ہم” ماموں“ کیوں بن جاتے ہیں؟

گزشتہ ماہ کی بات ہے، کراچی سے گاؤں جانے کے لیے بس میں بیٹھا ہوا تھا، اڈے پر کھڑی بس مزید مسافروں کی منتظر تھی۔ مجھ سے اگلی سیٹ پر دو لڑکے بیٹھے تھے، جو شکل و صورت سے خاصے معقول لگتے تھے۔ ان میں سے ایک کسی ضرورت کے تحت اٹھا اور بس سے اترگیا۔ میں کھڑکی سے پردا سرکاکر باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد دیکھا، باہر دو لڑکے اس بس والے نوجوان کو گھیرے ہوئے تھے۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا وہ موبائل کی سودے بازی میں مصروف ہیں۔ نوجوان نے پینٹ کی جیب سے بٹوا نکالا اور ہزار کا نوٹ ان لڑکوں کو تھمادیا اور خوشی خوشی بس میں آگیا۔ اپنی سیٹ پر پہنچ کر دوست کو فخریہ انداز میں موبائل دکھایا۔ میں نے ذرا آگے ہوکر سنا تو وہ کہہ رہا تھا، دیکھو! ہزار روپے میں کیسا زبردست سیٹ ہاتھ لگ گیا ہے۔ ابھی وہ موبائل کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے کہ پیچھے سے میں نے آواز لگائی، بھائی ذرا اس کی بیٹری تو چیک کرلیں۔ انہوں نے حیرت سے پیچھے دیکھا اور پھر کچھ کہے بغیر بیٹری نکالنے کے لیے موبائل کھولنے لگے، مگر یہ کیا؟ بیٹری کی جگہ تو لوہے کی پٹی لگی ہوئی تھی۔ وہ سٹپٹائے، مگر اب کیا ہوسکتا تھا۔ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا تھا، دراصل آج کل لوگ اپنی کوئی ”پریشانی“ ظاہر کرکے مہنگے نظر آنے والے ڈمی موبائل سستے داموں بیچتے پھرتے ہیں۔ اس نوجوان کو بھی ایسا ہی ایک مہنگا ”موبائل“ سستے داموں ہاتھ آگیا تھا!

ایک اور واقعہ بھی پڑھ لیجیے، بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، ہمارے ایک محلے دار اپنی دکان کے لیے سامان خریدنے حیدرآباد گئے۔ بس اسٹاپ سے مارکیٹ جاتے ہوئے انہوں نے دیکھا، سامنے زمین پر کوئی چمکدار چیز پڑی ہے۔ قریب گئے تو وہ چیز انہیں سونا لگی، ابھی وہ اسے اٹھاکر دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک اور شخص پہنچ گیا۔ اس نے آتے ہی کہا یہ سونا میرا ہے، جبکہ ہمارا محلے دار اسے دینے پر تیار نہیں تھا۔ توتو میں میں کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچنے والی تھی کہ اس شخص نے کہا، چلو ایسا کرتے ہیں سنار کے پاس چلتے ہیں، جو رقم ملے گی آدھی آدھی کرلیں گے۔ اس پر دونوں کا اتفاق ہوگیا۔ ابھی وہ چند قدم ہی چلے تھے کہ اس شخص نے ہمارے اس محلے دار سے کہا، میں بہت جلدی میں ہوں، ایسا کرو مجھے کچھ پیسے دے کر فارغ کردو، باقی تم رکھ لینا۔ وہ مال خریدنے کے لیے جو پیسے لے گئے تھے، وہ اس شخص کو تھمادیے اور خود سیدھے گاؤں آگئے۔ بیوی کو اپنی ”کامیابی“ کا حال سنایا اور پھر دونوں ایک مقامی سنار کے پاس پہنچ گئے۔ ”سونا“ نکال کر دکھایا تو سنار نے اسے ایک نظر دیکھنے کے بعد سڑک پر پھینک دیا۔ میاں بیوی چیخے، یہ تم کیا کررہے ہو؟ سنار بولا، بھائی صاحب! بے وقوف کسی اور کو بنانا، یہ سونا نہیں ہے۔ بڑے میاں ہزاروں روپے گنواچکے تھے، مگر اب کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ بعد میں غور کیا تو راز کھلا جس شخص کو اس نے پیسے دے دیے تھے، ساری کارستانی اسی کی تھی۔

بس صرف ایک اور واقعہ، پھر اصل بات کی طرف آئیں گے۔ 80ءکی دہائی کا ذکر ہے، ایک گاؤں میں سڑک کنارے مسجد زیرتعمیر تھی، ایک روز ایک شخص کار میں وہاں آیا، مزدوروں سے پوچھا تعمیراتی کام کا نگران کون ہے؟ وہ ایک صاحب کو لے آئے۔ کار سوار نے اسے مسجد کے لیے کچھ رقم دی، نام پوچھا تو کہا بھائی میں اپنا اجر ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ تقریباً ایک ماہ بعد وہ شخص پھر آیا اور مسجد کے لیے کچھ رقم دے دی۔ دیہی علاقہ تھا، بات دور دور تک پھیل گئی کہ ایک صاحب آتے ہیں اور چپکے سے رقم دے کر چلے جاتے ہیں، اتاپتا تو درکنار کسی کو نام تک نہیں بتاتے۔ کچھ دنوں بعد وہ صاحب تیسری بار آئے تو مسجد کی تعمیر آخری مراحل میں تھی، انہوں نے نگران کو اس بار بھی ٹھیک ٹھاک رقم دی، نگران نے کہا صاحب! اگلے جمعے کو مسجد کا افتتاح کررہے ہیں، ہماری خواہش ہے آپ ضرور تشریف لائیں۔ پہلے تو وہ ناں ناں کرتے رہے مگر اصرا ربڑھا تو آنے کا وعدہ کرلیا۔ پورے علاقے میں خبر پھیل گئی کہ وہ گمنام سخی جمعے کے دن آرہے ہیں۔ مقررہ وقت پر لوگوں کا ہجوم لگ گیا، سب اس سخی کی ایک جھلک دیکھنا چاہتے تھے۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ صاحب حسب وعدہ پہنچ گئے۔ لوگوں نے بڑی عقیدت سے ان سے مصافحہ کیا۔ نماز سے فارغ ہوکر لنگر کے دوران ایک بابے نے ان صاحب سے پوچھا، آپ کیا کاروبار کرتے ہیں؟ وہ بولے اللہ نے بہت دیا ہے، اب اپنے لیے پیسوں کی ضرورت تو رہی نہیں ہے، البتہ دوسروں کے کام آنے کی کوشش کرتا ہوں، کوئی ضرورت مند لڑکا ٹکرا جاتا ہے تو اسے بیرون ملک بھجوادیتا ہوں۔ بڑے میاں نے یہ سنتے ہی کہا صاحب! میرے بیٹے کو بھی باہر بھجوادو، وہ بولے ٹھیک ہے، ان کے کاغذات لادو، میں تو پیسے نہیں لیتا مگر قانونی کارروائی پر 10 ہزار روپے لگتے ہیں، آپ صرف وہ دے دیں، بڑے میاں جھٹ پٹ بیٹے کے کاغذات مع 10 ہزار روپے لے آئے۔ دوسرے لوگوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی کاغذات اور پیسوں کے ڈھیر لگادیے۔ وہ بابوجی کاغذات اور لاکھوں روپے لے کر چلے گئے۔ گاؤں والے آج تک ان کی راہ تک رہے ہیں۔ ان صاحب نے مسجد کی تعمیر میں چند ہزار کا حصہ ڈال کر کئی لاکھ روپے کمالیے۔

ان واقعات سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہی کہ ہم ”ماموں“ یعنی بے وقوف دو وجہ سے بنتے ہیں، ایک لالچ اور دوسرا اندھا اعتماد۔ ایک صاحب سستے داموں موبائل خریدنے کے چکر میں ہزار روپے گنوابیٹھا اور دوسرے بھائی صاحب کی جیب سونے کے لالچ نے خالی کردی۔ کئی بار ایسابھی ہوتا ہے، ہم دوسروں کو بے وقوف بنانے کے چکر میں خود بے وقوف بن جاتے ہیں۔ آخری قصے میں بھی ہمارے لیے بڑا سبق ہے، ہم جانچ پڑتال کیے بغیر دوسروں کو پیسا تھما دیتے ہیں اور پھر سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ پیسے ڈبل کرنے والے روپ بدل بدل کر ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہم ہر بار ان سے دھوکا کھاجاتے ہیں۔ جعلی کاغذات پر پراپرٹی خریدکر دھکے کھاتے ہیں، مگر موقع ملتا ہے تو پھر ویسا ہی پلاٹ خریدلیتے ہیں۔ آئے روز بڑے بڑے مالیاتی اسکینڈل منظرعام پر آتے رہتے ہیں، اگر غور کیا جائے تو ان کے پیچھے بھی لالچ اور اندھا اعتماد ہی ہوتاہے۔ زیادہ کیا لکھیں، کچھ ہم بھی بھگت رہے ہیں اور شاید آپ بھی....

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102537 views i am a working journalist ,.. View More