فرقہ وارانہ فسادات،بی جے پی اورکانگریس

باسمہ تعالیٰ

فرقہ وارانہ فسادات آزادہندوستان کی پیشانی پرایک بدنماداغ ہے،جس کی سب سے بڑی وجہ ووٹ بینک کی سیاست ہے۔آزادی سے قبل اس طرح کے فسادات کاتذکرہ بہت کم ملتاہے،ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی شروعات کب ہوئی اس کی کوئی حتمی تاریخ تونہیں ملتی ہے،البتہ مغلیہ دورحکومت کے زوال اورانگریزوں کے ناپاک قدم پڑنے کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ فسادات کے آغازکاپتہ چلتاہے۔دراصل انگریزوں کوہندوستان پرحکومت کرنے کے لیے یہ ضروری تھاکہ وہ ہندوستان کے باشندوں کوآپس میں الجھائے رکھیں،اوراس کے لیے انگریزوں نے ’’تقسیم کرواورحکومت کرو‘‘کی پالیسی اپنائی اور اسی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے تین سوسالوں سے زائدعرصہ تک ہندوستان کے سیاہ وسپیدکے مالک بنے رہے۔انگریزوں کی اس ناپاک پالیسی نے اس ملک کی سالمیت، برسوں سے چلی آرہی بھائی چارگی اورگنگاجمنی تہذیب کوبہت ٹھیس پہونچایا،ان حالات میں جن لوگوں نے انگریزوں کی اس خطرناک پالیسی کے انجام کووقت رہتے پہچان لیاانہوں نے اپنی کوششوں سے اپنے اپنے اثرورسوخ والے علاقوں میں اس طرح کے فرقہ وارانہ ماحول کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کردیا،لیکن کچھ ناعاقبت اندیش اورانجام سے بے خبرمفادپرست لوگوں نے ملک کوفرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے میں مستقل لگے رہے اور انگریز آقاؤں سے بڑی بڑی جاگیر، عہدے اورمناصب بطورانعام حاصل کرتے رہے، جس کے نتیجہ میں گجرات کے احمدآبادمیں۱۷۱۴ء،۱۷۱۵ء،۱۷۱۶ اور۱۷۵۰ء میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔اس کے علاوہ بھی ملک کے مختلف حصوں میں کچھ چھوٹے موٹے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے لیکن یہ زیادہ موثرنہیں تھے کیوں کہ اس وقت کے مجاہدین آزادی جن کی نگاہ بہت دوراپنے مقصدپرتھی ان لوگوں نے اس طرح کے فسادات کے ماحول کو زیادہ بڑھنے نہیں دیا اورلوگوں کوسمجھابجھاکرماحول کومزیدبگڑنے سے بچالیا۔

یہ ایک ظاہرحقیقت ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کاسب سے زیادہ نقصان مسلم فرقہ کوہی اٹھاناپڑاہے،محترمہ بی راجیشوری جنہوں نے ہندستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے اسباب و عوامل پرایک تحقیقی مقالہ لکھاہے جسے آئی پی سی ایس نے شائع کیاہے،محترمہ اپنی اس تحقیق میں لکھتی ہیں کہ :’’فرقہ وارانہ فسادات کی اصل وجہ مذہب نہیں ہے بلکہ دوسیاسی فریقوں کے آپسی مفادات کے ٹکراؤ کانتیجہ ہیں،وقت اورحالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ ان فرقہ وارانہ فسادات کے طریقوں میں بھی واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے،۱۹۶۰ء سے قبل تک دو سیاسی پارٹیوں کے طبقۂ اشرافیہ کے مفادات کے ٹکراؤ کے نتیجہ میں یہ فسادات ہوئے،لیکن ۱۹۶۰ء سے۱۹۹۰ء کے دوران اس نے دوسری ہی شکل اختیارکرلی،علاقائی سیاست اور اقتصادی حالات کاان فرقہ وارانہ فسادات میں بڑااہم کرداررہاہے،اس کے ساتھ ہی ہندتوکے نعرہ نے بھی فرقہ وارانہ ماحول پیداکرنے میں بڑااہم کرداراداکیاہے۔محترمہ بی راجیشوری مزیدلکھتی ہیں کہ:’’۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء کے دوران ہونے والے فسادات ایک منصوبہ بندسازش کے تحت انجام دیے گئے ،اس کے لیے ان شہری علاقوں کاانتخاب کیا گیا جہاں ایک خاص فرقہ کے لوگ اقتصادی طورپرمضبوط تھے،اوران علاقوں کی شناخت مسلم اکثریت صنعتی علاقوں کے طورپرتھی،اوران کے سیاسی اوراقتصادی مفادات کہیں نہ کہیں ہندتوکے علمبرداروں سے ٹکرارہے تھے،اوران فسادات کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ یہ سب کانگریس کے زیرحکومت علاقوں میں ہوئے،اسی طرح ۱۹۹۰ء کے بعدہونے والے فرقہ وارانہ فسادات پرروشنی ڈالتے ہوئے محترمہ بی راجیشوری مزیدلکھتی ہیں کہ :’’۱۹۹۰ء کے بعدہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کوہندستان کے سیاسی منظرنامہ کی تبدیلی کی صورت میں دیکھاجاناچاہیے،کہ جب ایک طرف عوام کانگریس سے دورہورہی تھی اوربی جے پی اوراس کی ہم نواجماعتیں ملک بھرمیں لوگوں کے مذہبی جذبات کوبھڑکاکرسیاسی مفادحاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے ،جس کے نتیجہ میں ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیداہوااورفسادات ہوئے،اسی طرح مندرمسجدکوسیاسی مدعابناکربھی بی جے پی اوراس کی ہم نوا جماعتوں نے ملک کے ماحول کوخراب کرنے میں بھرپورکرداراداکیااوراس کے بعدملک بھرمیں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اسی بدلتے سیاسی منظرنامہ کانتیجہ ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب جب بی جے پی نے اپنے آپ کوپھیلانے کی کوشش کی ہے تب تب ملک کے حالات بگڑے ہیں اورفرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جیساکہ ۹۰ء کی دہائی میں جنوب کی ریاستوں کیرالااورتاملناڈنے ان حالات کامشاہدہ کیاہے۔ان علاقوں میں فرقہ واریت کے پنپنے کی اصل وجہ بی جے پی کااس علاقہ کی سیاست میں داخل ہونا مانا جاتا ہے۔‘‘(ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات۔ازمحترمہ بی راجیشوری)

محترمہ بی راجیشوری کی یہ بات کہ’’جب جب بی جے پی نے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کیے ہیں،فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں‘‘بالکل حقیقت پرمبنی ہے،ہندستان کی سیاسی تاریخ سے واقف ہرشخص یہ بات جانتاہے کہ جب سے بی جے پی نے ملک کی سیاست میں اپنی موجودگی کااحساس دلاناشروع کیاہے ملک کی سالمیت اوربھائی چارگی کاسب سے بڑانقصان ہواہے،اورملک فرقہ پرستی کی آگ میں جلناشروع ہوگیاہے،جیساکہ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں ہوااورابھی مظفرنگرکابدترین فساداس بات کی چشم دیدگواہ ہے،گجرات کے فسادکومودی کی علاقائی سیاست میں تقویت کے طورپردیکھاجاتاہے کہ جب کہ مظفرنگرکافسادمودی کی ملکی سیاست میں سرگرم کرداراداکرنے کے پس منظرمیں دیکھاجارہاہے جیساکہ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں اس کاتذکرہ کیاتھااورسی پی آئی کے سینئرلیڈراے بی بردھن نے بھی کہاہے کہ مظفرنگرفسادکامودی کی تاجپوشی سے گہرا رشتہ ہے۔اسی طرح ایک تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ آزادی سے قبل ۱۹۲۲ء اور۱۹۲۳ء کے درمیان بھی اس طرح کے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے اورٹھیک ان فسادات کے بعدبی جے پی کے جنم داتاآرایس ایس کاجنم ۱۹۲۵ء میں ہوا۔جس سے صاف ظاہرہوتاہے کہ بی جے پی اوراس جیسی فرقہ پرست جماعتوں کایہ شیوہ رہاہے کہ اپنی موجودگی کااحساس دلانے کے لیے انہوں نے ہمیشہ ملک کی سالمیت اوربھائی چارہ کے ماحول کوخراب کرکے فرقہ وارانہ فسادات کاسہارالیااورانسانی لاشوں کوزینہ بناکرسیاست کی بلندیوں کوچھوا۔

بہرحال یہ توایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ ان فرقہ وارانہ فسادات کاتعلق مذہب سے نہیں بلکہ سیاسی مفادات سے ہے،جس میں بی جے پی کاسب سے اہم کردارہے،لیکن ان سب کے باوجودایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے بعدملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی کل معلوم تعدادمیں سب سے زیادہ فسادکانگریس کے زیرحکومت علاقوں میں ہوئے،۱۹۴۷ء سے ۲۰۰۳ء تک کے اعدادوشمارکے مطابق ملک میں۶۲؍بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جن میں۳۳؍فسادات کانگریس زیرحکومت علاقوں میں ہوئے، جیسے۱۹۸۰ء میں مرادآباد،۱۹۸۹ء بھاگلپور،۱۹۸۳ء میں نیلی آسام اور۱۹۷۰ء اور۸۴ء میں بھیونڈی مہاراشٹرکے فسادات اہم ہیں، ان تمام فسادات میں سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان مسلمانوں کاہوا،اوریہ بھی شرمناک حقیقت ہے کہ ان فسادات کے متاثرین کواب تک کوئی انصاف نہیں ملا،اکادکاواقعات کوچھوڑکرمجموعی طورپرفسادمتاثرہ مسلمان اب بھی انصاف کے منتظرہیں،لیکن آج تک کسی حکومت نے ان کے ساتھ انصاف نہیں کیابلکہ انصاف کاوعدہ دلادلاکراپنے ووٹ بینک کومضبوط بناتے رہے اورحکومت کے مزے لیتے رہے۔کانگریس ایک ایسی جماعت ہے جس کے قیام سے لے کرآج تک مسلمانوں نے اپنی وفاداری اس پارٹی کے ساتھ وابستہ رکھی،اورمسلمان اپنی بھرپورحمایت کے ذریعہ اس پارٹی کوحکومت کاموقع دیتے رہے،لیکن بدلہ میں کیاملا،صرف وعدے اورفسادات،بی جے پی سے توہم اس لیے نفرت کرتے ہیں کہ وہ ہماری کھلی ہوئی دشمن ہے،اوراگریہ کہا جائے توبے جانہ ہوگاکہ بی جے پی کسی کی بھی دوست نہیں ہے نہ ہی اسے ملک کے مفادسے کوئی مطلب ہے اورنہ ہی اپنے ہندوبھائیوں کی اسے کوئی پرواہ ہے،اسے صرف اور صرف اقتدارکانشہ ہے جس کے لیے وہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسانی جانوں کے ضائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوتواس سے بھی دریغ نہیں کرے گی جس کامشاہدہ ملک کا ہر انصاف پسندباشندہ کررہاہے،اگربی جے پی ایک مذہبی جماعت ہوتی یااسے اپنے ہندوبھائیوں کے مذہبی جذبات کااحساس ہوتاتواقتدارمیں آنے کے بعدوہ سب سے پہلے اپنے وعدہ کوپوراکرتے ہوئے رام مندرکی تعمیرکرتی جس کے بل بوتے پروہ اقتدارتک پہونچی تھی،لیکن اس نے ایسانہیں کیاکیوں کہ اسے اس مدعاکوزندہ رکھناہے جب تک یہ مدعا زندہ ہے بی جے پی زندہ ہے،جس دن یہ مدعاختم ہوابی جے پی اپنی موت آپ مرجائے گی۔لیکن کانگریس اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے،کانگریس کے لیے اگرمنافق کالفظ استعمال کیاجائے توشایدوہ بھی کم ہو،آزادہندستان کی تاریخ اٹھاکردیکھ لیں،دیگرجماعتوں کی طرح کانگریس نے مسلمانوں کواپنے گھرکی لونڈی سمجھااسے ووٹ بینک بناکر تقریبا ۴۵؍سالوں تک مرکزمیں برسراقتداررہی،لیکن ان ۴۵؍سالوں میں مسلمانوں نے کیاپایا؟وہ سب کے سامنے ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سب سے بڑانازک وقت وہ تھا جب فرقہ پرست جماعتوں نے’’بابری مسجد‘‘کوشہیدکرڈالا،لیکن یہ توانجام تھا،اس کام کاآغازکانگریس نے ہی مسجدمیں شیلانیاس کراکرکیاتھااوراس وقت مرکزمیں کانگریس ہی برسراقتدارتھی ،کانگریس چاہتی تویہ تاریخی حادثہ کبھی پیش نہ آتالیکن کانگریس کی مجرمانہ غفلت نے ہندوستانی مسلمانوں کویہ دن دیکھنے پرمجبورکیا،درحقیقت بابری مسجدکی شہادت ہندوستانی مسلمانوں کوہندستان میں اجنبی اورکمزور بنانے کی ایک بڑی سازش تھی جس کاسہراکانگریس کے سربندھتاہے،بی جے پی نے توصرف موقع سے فائدہ اٹھایاتھا۔

ذراغورکریں!اگرکانگریس کی نیت صاف ہوتی تووہ پہلی فرصت میں ’’انسدادفرقہ وارانہ بل۲۰۱۱ء‘‘کوپارلیمنٹ میں پاس کراتی ،تاکہ کچھ حدتک تومسلمانوں کااعتمادبحال ہوتا اور فسادات کالامتناہی سلسلہ بندنہیں توکم ضرورہوتا،غذائی تحفظ بل جس کاغریب عوام کوکوئی فائدہ نہیں پہونچنے والاہے اسے پاس کرانے میں توکانگریس نے ایساجوش دکھایاکہ جیسے یہ بل ہندوستان سے غربت کاکلی طورپرصفایاکردے گا،سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب انسان ہی نہیں رہیں گے تواس طرح کے غذائی تحفظ بل کی اہمیت کیارہ جائے گی؟انسدادفرقہ وارانہ بل پاس کرانے میں کانگریس کی مجرمانہ غفلت کاہی نتیجہ ہے کہ اکھلیش کے دوروزارت میں۲۷؍سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں اورریاست اورمرکزغفلت کی نیند سورہی ہے۔کہیں ایساتونہیں کہ یہ فسادات کانگریس اورسماجوادی دونوں کے لیے اپنے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کااہم ذریعہ ہوں،کہ ایک طرف بی جے پی فسادات کے ذریعہ اپنے ہندتوکے ایجنڈے پرعمل کرکے ہندوووٹ بینک کومضبوط کررہی ہے تودوسری طرف کانگریس اورسماجوادی مابعدفسادات اعلانات اوروعدوں کے ذریعہ اپنامسلم ووٹ بینک مضبوط کررہے ہوں،اورفسادات کی تاریخ اورمسلم لیڈروں کی نااہلی کودیکھتے ہوئے ایساہی محسوس ہوتاہے کہ ہرکوئی ان فسادات میں اپنے مفادکوتلاش کرتا رہتا ہے، اور مسلمان ہمیشہ کی طرح وعدوں اورخوابوں کی دنیامیں کھوجاتے ہیں،آپ دیکھتے رہیں کہ حالیہ فسادات کے بعدبھی کچھ ایساہی ہونے والا ہے، وہی نکمے اورلالچی مسلم رہنماان بھولی بھالی عوام کوسماجوادی اورکانگریس کی جھولی میں ڈالتے نظرآئیں گے اوریہ ووٹ بینک کی سیاست اسی طرح چلتی رہے گی،اورسیاست کے یہ گندے کھیل اس وقت تک کھیلے جاتے رہیں گے جب تک کہ مسلم رہنمااپنے مفادسے بالاترہوکرقوم وملت کے مفادکے لیے کام نہیں کریں گے اوریہ عوام بھیڑچال کی روش چھوڑ کراپنے سوجھ بوجھ سے کام لے کر اپنے مطالبات کی بنیادپرامیدواروں کاانتخاب نہیں کریں گی۔اﷲ وہ دن لائے جب کہ مسلم قوم متحدہوکرملت کی بھلائی کے لیے کام کرے۔ آمین٭٭٭

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 47013 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More