بھیک نہیں حق کا سوال ہے

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے لیکن نہ جانے کتنی صدیوں سے مومن مذکورہ بالا فراست سے محروم ہوگیا ہے کیونکہ آج کا مومن ان مومنانہ صفات سے محروم ہے جن کی وجہ سے کوئی فرد مومن کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ آج مومن تارک قرآن ہے۔ اس کی اذان میں روح بلالی نہیں ہے نہ ہی اس میں وہ حجازی اوصاف ہیں جن کی وجہ سے حجازی کبھی فاتح عالم کہلاتے تھے۔

آج جبکہ ملک کی 29 ویں ریاست عالم وجود میں آنے والی ہے یعنی ’’تلنگانہ‘‘ تلنگانہ میں مسلمانوں کے حقوق تحفظات اور مراعات کی کوئی فکر مختلف جماعتوں اور مکتب فکر کے مسلمانوں کو نہیں ہے۔ ماضی اور حال میں ہم نے فراست کو خیر باد کہہ کر بڑے نقصانات اٹھائے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جلد از جلد تلنگانہ کے ہونے والے حاکموں سے مسلمانوں کے لئے تحفظات حقوق اور مراعات کے سلسلہ میں باضابطہ مذاکرات کرلیں اور ماضی میں ہم نے تیقنات حاصل نہیں کرکے بڑی غلطی کی تھی۔ آج تک نقصان اٹھارہے ہیں۔ ہم تاریخ میں دور تک نہیں جانا چاہتے ہیں بس (73-74)سال قبل کی بات ہے کہ مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا اور اسے حاصل بھی کیا لیکن نظریہ پاکستان میں لفاظی تو بہت ہے لیکن پاکستان کے قیام کے بعد پیش آنے والے مسائل کے بارے میں غور نہیں کیا گیا آزادی کے بعد پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کے تعلق سے غور وخوض کیا جاتا تو پاکستان کے حالات زیادہ بہتر ہوتے۔ کانگریسی مسلمانوں نے پاکستان کی شدت سے مخالفت کی لیکن اس بات پر غور ہی نہیں کیا گیا کہ پاکستان بنے نہ بنے متحدہ یا منقسمہ ہندوستان میں مسلمانوں کا کیا موقف ہوگا؟ بہ حیثیت اقلیت ان کے حقوق اور مراعات کیا ہوں گی؟ اس کی وجہ یہ تھی انتہاء پسند بلکہ نظریہ ’’ہندوتوا‘‘ کے علم برداروں نے نظریہ قوم پرستی کو کچھ ایسا بنالیا تھا کہ دو قومی نظریہ کو شجر ممنوعہ بنالیا گیا۔ مسلمانوں کی علاحدگی شناخت مشترکہ قومیت میں کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھلا یہ کوئی بات تھی کہ ہندواور مسلمان ایک قوم ہیں تو مسلمانوں کے لئے کچھ الگ سے سوچنا، مانگنا یا تحفظات اور مراعات کا سوال کرنا مشترکہ قومیت کی توہین ہے۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ بڑے بڑے مسلم زعماء اور اکابرین مشترکہ قوم پرستی کے پھونکے ہوئے سحر کا شکار ہوئے دو قومی نظریہ کو گالی بناکر رکھ دیا گیا تھا۔ آج بھی دو قومی نظریہ کی حمایت تو دور کی بات ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی لوگ احتیاط کرتے ہیں لیکن آزادی کے بعد ہندوستان میں نہرو اور آزادکی زندگی میں ہندوستان میں مشترم قومیت کا نظریہ تو خدا جانے کہاں گم ہوگیا اور مسلم دشمنی کے لئے دو قومی نظریہ پر زور شور سے عمل درآمد ہوا۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ سچر کمیٹی نے چند سال قبل مسلمانوں کو ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ گروہ یا قوم قرار دیا تھا اور چند روز قبل سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں روزآنہ خرچ کے اعتبار سے مسلمان سب سے زیادہ افلاس زدہ ہیں۔ یہ نتیجہ ہے نام نہاد قوم پرست اور دور اندیشی سے عاری مسلم قیادت کی ہمالیاتی غلطیوں کا ان قائدین میں سب سے بلند مرتبت قائد مولانا ابوالکلام آزادی بھی شامل ہیں جن کا یہ خیال تھا کہ مشترکہ قومیت کی چھتر چھایہ میں مسلمان محفوظ و مامون ہیں۔ حد تو یہ ہے تبدیلی مذہب کے تعلق سے 1950کے انتہائی متنازع صدارتی حکم نامے پر جو دستور کی روح یعنی دفعات 16' 15' 14 اور 25کے مغائر ہے ( یہ دفعات مذہبی آزادی سے متعلق بنیادی حقوق پر مبنی ہے) کانگریسی مسلمانوں (خواہ وہ ایوان کے رکن ہوں یا نہ ہوں) نے مسلمانوں کے مسائل سے کبھی دلچسپی نہیں لی مسلم لیگ، مجلس اتحادالمسلمین اور مولانا اسحاق سنبھلی یا چند غیر مسلم کمیونسٹ قائدین مثلاً ہیرن مکرجی یا اجے گھوش وغیرہ کے علاوہ رام منوہر لوہیا، اچاریہ کرپلانی اور راج نارائن جیسے قائدین نے خاموشی کو بہتر سمجھا۔

تلنگانہ میں مسلمان بھی مناسب تعداد میں ہیں اردو زبان اور اردو تہذیب کا خاصہ چلن ہے لیکن علاقہ تلنگانہ میں ہی اردوزبان و تہذیب کو آندھرائی حکمرانوں خاص طور پر این ٹی راما راؤ، چندرا بابو نائیڈو اور وائی راج شیکھر ریڈی وغیرہ نے خاصہ نقصان پہنچایا اب علاحدہ تلنگانہ میں ہمیں ان نقصانات کا نہ صرف ازالہ کرنے بلکہ مسلم مفادات، اردو زبان وارد و تہذیب کا مستقبل محفوظ اور مستحکم بنانے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کا یہی وقت ہے۔ مرکزی حکومت نئی ریاست کے لئے کچھ رہنما اصول ترتیب دے رہی ہے۔ شہر حیدرآباد میں بہ سلسلہ کاروبار، ملازمت، تعلیم مقیم آندھراسیما کے باشندوں کے حقوق وغیرہ کو تحفظ دیاجانا ضروری ہے۔ علاحدہ تلنگانہ تحریک کے قائدین نے بھی مسلمان سے بڑے خوش نما وعدے کئے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ریاستی اسمبلی میں علاوہ مجلس اتحادالمسلمین کے سات مسلمان ارکان کے دوسری جماعتوں میں مسلمان نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ریاستی کونسل میں بھی چند ہی مسلم ارکان ہیں جن میں دو مجلس کے ہیں اور یہی وقت ہے کہ تمام مسلم ارکان اور دیگر مسلمان قائدین کو جماعتی وفاداریوں سے بالا تر ہوکر متحد ہوکر مسلمانوں کے لئے تحفظات ، حقوق و مراعات اور اردو کے لئے تیقنات حاصل کرنا چاہئے۔امید تو یہی ہے کہ عام انتخابات سے قبل تلنگانہ قائم ہوجائے گا اور انتخابات کے پیش نظر کسی کے بھی لئے مسلمانوں کے مطالبات نظر انداز کرنا آسان نہ ہوگا۔ تلنگانہ میں مسلم ووٹس کی خاصی اہمیت ہے۔ ان کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بات بیان بازی تک محدود نہ رہے۔ آندھراپردیش یا تلنگانہ میں تمام مسلم جماعتوں میں مجلس اتحادالمسلمین کی اہمیت بہر حال مسلمہ ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو مجلس (ایم آئی ایم) بھی نظر انداز نہیں کرسکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں جماعت اسلامی کی ’’انگشت ششم‘‘ ، ’’ویلفیر پارٹی‘‘ نے مصر میں فرعون وقت کے مظالم پر احتجاج کے لئے مسلم جماعتوں کا جلسہ منعقد کیا لیکن اس جلسے میں ایم آئی ایم کی عدم موجودگی سے جلسہ وہ اہمیت حاصل نہ کرسکا جس کی ضرورت تھی۔ اب پتہ نہیں کہ ویلفیر پارٹی نے ایم آئی ایم کو مدعو نہیں کیا تھا یا ایم آئی ایم نے دعوت قبول نہیں کی جو بھی صورت حال رہی ہو وہ افسوسناک ہے۔ ویسے باور کیا جاتا ہے کہ ویلفیر پارٹی پتہ نہیں کن اور کیسی خوش فہمیوں میں مبتلا ہے اور کیوں ہے؟ تلنگانہ میں مسلمانوں کو کچھ حاصل کرنا ہے تو ان کو متحد ہونا ہوگا خاص طور پر کانگریس اور ایم آئی ایم کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا تو دوسری طرف دیگر مسلم جماعتوں کو یہ بھلاکر کہ ’’ہم بھی کچھ ہیں‘‘ کانگریس کے مسلمانوں اور ایم آئی کی قوت بڑھائی ہوگی خاص طور پر تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے مسلم قائدین کو بھی مشترکہ مقاصد کے لئے سب سے اتحاد کرنا ہوگا۔ وائی ایس آر کانگریس اور تلگودیشم کے وہ مسلم قائدین جو سیما آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں وہ متحدہ ریاست کے لئے متحد ہیں۔ انتشار کا شکار تو تلنگانہ کی مسلم قیادت ہے جس کو متحد ہونے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ تلگودیشم کے تلنگانہ کے مسلم تذبذب کا شکار ہوکر کیا فیصلہ کریں؟ ایم آئی ایم کو اب علاحدہ تلنگانہ کی بے جواز مخالفت کی غلطی کا ازالہ کرنا ہوگا۔ ایم آئی ایم کو بی جے پی کا ڈر بتانے کی جگہ تلنگانہ میں مسلم مفادات کی حفاظت کرنی ہوگی۔ تلنگانہ کی حکومت قائم ہونے سے پہلے برسراقتدار آنے والی حکومت کو پتہ ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کی بھلائی اور ان کی پسماندگی دورکرنے کے لئے اس کو کیا کرنا ہے؟ اور کب کرنا ہے؟ تلنگانہ کو اردو کی دوسری سرکاری زبان نہیں بلکہ تلگوکے ساتھ تلنگانہ کے تمام اضلاع میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ حیدرآباد کو اردو تعلیم کا پھر ایک مرتبہ مرکز بنانا کچھ زیادہ مشکل نہ ہوگا۔ مسلمانوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں تحفظات کا ہے راج شیکھر ریڈی نے جس طرح %4 تحفظات کو تماشہ بناکر رکھ دیا ہے اس سلسلے میں آندھراپردیش کی حکومت نے ساری کارروائی غیر محتاط بلکہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں کی اور مخالف مسلم عناصر کو اس کی قانونی حیثیت کو عدالتوں میں چیالنج کرنے کا موقع فراہم کیا۔ ان غلطیوں کا ازالہ تلنگانہ میں نہیں ہونا چاہئے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ کسی بھی جماعت کے انتخابی وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اکثر یہ وعدے پورے نہیں کئے جاتے ہیں اور وعدوں کو پورا نہ کرنے کی سزا ووٹر اگلے انتخابات میں دے سکتا ہے لیکن ووٹر بہت کچھ بھلادیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اسی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔

تلنگانہ میں پہلی حکومت کانگریس ہی کی ہوگی۔ تلنگانہ کی (119) رکنی اسمبلی میں کانگریس کو ہی اکثریت حاصل ہوسکتی ہے لیکن 2014ء کے انتخابات میں کیا صورت ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔ فی الحال 119رکنی اسمبلی اکثریت کے لئے درکار60 ارکان کانگریس کے پاس نہیں ہیں۔ کانگریس کے ارکان کی تعداد 52 ہے۔ اکثریت کے لئے مزید 8 ارکان کی ضرورت ہے۔ اس لئے مجلس اتحادالملسمین کے 7 ارکان کی بڑی اہمیت ہے اور توقع یہی ہے کہ مجلس کی تائید کانگریس کو حاصل ہوگی کیونکہ مجلس کو دراصل کانگریس سے نہیں بلکہ آندھراپردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ کرن کمارریڈی سے اختلاف ہے جنہوں نے چارمینار سے متصل بھاگیہ لکشمی مندر کی توسیع کے سلسلے میں بدترین فرقہ واریت دکھائی اور مجلس نے جب ان کی حکومت کی تائید ختم کردی تو ریڈی صاحب نے مجلس اور مجلسی قیادت کو بدترین انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ ظاہر ہے تلنگانہ میں کرن کماریڈی نہیں ہوں گے اس لئے مجلس کو کانگریس کی تائید کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اس لئے مجلس کو تدبر اور فراست کا مظاہرہ کرکے کم از کم اب تلنگانہ کی تائید کرکے کانگریس اور ٹی آر ایس سے اپنی تائید کی قیمت مسلمانوں کے جائز حقوق، تحفظات اور مراعات کو ناقابل چیالنج قانونی شکل دئے جانے کو یقینی بنانا ہوگا یہ نہ ہوکہ مسلم لیگ کی طرح مرکز سے ایک وزارت (وہ بھی کابینی درجہ کی نہیں) لے کر مسلم لیگ بھول گئی ہے کہ ’’وہ مسلم لیگ ہے‘‘ اس کا مقصد وزاتوں کا حصول ہی نہیں ہے۔

آندھرا میں اس وقت متحدہ ریاست کی برقراری کے لئے آندھرا اوررائل سیما کے سرمایہ داروں کی سرپرستی میں تحریک چل رہی ہے۔ اس کی اہمیت تو جب ہوتی کہ متحدہ ریاست کی برقراری کے لئے تلنگانہ کے علاقہ میں بھی تحریک کا وجود ہوتا جب تلنگانہ کا سارا علاقہ اور عوام علاحدگی چاہتے ہیں تو سیما آندھرا کے عوام کو کیا حق ہے کہ وہ تلنگانہ کی علاحدگی کی مخالفت کریں۔ متحدہ آندھرا میں ہی ریاست کی ترقی ممکن ہونے کا نعرہ یادعویٰ کھوکھلا ہے کسی علاقہ کو زبردستی اس علاقہ کے عوام کی تمناؤں کے خلاف زبردستی ساتھ رکھنا از خود ناجائز ہی نہیں بلکہ استحصال ہے مطلب یہ ہے کہ ہم کو علاحدگی کے طلب گار علاقہ میں لوٹ مار جاری رکھنے دو۔ مجلس اتحادالمسلمین کے لئے وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ بلاتاخیر متحدہ ریاست کی برقراری پر اصرار اورعلاحدہ تلنگانہ کی مخالفت ترک کرکے علاحدہ تلنگانہ میں مسلم مفادات کی حفاظت کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ یہ نہ ہو کہ نئی حکومت سے مطالبات کئے جائیں بلکہ آنے والی حکومت سے وعدوں اور تیقنات پر عمل درآمد کروانے پر زور ڈالا جائے اور نرم ہندوتوا کے قائل کانگریسیوں (جو تلنگانہ میں کافی تعداد میں ہیں ) کی ریشہ دوانیوں کے تدارک کے انتظامات بھی ایم آئی ایم ہی کرسکتی ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 168375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.