طالبان سے مزاکرات ،میڈیا اور حکومت کیلئے ایک امتحان

جب سے پاکستان کی سیاسی قیادت نے اے پی سی کانفرنس کے ذریعے طالبان سے مزاکرات کا فیصلہ کیا ہے اس وقت سے ہی امریکہ اسرائیل اور بھارت کا شیطانی ٹرائیکا ان مزاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں سرگرمِ عمل ہے کیوں کہ ان قوتوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ان مزاکرات کی کامیابی کا مطلب پاکستان کا اس نام نہاد وارآن ٹیرر سے جدائی کی جانب پیش قدمی ہوگا جس کے بھیانک شعلے ہمارے پچاس ہزار سے زائد جوانوں کو شہید اور 80ارب ڈالر کو جلا کرراکھ کرچکے ہیں ۔اس مجرمانہ کوشش میں غیروں کے علاوہ ہماے ''اپنے ''بھی شامل ہیں جو ہرروز ٹی وی پر آکر ہمیں طالبان سے لڑنے ،امریکہ سے ڈرنے اور بھارت پر فدا ہونے کا درس دیتے رہتے ہیں اس دوران ہمارے کئی چینلوں نے اپردیر میں اعلیٰ فوجی قیادت اور چرچ حملے کو خوب اچھالا شاہ سے بڑھ کر شاہ سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کو اقلیتوں کیلئے جہنم ثابت کرنے کی پوری کوشش کی حالاں کہ اس سے قبل جب کہ امریکی ڈرون آئے روز ہمارے درجنوں بھائی بہنوں کو موت کی نیند سلاتے رہے ہیں تو یہ واقعہ نہ تو بال کی کھال اتارنے والے چینلز کیلئے کوئی اہمیت رکھتا ہے اور نہ ہی نام نہاد ہیومن رائٹس کے علمبرداروں کیلئے اس میں کوئی دلچسپی کا سامان ہوتا ہے میرے بہت غور کرنے کے باوجودمجھے کسی بھی روشن خیال کی جانب سے یہ بحث نظر نہیں آئی کہ امریکہ کی اس دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں جو ہمارے پچاس ہزار جوان شہید ہوئے ہیں ان میں غیر مسلموں کی تعداد کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں بنتا مگر اب چرچ پر حملہ ہونے پرآسمان سر پہ کیوں اٹھایا جارہاہے کیا یہ حملے ہماری مساجد و مدارس پر نہیں ہوئے ؟لیکن اب یہ بات تو روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ عالمی صیہونیت کے خوفناک پنجوں میں پھڑپھڑانے والایہ''آزادمیڈیا''وہی دکھاتا اور چلاتا ہے جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں رہی کہ بھارت ،امریکہ اور اس کا بغل بچہ اسرائیل اول دن سے ہی مملکت خداد پاکستان کو کمزورکرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں اور اس کیلئے انہیں نام نہاد عالمی برادری اوراقوام متحدہ کی بھی خاموش حمائت حاصل ہے جس نے کبھی بھی عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کی کبھی بھی سنجیدہ سعی نہیں کی جس کا ذکر میاں نوازشریف نے بھی جنرل اسمبلی میں بھی کیا جس کی منموہن سنگھ کو بہت تکلیف ہوئی اور اس نے پاکستان کو دہشتگردوں کی جنت قراردے دیا اسی دورے کے دوران ہی بھارتی مکروہ پروپیگنڈے کی جھلک ایک بار پھر اس وقت نظرآئی جب بھارتی وزیرخارجہ سلمان بشیر نے کہا کہ نوازشریف تو مزاکرات چاہتے ہیں لیکن پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی ایسا نہیں چاہتی جس کا جواب اگرچہ پاکستان کی جانب سے یہ کہہ کر دے دیا گیا کہ پاکستان میں تمام فیصلے باہمی مشاورت سے ہی کئے جاتے ہیں مگر بہرحال بھارت نے یہ ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے دوسری جانب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بھارتی پروپیگنڈے کا دنیا بھر میں جواب دینا تو بعد کی بات تاحال اپنا وزیرخارجہ تک مقرر نہیں کرپائے ۔بہرحال طالبان سے مزاکرات کے قومی فیصلے کو عملی جامہ پہنانا وقت کی اشد ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمیں ٹھنڈے دماغ سے دشمن کی چالوں کو خوب سمجھنا ہوگا جو ہر ایسے موقع پر پوری تندہی سے سرگرم ہوجاتا ہے جب ہم ملکی سلامتی کیلئے کسی امن معاہدے کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور یقیناََ حالیہ حملے اور دھماکے اسی سلسلے کی کڑی ہیں اور یہ بہرحال خوش آئندامر ہے کہ اب تک پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت ذمہ داری اورتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کو ایک موقع دینے کے فیصلے پر قائم ہے ۔لیکن ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں کے مصداق ابھی اس سلسلے میں اور بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں جن میں ایک ملابرادر پر قاتلانہ حملہ بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ملابرادر موجودہ صورتحال میں پاکستان اور طالبان کے مابین مزاکرات میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں اور یہ کون نہیں جانتاکہ مولوی نیک محمد سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے کہ جس نے بھی مفاہمت کی کوشش کی اسے راستے سے ہٹادیا گیا ۔ایک دوسری بات جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت خاصے دباؤ میں ہے وہ یہ کہ ابھی تک حکومت نے طالبان سے مزاکرات کیلئے اپنی ٹیم کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے مزاکرات میں تاخیر ہورہی ہیں اور طالبان کی جانب سے نئے نئے مطالبے سامنے آرہے ہیں ابھی حال ہی میں جب علمائے کرام نے اﷲ کا واسطہ دے کر دونوں فریقین سے مزاکرات کی اپیل کی تو اس پر طالبان نے کہا کہ وہ پاکستان سے مزاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن یہ مزاکرات پاکستانی قانون کے مطابق نہیں ہوں گے ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا حکومت کی جانب سے مزاکراتی ٹیم کے اعلان نہ ہونے کے باعث ہورہا ہے اور اگر حکومت کسی بیک ڈور چینل سے مزاکرات کررہی ہے اور اپنی ٹیم کا اعلان کسی مصلحت کے تحت نہیں کررہی تودونوں فریقین کو سب سے پہلے یہ طے کرنا چاہئے کہ وہ میڈیا پر کسی قسم کا بیان جاری نہ کریں کیوں کہ اس سے پیدا ہونے والی بہت سی غلط فہمیاں مخالفین کوبے بنیاد پروپیگنڈہ کا موقع فراہم کردیتی ہیں ۔بہرحال یہ صورتحال حکومت اور میڈیا کیلئے ایک امتھان کی حیثیت رکھتی ہے جس میں اگر ہم کامیاب ہوگئے تو انشااﷲ ستے ای خیراں ہو جائیں گی۔

Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 90880 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.