بھارت کے انتخابی نتائج اور ذات پات پر بننے والی حکومت کا مستقبل

بھارت کی پندرہویں لوک سبھا کے انتخابات بڑے حیرت انگیز ثابت ہوئے۔ سیاسی اور انتخابی منظر نامے پر ہر روز ایک نیا منظر دیکھنے کو ملا صبح سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہوتا اور شام ہوتے ہوتے ٹوٹ بھی جاتا۔ اس سے قبل ہندوستان کی سیاست میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کی ذاتی سہولیات اور ضروریات کے مطابق محاذ بنتے اوربگڑتے رہے۔ پہلے افکار اور عوام کی مرضی ان محرکات پر لگام ہواکرتی تھی۔ بیشک انتخابی نتائج مستحکم حکومت بنانے میں موافق بنے ہیں، لیکنیہ بھی ثابت ہوا ہے کہ بھارت میں بغیر سرمایہ کے انتخاب نہیں لڑا جا سکتا۔پہلے عوامی مسائل کو لے کر شب وروز ان کے حل کے متلاشی اور جھولا چھاپ قسم کے رہنما بھی بغیر سرمایہ کے الیکشن لڑ کر جیت پاتے تھے، مگر اب کی بار ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے کثیر سرمائے کے ذریعے انتخاب جیتنے کے بعد فاتح میں جوش وخروش کا ہونا لازمی ہے یہی وجہ ہے کہ کانگریس میں بھاری جوش وخروش ہے اور بالخصوص نوجوان نیتا راہل گاندھی کو لے کر۔ یہ وہی کانگریس ہے جو کبھی400 سے زیادہ نشستیں حاصل کرتی تھی۔ آج وہ نصف نشستوں پر بھی بہت خوش ہے۔

بھارتی لوک سبھا کے انتخابات کے بعد مختلف قسم کی آراء سامنے آئی ہیں۔ بھارت سمیت دیگر ممالک کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی شکست ہوئی ہے مگر بعض کا کہنا ہے کہ ملکی استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کےلئے عوام نے ایک بار پھر مقتدر پارٹی کو ووٹ دیا ہے کیونکہ بار بار حکومتوں کی تبدیلی ملکی ترقی کی رفتار کو کم کردیتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کا صاف ستھرا امیج اور سنجیدگی ومتانت بھی کانگریس کی فتح کا سبب بنی ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کے مجرمانہ کردار کے خلاف بھی عوام نے ووٹ دے کر سیاست سے جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ سیاسی چھتر چھایہ میں پلنے والے غنڈوں اور بد معاشوں سے انہیں نجات حاصل ہوسکے کیونکہ بھارت میں بڑھتی ہوئی مقامی بدمعاشی بھی بھارتی عوام کا بہت بڑا مسئلہ ہے جس نے بھارت کے ہر عام آدمی کو جان و مال سمیت مستقبل کے خوف سے بھی دوچار کررکھا ہے ۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں ذات پات کے کردار سیاست میں ہمیشہ حاوی رہے ہیں اور جب کبھی اس کا اثر کچھ کم ہوا تو مان لیا گیا کہ اب اس کے دن لد گئے ہیں اورمعاملات اتحاد و ترقی کی بنیاد پر طے ہوں گے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ انتخابات میں جہاں ذات پات اور چھوت چھات کے ذریعے منافرت کو فروغ دینے والی بی جے پی کو شکست ہوئی ہے وہیں اس بار بھی آدھے سے زیادہ افراد ذات پات کی بنیاد پر ہی جیتے ہیں اور لگ بھگ ایک چوتھائی فرقہ واریت کی بنیادپر فتح یاب ہوئے ہیں۔ باقی جیتنے والے ترقی، انفرادی شخصیت اور دیگر وجوہات کی بنا پر منتخب ہوئے ہیں۔ اس لئے بھارتی لوک سبھا کے موجودہ انتخابات کے نتائج بھارت میں کسی بہت بڑی تبدیلی کا کوئی واضح اشارہ نہیں دے رہے بلکہ اس بات کو ثابت کررہے ہیں کہ بھارت آج بھی ذات پات٬ چھوت چھات اور مذہبی منافرت کا بری طرح سے شکار ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں جن اسباب کو کمزور گردانا جا رہا ہے ان کی اہمیت پھر سے بڑھ سکتی ہے۔ اب نئے نئے فرقہ بندی کے محاذ ابھرنے لگے ہیں جیسے انتخابی نتائج کے بعد پارلیمنٹ کے راجپوت ممبروں کا اجلاس!

2007ء کے انتخابات میں ”سروجن “کے نعرے کے تحت بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دے کر فوائد اٹھانے والے برہمن اس بار کانگریس کے ساتھ کھڑے نظر آئے کیونکہ2007 کے اسمبلی الیکشن میں متبادل کے روپ میں کسی برہمن کی قیادت والی کوئی پارٹی نہیں تھی لہٰذا برہمنوں کے ووٹ بہوجن سماج پارٹی کی جھولی میں گرے لیکن لوک سبھا الیکشن میں جیسے ہی متبادل نظرآیا، برہمن بی ایس پی سے دور ہوگئے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت میںذات پات ہی کا راج ہے ۔

انتخابی نتائج کے ان حقائق کے بعد یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بھارت میں نئی بننے والی کانگریسی کابینہ اتنی مستحکم ثابت نہیں ہوگی جتنا کہ اس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کیونکہ اقلیتی ووٹوں کی اکثریت سے وجود میں آنے والی موجودہ بھارتی حکومت اگر اقلیتوں کو نظر انداز کرے گی تو یہ کانگریس کے سیاسی مستقبل کےلئے بہتر نتائج کا حامل نہیں ہوگا اور اگر اقلیتوں کی حالت میں سدھار و بہتری کی جانب پیشرفت کی گئی تو پھر حکومت میں موجود ذات و برادری کے ووٹوں سے ایوان میں پہنچنے والے نمائندے اپنی ذات و برادری کے مفادات کے لئے حکومت کو بلیک میل کریں گے اور کانگریس کے لئے ہر ذات و برادری کے افراد کو یکساں طور پر خوش رکھنا اسلئے بھی ممکن نہیں ہوگا کہ شکست کے زخم چاٹنے والی بی جے پی ذات پات اور مسلک و مذہب کے نام پر آگ لگانے کے فن میں ماہر و مشاق ہے اور اس کی پشت پر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے بھارت میں فسادات اور مشکلات کی آگ لگانے والی خود بھارت کی سرکاری ایجنسی ”را “ بھی موجود ہے ۔ اسلئے کانگریس کےلئے عنان حکومت چلانا اس قدر آسان ثابت نہیں ہوگا جتنا کہ سیاسی تجزیہ نگار ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ بی جے پی مختلف ذات و برادریوں کو اکسااور ورغلاکر ایوان کو انتشار کا شکار اور حکومت کو کمزورکرنے کی کوشش ضرور کرے گی اور چونکہ بھارت موجودہ ترقی یافتہ و جدید دور میں بھی قدیم و فرسودہ رسوم و روایات ‘ مذہبی توہمات اور ذات و برادری کے منافرات کا شکار ہے اسلئے بی جے پی کے لئے کسی بھی قسم کی منافرت کی آگ بھڑکا کر ایوان میں تصادم کی فضا پیدا کرنا کچھ بہت زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوگا جبکہ اسے ”را“ مکمل معاونت و مدد بھی حاصل ہے اور بھارتی میڈیا و مقتدر قوتیں جو ”را “ کی اسیر ہیں بھارتی ایوان میں ہونے والے ہر ذات برادری کے تصادم کو پاکستانی سازش ثابت کرکے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی اپنی روایت جاری رکھیں گی !
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 62497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.