غلامی کا طوق

98 فیصد پاکستانی انگریزی سے نفرت کرتے ہیں،50 فیصد انگریزی کی وجہ سے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں،ایف اے کی سطح پر فیل ہونیوالوں میں 85فیصد انگریزی میں فیل ہوتے ہیں،یوں 80فیصد طلباء انگریزی کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کر پاتے، ہمارے طلباء سائنسدان ‘ڈاکٹر اورانجینئر بن سکتے ہیں لیکن انگریزی ان کے راستے کا پتھر بن جاتی ہے، جنہیں ہم ان پڑھ کہتے ہیں وہ کھیتی باڑی‘ مٹی کے برتن ‘زرعی آلات اورکھڈی کے ذریعے کپڑا تیار کرنے کیلئے ایسی ایسی ٹیکنیکس اپناتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے،یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سکول میں داخلہ لیا لیکن کسی نے چھٹی اور کسی نے میٹرک سے چھوڑ دیا تھا۔اردو‘ حساب ان کیلئے مسئلہ نہیں تھے لیکن انگریزی ان کیلئے ایک مصیبت تھی۔ میٹرک میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے والے طلباء جب کالج میں داخلہ لیتے ہیں تو سائنسی مضامین انگلش میں ہونے کی وجہ سے انہیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے،یہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ پاکستان میں ہرسٹوڈینٹ کو اس مصیبت سے پالا پڑ چکا ہے ہاں یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ پاکستان جس کی قومی زبان اردو ہے اورجہاں 95فیصد لوگ اردو سمجھ لیتے ہیں وہاں انگریزی کا اس قدر عمل دخل ہے کیوں ؟آخر ایسی کونسی مجبوری ہے کہ انگریزی کو دفتری زبان قرار دیاگیا ہے!جس کی وجہ سے دفتروں میں میٹرک اورایف اے پاس کلرک ہر وقت اس مصیبت سے پریشان رہتے ہیں،دراصل انگریزی غلامی کا وہ طوق ہے جسے60 برس بعد بھی ہم اپنی گردنوں سے اتار نہیں سکے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہمیں غلامی کی اس زنجیر میں مزیدجکڑدیا گیا,پہلے یہ مصیبت پانچویں کے بعد نازل ہوتی تھی لیکن اب پنگھوڑے میں ہی اس کا نزول شروع ہوجاتا ہے,ہماراریڈیو اورٹیلی ویژن اس کی گرفت میں آتے چلے جارہے ہیں, ننگی تصویروں اورواہیات قسم کی کہانیوں اورنظموں والی انگریزی کتابیں لائی جارہی ہیں,یہ عنایات صرف ہماری حکومتوں کی نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکہ اوربرطانیہ کے پالیسی ساز اوران کے کارندے بھی ہیں جو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے مصروف عمل ہیں اورپانی کی طرح پیسہ بہا رہے ہیں، مخصوص طبقے کو آگے لانے کیلئے انہوں نے عجیب چال چلی ہے،اعلیٰ ڈگریوں تک پہنچنے کے تمام راستے انہوں نے اس طرح ترتیب دیئے ہیں کہ انگریزی جانے بنا اعلیٰ ڈگری کا حصول ناممکن ہو گیا ہے،امراء کے بچوں کیلئے ایسے سکول بنائے گئے ہیں جہاں انگریزی پڑھانے کا اعلیٰ بندوبست ہے، غریبوں کے ’’ہمدرد‘‘ ان سکولوں میں اتنی فیسیں لیتے ہیں کہ غریب اپنے بچوں کوان سکولوں میں پڑھانے کیلئے سوچ ہی نہیں سکتا،قوم کے ان ہمدردوں سے بھولے سے کوئی پوچھ لیتا ہے کہ یہ تفریق کیوں پیدا کی گئی ہے تو جواب ملتا ہے،بھلا ہم نے کسی کو آگے بڑھنے سے کب روکا ہے؟سوال پیدا ہوتا ہے صرف مخصوص طبقے کے لیے ایسے ادارے کیوں بنائے گئے ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جس نے تمام اعلیٰ عہدے سنبھال رکھے ہیں ان کی بڑی بڑی زمینیں فیکٹریاں اورکارخانے ہیں،کل انہی کے بچوں نے ایم این اے اورایم پی اے بن کراقتدار سنبھالناہے لہٰذا ان کے لئے خاص نظام وضع کیاگیا ہے وہ اس نظام سے گزر کر آتے ہیں تو ان کا ذہن مغربیت سے متاثر ہوچکا ہوتاہے یہ اپنے آقاؤں کے احکامات ماننے میں جذبہ حب الوطنی یا مذہبیت آڑے نہیں آنے دیتے ،دوسرے مرحلے میں اس بات کا اہتمام کیاگیا ہے کہ اگر کوئی سپیشلائزیشن کرنا چاہے اور ’’مستند‘‘ کہلوانا چاہے تو اسے لازماً امریکہ یا برطانیہ کا رخ کرنا پڑے تاکہ وہاں رہ کر وہ ’’براڈ مائنڈڈ‘‘ اور ’’روشن خیال ‘‘بن جائے،تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سائنسدان ‘ڈاکٹر اورانجینئر وہیں رہ جائے یا وطن واپس لوٹے دونوں صورتوں میں فائدہ انہی کو ہوگا اگر وہاں ٹھہرا تو انہیں ایک ذہین انسان مل گیا اگر واپس آگیا تو وہ یہاں آکر بھی انہی کے گن گائے گا،اسے وطن کے لوگ ‘وطن کی مٹی اوروطن کی ہوا اچھی نہیں لگے گی۔تو دیکھا آپ نے کیسی چال چلی جارہی ہے کہ جو اُن کے بنائے طریقے پر چلے گا وہ اوپر آئے گا اورجوان کے ترتیب دیئے ہوئے راستے کو اختیارنہیں کرے گا تو وہ مزدوری کرے گا یا کھیتوں میں ہل چلائے گا۔تیسرامنصوبہ یہ ہے کہ عمومی طورپر پاکستانی معاشرے کو مغربیت سے کیسے متاثر کیاجائے؟اس مقصد کیلئے عمومی انگلش میڈیم سکول جگہ جگہ کھلوا دیئے گئے ہیں,یہ کام انہوں نے ہمدرد اورخیر خواہ بن کر کیا ہے,نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر دیہات کے ہر گھر سے ایک آدھ بچہ نکر‘ شرٹ پہنے ٹائی لگائے اور پی کیپ پہنے صبح سویرے نکلتا ہے۔انگریز نورنگ ‘رائین‘ ڈھوک اعوان اورمرید پور نہیں گیا لیکن اس کی انگریزی وہاں بھی موجود ہے اورانگریزی کی موجودگی کی وجہ سے اس کی ثقافت خود بخود وہاں جڑیں پکڑ رہی ہے،انگریزی کو لازمی قرار دینے والے کہتے ہیں اوہ جی بغیر انگریزی کے بھلا ترقی کیسے ممکن ہے؟ آج تو انگریزی جانے بغیر آدمی باتھ روم نہیں جاسکتا۔مجھے اتفاق ہے اُن کی اِس بات سے اس لیے کہ غلام اورمردہ قوموں کے افراد اسی طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں،جہاں تک زندہ قوموں کا تعلق ہے تو آئیے دیکھئے چین ،روس،جاپان ،کوریا ،جرمنی ‘فرانس اوراٹلی بغیر انگریزی کے ترقی ملک بن گئے ہیں۔اگرچہ اِن ممالک میں بھی انگریزی بولی جاتی ہے لیکن انہوں نے اسے محض زبان کے طورپر سیکھا ہے،اسے اپنے گلے کا طوق نہیں بننے دیا۔ہاں مجھے اتفاق ہے انگریزی کی غلامی کا طوق اتار پھینکنے سے قبل ہمیں متبادل کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ ابھی تک تو ہم نے علم کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کیلئے کوئی کوشش ہی نہیں کی ہم نے اس مقصد کیلئے کوئی ادارہ ہی قائم نہیں کیا ہم نے غلامی کا طوق اتارنے کیلئے قوم کو ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی بلکہ سچ یہ ہے کہ الٹاہم روزبروز اس دلدل میں دھنسے چلے جارہے ہیں ہم آنے والی نسل کو ارادتاً غلام بنا رہے ہیں ،مزید 20 برس کے بعدیہ ہوگا کہ ہماری نسلیں شکل وصورت سے پاکستانی جبکہ ذہنی طورپر انگریزوں کی غلام ہوں گی،لہٰذا اگر ہم ملک وقوم سے مخلص ہیں تو ہمیں غلامی کا یہ طوق اتارنے کیلئے منصوبہ بندی کرنا ہوگی تا کہ آنے والی نسلیں کم از کم اپنے آپ کو آزاد توکہلوا سکیں، اور اگرہم ایسا کچھ کرنے کی صلاحیت سے کلی طور پر محروم ہو چکے ہیں تو پھر عقل کا تقاضا ہے کہ بلا تاخیر قوم کے ’’وسیع تر مفاد‘‘میں انگریزی کو قومی زبان قرار دے دیاجائے!!!

Saeed Nawabi
About the Author: Saeed Nawabi Read More Articles by Saeed Nawabi: 23 Articles with 30727 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.