بہ زور شمشیر نہیں پھیلا یاگیا ۔ اس عرصے میں تقریباً 80000 مجار اسلام قبول کر چکے تھے ۔اسلام میں داخل ہونے والے مسلمان اکثریت میں سنی مسلک سے اور درویش تھے ۔

تاریخ کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے ۔کہ گل بابا بھی ایک بکتاش درویش تھے ۔ترکی کے شکست کے بعد اس خطے میں آہستہ آہستہ اسلام کی جڑیں کمزور پڑھ گئیں۔ 2011 میں ہنگری میں مساجد اور گرجا گھروں کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک نئے قانون کا نفاذ کیا گیا۔جس میں صرف 14 مذہبی گروہوں کو تسلیم کیا گیا۔جس میں اسلام شامل نہیں تھا ۔اور مسلمانوں کے نئے قانون کے مطابق سرکاری قبولیت کی قانونی اجازت حاصل کرنا ہوگی۔2012 میں ھنگری کی پارلیمنٹ نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ھنگری اسلامک کونسل کو باقاعدہ طور پر ملک کے تسلیم شدہ مذاہب کے فہرست میں شامل کیا ۔

2001 کے اعداد و شمار کے مطابق ھنگری میں 3201 مسلمان رہ رہے ہیں۔2004 میں ہنگری اسلام سوسائٹی کے رہنما سلطان بولک نے مسلمانوں کی تعداد تقریبا 20,000 بتائی ہے ۔

مشرقی یورپ میں مسلمانوں کی آمدسے قبل 718 عیسوی سے 1031 عیسوی تک مسلمان شمالی یورپ میں حکمرانی کرتے رہے ۔تین سوسال کا یہ عرصہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے ۔جب یورپ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔شمالی یورپ میں علم کی شمع روشن کئے رکھا۔مسلمانوں کی تاریخ کے یہ سنہرے اوراق کتابوں میں تو لکھے پائے جاتے ہیں۔لیکن اُس علم کے خزانوں نے تو یورپ میں اُجالا کیا ۔لیکن جہاں سے یہ سلسلہ چل نکلا تھا۔وہ اندھیر ے میں ڈوب گئی ۔مسلمانوں کی علم کی جلائی ہوئی شمعیں سے یورپ کی علمی فضا منور ہوئی ۔ اور مسلمان نقش پا دیکھتے رہے ۔تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اب یورپ میں مسلمانوں کو جاہل قرار دیا جارہا ہے ۔

ماضی کو دیکھتے ہوئے نشاۃ ثانیہ کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے ۔لیکن حال کو دیکھکر مایوسی پیدا ہوتی ہے ۔تابناک مستقبل کا خواب چکنا چور ہو کر رہ جاتا ہے ۔یورپ میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے کھنڈرات دیکھ کر دل ہوتا ہے ۔

Afrasiab Khan
About the Author: Afrasiab Khan Read More Articles by Afrasiab Khan: 24 Articles with 22862 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.