اِس تکلف کی ضرورت کیا تھی؟

قوم کی امیدیں بار آور ہوں نہ ہوں، خدشات ضرور درست ثابت ہوکر رہتے ہیں۔ اندازہ تھا کہ یارانِ وطن امریکا جا تو رہے ہیں مگر ملے گا کچھ نہیں۔ اور اِس خدشے یا اندازے کے درست ثابت ہونے سے قوم کچھ اور افسردہ ہوگئی ہے۔ حیرت خیر کم ہی لوگوں کو ہوئی ہوگی کیونکہ یہ تو معلوم ہی تھا کہ ہونا کیا ہے!
وزیر اعظم وفد کے ساتھ امریکا گئے تو خوب ڈھول پیٹا گیا اور کئی طرح کے تان پلٹوں میں لپٹے ہوئے راگ الاپے گئے۔ میڈیا نے دورۂ امریکا کے ایجنڈے کی ایسی تصویر کھینچی کہ بہت سے بھولے بادشاہ تیار ہوکر بیٹھ گئے کہ درخت سے پکے ہوئے اب گرے کہ تب گرے! پھل تو کیا ملنے تھے، درخت کی چھاؤں بھی نصیب نہ ہوئی۔ ہوتی بھی کیسے؟ جیسی کرنی ہوتی ہے ویسی ہی دھوپ یا چھاؤں ملتی یا نہیں ملتی ہے۔
قومی خود مختاری کے معاملے پر بات ہونی چاہیے تھی، نہ ہوئی۔ یعنی ڈرون حملوں کا معاملہ کسی کونے میں ایسا مُنہ چھپاکر بیٹھا کہ پھر باہر نہ نکلا، درشن نہ دیئے۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی دلاکر وطن لانے کے بارے میں بڑھک آمیز باتیں کرنے والے اُس کا ذکر تک امریکیوں کی زبان پر لانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

دورۂ امریکا کیا تھا، اُمیدوں کی گٹھڑی تھی۔ یہ گٹھڑی کھلی تو قوم پر کھلا کہ اندر تو کچھ بھی نہ تھا۔ ؂
بہت شور سُنتے تھے پہلو میں دِل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خُوں نہ نکلا!

حق تو یہ ہے کہ اِس دورے پر ’’کھودا پہاڑ، نکلا چوہا‘‘ والی کہاوت بھی منطبق نہیں ہوتی۔ چوہا بھی نکلتا تو دِل کو تسلی ہو جاتی، چند آنسو پُنچھ جاتے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ پہاڑ کھودنے میں کدال بھی ٹھکانے لگ گئی!

واشنگٹن میں تین روز تک وزیر اعظم اور ان کے رُفقاء کی امریکی وزرا و حکام سے ملاقاتوں کے بعد ڈراپ سین کا لمحہ آیا۔ میاں نواز شریف کو وائٹ ہاؤس بُلوایا گیا۔ صدر براک اوباما سے ملاقات ہوئی۔ قوم پھر ٹی وی سیٹس کے سامنے بیٹھ گئی۔ اُمید کم اور آسرا زیادہ تھا کہ شاید بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ جائے! چھینکا تو نہ ٹوٹا، دل البتہ ٹوٹ گئے۔ امریکی صدر سے ملاقات کے حوالے سے میڈیا پر جو راگنیاں الاپی جارہی تھیں وہ نِرے بے سُرے پن کا ڈھیر ثابت ہوئیں۔ قوم دم بخود ہوکر رات گئے ٹی وی سیٹس کے سامنے بیٹھی تھی کہ وزیر اعظم کوئی بڑی بات، کوئی خوش خبری لے کر باہر آئیں گے۔

ہم بھی خدا جانے کس مٹی کے بنے ہیں کہ بار بار جھوٹی امیدوں اور طفل تسلیوں کے گڑھے میں جا گِرتے ہیں۔ ع
دِل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے!

وزیر اعظم کی صدر اوباما سے ملاقات ختم ہوئی تو قوم بُت بن کر ٹی سیٹس کے سامنے بیٹھ گئی۔ چند یقین دہانیاں سُننے کا اشتیاق تھا۔ مگر یہ کیا؟ سرکاری بیان میں صدر اوباما نے ڈرون حملوں، عافیہ صدیقی کی ’’متوقع‘‘ رہائی اور سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ذکر تک نہ کیا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا راگ الاپتے ہوئے اُنہوں نے جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی اور اُسامہ بن لادن کے ٹھکانے کی نشاندہی میں امریکیوں کی مدد کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ ضرور کیا۔

شاید کسی نے صدر اوباما کو بتا دیا تھا کہ اِس ملاقات کے باعث پاکستان میں رت جگا ہے اِس لیے اُنہوں نے پاکستانیوں کی اشک شُوئی کی خاطر چند رسمی جُملے اپنے سرکاری بیان میں ضرور شامل کئے۔ مثلاً پاکستان اہم اسٹریٹجک پارٹنر ہے، افغانستان سے محفوظ اور بر وقت انخلاء کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے، توانائی، دفاع، سلامتی، بنیادی ڈھانچے اور انسدادِ دہشت گردی و انتہا پسندی جیسے امور میں معاونت کرتے رہیں گے وغیرہ۔

صدر اوباما کی موجودگی وزیر اعظم نواز شریف نے جو لکھا ہوا سرکاری بیان میڈیا والوں کے گوش گزار کیا اُس میں ڈرون حملے روکنے، عافیہ صدیقی کی رہائی اور سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی منتقلی کا ذکر تک نہ تھا۔ ثابت ہوگیا کہ اِن تینوں معاملات پر سِرے سے بات ہی نہیں ہوئی یا نہ ہونے کے برابر ہوئی۔

وائٹ ہاؤس میں پاکستانی میڈیا سے اردو میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے دعوٰی کیا کہ صدر اوباما سے ملاقات کے دوران ڈرون حملوں اور عافیہ صدیقی کا معاملہ اُٹھایا گیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ صدر اوباما نے جماعت الدعوۃ اور چند دوسری تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے کا مطالبہ بھی کیا۔ پاکستانی میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم نے اہم ترین ’’نکتہ‘‘ یہ بیان کیا کہ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا کیونکہ اِسے ہم نے خود خراب کیا ہے۔

وزیر اعظم نے لندن پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو میں دورۂ امریکا کا بھرم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں! اور یہ کہ جہاں بات کرنی تھی وہاں بات کی ہے۔ نتائج جلد سامنے آئیں گے۔ ساتھ ہی یہ تسلی بھی دی کہ ڈرون حملوں کا معاملہ پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا۔ قوم کی ڈھارس بندھانے اور چند ہی گھنٹوں میں خاصا گِر جانے والا مورال بلند کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اِس مرتبہ امریکی حکومت نے ڈرون حملوں سے پاکستان کی خود مختاری کے متاثر ہونے کے معاملے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈرون حملوں اور عافیہ صدیقی کا معاملہ اُٹھا کر اُنہوں نے کسی پر احسان نہیں کیا۔ اور یہ کہ شکیل آفریدی کے معاملے پر ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

لندن میں وزیر اعظم کی میڈیا سے گفتگو کا ذائقہ ابھی کانوں میں رس گھول ہی رہا تھا کہ ہر وقت سِتم ڈھانے کی باتیں کرنے والے امریکی حکام سِتم ظریفی پر اُتر آئے۔ واشنگٹن میں پاکستانی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے محکمۂ خارجہ کے حکام نے کہا کہ عافیہ صدیقی پر مزید بات ہوگی نہ ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی تبدیل کی جائے گی۔ نواز شریف نے عافیہ صدیقی کی بات کی اور ہم نے سُنی۔ اور یہ کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ ہر ملاقات میں اُٹھایا ہے۔ امریکی حکام نے یہ واضح نہیں کیا کہ میاں نواز شریف نے عافیہ کی بات کس سے کی۔ صدر اوباما سے، نائب صدر جو بائیڈن سے، وزیر خارجہ جان کیری سے یا مزید نچلے درجے کے حکام سے؟

ویسے امریکی حکام کو ڈرون حملوں اور عافیہ صدیقی کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نواز اوباما ملاقات کے بعد جاری کئے جانے والے باضابطہ مشترکہ اعلامیے میں اِن دونوں معاملات کے ذکر تک سے گریز پوری کہانی عمدگی سے بیان کردیتا ہے! اِس ملاقات کے زمینی حقائق اب مکمل بے نقاب، بلکہ بے لباس ہوچکے ہیں۔

وزیر اعظم کے خصوصی معاون سرتاج عزیز کے نزدیک دورۂ امریکا کی اہم ترین ’’کامیابی‘‘ یہ ہے کہ امریکا اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی بحالی پر رضامند ہوگیا ہے۔ کوئی ذرا بتلائے کہ اِس میں کامیابی کا کون سا پہلو ہے۔ اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے نام پر کیا ہوگا؟ مزید ارب ڈیڑھ ارب ڈالر چارے کی طرح ہمارے اقتداری اصطبل میں ڈال دیئے جائیں گے اور تاکید ہوگی کہ قومی مختاری کا جو بھی حشر ہو، خاموش رہنا ہے۔

قوم یہ سوچ کر پریشان ہے کہ جب کسی امکان کی فصل تیار ہی نہیں ہوئی تھی تو واشنگٹن کا طواف کیوں کیا گیا؟ ایسی کون سی آفت ٹوٹ پڑی تھی جو اِس دورے کے بغیر ٹالی نہیں جاسکتی تھی؟ جو کچھ واشنگٹن میں اور پھر لندن میں میڈیا نمائندوں سے وزیر اعظم کو کہنا پڑا وہ تو اسلام آباد یا لاہور میں بھی کہا جاسکتا تھا۔ پھر اِس قدر زحمت اُٹھانے کی ضرورت کیا تھی؟

بھارتی میڈیا نے جلتی پر تیل چھڑکنا شروع کردیا ہے۔ کولکتہ کے اخبار دی اسٹیٹسمین نے نے لکھا ہے کہ نواز شریف کو براک اوباما کے ناگوار اور تلخ سوالوں کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی صدر نے (بظاہر بھارت کو خوش کرنے کے لئے) ممبئی حملوں کے ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے میں تاخیر پر پاکستانی وزیر اعظم سے باز پُرس کی۔ ہفت روزہ انڈیا ٹوڈے نے لکھا ہے کہ امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی سے معذوری ظاہر کردی۔ کشمیر کے معاملے پر بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بھرپور مسرت کا اظہار کیا ہے جیسا کہ اُن کا حق تھا۔

اسلام آباد کے ٹھنڈے اور پُرسکون مَحلّات میں سکونت رکھنے والے اُلجھن میں مبتلا نہ ہوں۔ روزنامہ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے کہ امریکی صدر نے میزبان وزیر اعظم کو بہت زیادہ شرمندہ ہونے سے بچالیا! قوم افسرہ ضرور ہے، حیران بالکل نہیں۔ حکمرانوں کی مہربانی ہے کہ قوم کو کم از کم حیرت کی منزل سے تو آگے بڑھا دیا ہے!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486001 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More