کام نکل جانے کے بعد

امریکہ ہمیشہ اپنے محسنوں کو کام نکل جانے کے بعد ڈس لیتا ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر امریکی تھنک ٹینک پہلے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں اور اس کے بعد بے رحمی سے فیصلہ کرتے ہیں۔ ضیاالحق کو امریکہ نے جس بے رحمی سے منظر سے ہٹایا اس کے مقابلے میں پرویز مشرف پر امریکہ نے بے حد نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھیں نہ صرف مواخزے اور محاسبے سے بچا لیا گیا ہے۔ بلکہ انھیں محفوظ راستے بھی دیا جا رہا ہے۔ وہ ملک میں رہیں گے یا نہیں اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کچھ عرصے قبل جنوبی ایشیا امور کے ماہر ڈاکٹر مارون وائن بام نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ پاکستان کے حالات میں براہِ راست دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو مشورہ دے گا کہ وہ جمہوری حکومت کے ساتھ کھڑی ہو اور آئینی عمل کا ساتھ دے۔ ان کا کہنا کہ اگر جمہوری حکومت کو فوج نے مشرف کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ختم کردیا تو یہ بڑا دھچکا ہوگا۔ ‘واشنگٹن میں ہی امریکی فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر جیف اسمتھ نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی حکمتِ عملی کا اِس صورتِ حال سے گہرا تعلق ہے۔ ڈاکٹر اسمتھ کا کہنا تھا کہہ امریکہ کو چاہیے کہ جمہوری قوتیں جو بھی فیصلہ کریں وہ اِس کا ساتھ دے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری اور مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف نے بڑے اعتماد سے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں صدر مشرف ملک کے موجودہ حالات میں صدر مشرف 58-B-2 کا اختیار استعمال کرنے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ مذاکرات کے بعد حکمراں اتحاد میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے ایک مشترکہ اخباری کانفرنس میں صدر پرویز مشرف کو ہٹانے اور ججوں کو بحال کرنے کے فیصلوں کا اعلان کیا تھا۔ آصف علی زرداری نے اس پریس کانفرنس میں اس بات کا بھی اظہار کیا تھا کہہ صدر کے مواخذے کے فوراً بعد ان تمام ججوں کو فوری طور پر مری معاہدے کے تحت بحال کر دیا جائے گا، جِنہیں صدر مشرف نے غیر آئینی طور پر اپنے عہدوں سے برطرف کر دیا تھا۔ اِس کے علاوہ حکمراں اتحاد نے آئین میں کی گئی سترہویں ترمیم کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے جِس کے تحت 1999ء کی صدر مشرف کی فوجی بغاوت اور اس کے بعد کیے گئے ان کے اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔

انہیں حکومت برطرف کرنے کا اختیار بھی 58-2B کے ذریعے دیا جا چکا ہے۔ مشرف کے میدان سے ہٹ جا نے کے بعد حکمران اتحاد کی بڑی جماعت کے سربراہ آصف زرداری نے جس طرح اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی ججوں کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں خاصا وقت لگے گا۔ دوسری جانب مشرف کے جانے کے تین دن کے اندر ہونے والے تین خودکش حملوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اب نئی سیاسی محاذ آرائی کے لئے نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔ عوام کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہوچکا ہے۔ مہنگائی، افراط زر پیٹرول کی قیمت میں اضافے نے پوری معیشت کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔پیپلز پارٹی کو عوامی جماعت ہونے کے ناطے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن اگر اس نے بہت جلد عوام کو ریلیف نہ دیا تو یہ عوامی قوت ہی اس کے زوال کا سبب بن جائے گی۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 391867 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More