بلاعنوان!

جب قوم سانحہ راولپنڈی کے غم میں ڈوبی حالات کی بہتری کیلئے دعا گو تھی ، میڈیا چیخ چیخ کر وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر کی حالت زار پر نوحہ کناں تھا، اسی شہر سے منتخب وفاقی وزیر داخلہ ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئے اور ہوا کا رخ ایسا موڑا کہ سب ورطہ حیرت میں ڈوب گئے، سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان صورتحال ہی تبدیل کرگیا، ہر طرف نیا شور مچ گیا لیکن لکیر کے کسی فقیر نے حکومت کی چال کو سمجھا، نہ سمجھنے کی کوشش کی۔ یوں حکمران ایک ایسے معاملے پر جس کا نہ گزرے سڑسٹھ سالوں میں کچھ ہوا، نہ آئندہ ہونے والا ہے سیاست کرتے ہوئے قوم کی توجہ تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔کوئی کچھ بھی کہتا پھرے لیکن ہمارے ہاں یہ سیاسی چال حکومتی بے حسی کی بد ترین مثال ہے، ہم پرویز مشرف کے حامی نہیں، آئین توڑنے والے کو سزا ملنی چاہیے، لیکن اس کارروائی کے اعلان انتہائی بے وقت تھا اور وہ بھی انتہائی عجلت میں۔عجلت ایسی کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی غداری کے مقدمے کے قانون سے لاعلمی ظاہر ہو گئی۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سابق صدر مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا ٹرائل خصوصی کمیشن کرے گا اور اس کمیشن کے قیام کیلئے حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان سے رابطہ کرے گی۔

اتنا بڑا اعلان کرنے سے پہلے چوہدری نثار نے متعلقہ قانون دیکھنا مناسب نہیں سمجھا ،1976ءکے ایکٹ کے مطابق آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ خصوصی عدالت ہی سن سکتی ہے کوئی کمیشن نہیں ، وفاقی وزیر داخلہ کی سنگین ترین غلطی کے باوجود عش عش کرنے والے اپناراگ الاپتے رہے،قوم بھی نئی خبر پر ہمہ تن گوش ہوگئی ۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا،قیام پاکستان سے اب تک نہ تو ہم نے کچھ سیکھا اور نہ ہی ہماری قیادت نے۔ وہی ماضی کی غلطیاں، ماضی کے شورشرابے، تصادم، وہی قیادت جو کبھی ماضی میں ایک دوسرے کے دست وگریبان ہوا کرتی تھی۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ہم نے ماضی میں جو غلطیاں کی تھیں۔ اب بھی وہی کررہے ہیں بہتر ہوگا کہ اگر کہا جائے کہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک غلطیاں۔۔۔ کوئی ہماری رائے کے خلاف جائے تو ہم اسے اپنا دشمن گردانتے ہیں۔ہم ماضی میں زندہ رہنے والی قوم ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارنامے بڑے فخرسے سناتے ہیں لیکن ان سے سیکھتے کچھ نہیں۔ ہماری حالت اسی کنگال شخص کی سی ہے جو ماضی میں کافی مالدار ہوا کرتا تھا، جو اپنے ماضی کے بنک بیلنس، جائیداد اور عیاشیوں کے بارے میں دوسروں کو بتاتاپھرتا ہےلیکن خود اپنا ماضی واپس لانے کی کوشش نہیں کرتا۔ایک خاموشی ہے جو ٹوٹتی نہیں، زبان ہے کہ کچھ بولنے سے گھبراتی ہے، دماغ ہے کہ سوائے دوجمع دو چارروٹیاں کے علاوہ کچھ نںی سوچتا، دل ہے کہ بس حالات پر کڑھتا ہی رہتا ہے، آنکھیں ہیں کہ بند ہیں کہ ہم سچ نہیں دیکھنا چاہتے، جسم ہے لیکن بے سدھ، قدم ہیں کہ کچھ کرنے سے پہلے ہی ڈگمگاجاتے ہیں،پریشانی، ملامت، غصہ، عدم برداشت، بے حسی اور نہ جانے کیا کیا ہے جوہم میں بدرجہ اتم ہے۔

ہم سیاسی چالبازیوں، سیاستدانوں کی دھوکہ دہی، ذات پات، مسلک، صوبائی عصبیت اور بے حسی سے نکلنے کو تیار ہی نہیں، ہر شخص کا اپنا نعرہ ہے، ایک شخص دوسرے شخص سے خفا ہے، کسی پہ اعتبار نہیں، انتظار کررہے ہیں کہ کوئی اچھا رہنما ملے لیکن اپنی رہنمائی نہیں کرتے، سچ سننے، بولنے کی سکت ہم میں نہیں رہی اور نہ ہی سچ سننا چاہتے ہیں۔ کوئی سچ بولےتو برداشت کرنے کوتیار نہیں، چوروں کو ہم اپنا رہبراور دشمنوں کو دوست بنائے بیٹھے ہیں۔ حالات پردل ہی دل میں کڑھ رہے ہیں، حکومت پر تنقید کررہے ہیں لیکن کوئی عملی قدم نہیں، بس وہی نان ونفقہ، بنیادی ضروریات. بات ضروریات سے آگے نہیں بڑھتی، ہم ہر حکومت کو فری ہینڈ دے دیتے ہیں کہ جو مرضی آئے کرتی پھرے ۔ہر شخص کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہے، ہماری حب الوطنی اپنے مکتبہ فکر تک محدود ہوگئی ہے، ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے لیکن اپنا حق ادا نہیں کرنا چاہتا۔

صوبائی عصبیت کے نعرے جاگیردار، بدعنوان سیاستدان اور سردار بلند کرتے ہیں اور ہم سوچے سمجھے ان نعروں کا جواب دینا شروع کردیتے ہیں۔مسلمان گروہوں کی شکل میں بٹ گئے ہیں کوئی سنی ہے تو کوئی شیعہ کسی کو پنجابی ہونے پر فخر ہے تو کسی کو سندھی ہونے پر، کوئی بلوچیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے تو سندھیوں کے لیکن پاکستان کے حقوق کی بات کرنے کو اور پاکستانی بننے کو کوئی تیار نہیں۔اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ہم دیواریں اونچی کردیتے ہیں۔ دیواروں پر شیشہ لگادیتے ہیں تاکہ چوروں اور ڈاکووں سے محفوظ رہیں لیکن ہمارے جذبات، ہمارے ارمان، ہماری خودمختاری، ہمارے وقار پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو اپنے اوپر مسلط کردیتے ہیں۔ ہمارا احتساب وہ کررہے ہوتے ہیں لیکن انہیں احتساب سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔ ہمدردی ہمارا وطیرہ ہے وہ بھی صرف سیاہ ستدانوں کے لئے اور ''سیاہ ستدان بھی ایسے کہ سیاست میں جواب نہیں،بھارتی فلم سٹار آئی ایس جوہر سے کسی نے پوچھا سیاست دان کی تعریف کیا ہے؟ تو اس پر ان کا جواب تھا کہ
He shakes your hand before elections and your confidence after .
ذرا سا غور کریں تو ہمارے ہاں کی صورتحال اس تعریف کے عین مطابق ہے،اور عوام کے تمام مکاتب اس کی تمہید باندھنے کیلئے ہمہ وقت دل وجان سے حاضر رہتے ہیں اور اپنے ہی بھائیوں کو پیچھے دھکیل کراشرافیہ کی پالیسیوں کو عین منصوبہ بندی کے مطابق کامیاب بناتے ہیں،،جن احباب کو اب بھی سمجھ نہ آئے ان کیلئے عرض کیا ہے۔۔۔
اوپر سے آیا ہے فرمان ،،،ٹاکنگ چھوڑ کے پسٹل تان
کیسا مذہب کیا ایمان،،، اپنے بھائی کی لے لو جان
اپنی قوت اپنی جان،،، آگ بنا ہے پاکستان

ایسا کھیل دکھایا ہے،، الو سب کو بنایا ہے
حاکم بن کر آیا ہے،میرے دیس میں وہ مہمان
اپنی قوت اپنی جان ۔۔۔آگ بنا ہے پاکستان

زخمی مسلم کا سر ہے،،کتنا پیارا منظر ہے
گُل چیں کا یہ آرڈر ہے'گلشن کو کر دو ویران
اپنی قوت اپنی جان ،،، آگ بنا ہے پاکستان

اپنے گھر پر قابض غیر ،،،،اپنے پیاروں سےہی بیر
اپنی کلھاڑی اپنا پیر،،،،،،،، اپنا نشتر اپنی ران
اپنی قوت اپنی جان ۔۔۔۔آگ بنا ہے پاکستان
 
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54332 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.