ایران معاہدہ: جنگجوئیت کی شکست

صلح حدیبیہ(سنہ ۶ ھ) تاریخ اسلام کا ایک انتہائی اہم سبق آموزواقعہ ہے۔ اﷲ رحمٰن و رحیم کی رہنمائی میں جب اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے ، جو شمع اسلام کو گل کردینے پر کمربستہ تھے، دس سالہ امن کا معاہدہ فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی ششدررہ گئے تھے۔ لیکن اﷲ رب العزت نے اس معاہدے کو، جو بظاہر بہت دب کر کیا گیا تھا، ’فتح مبین ‘قرار دیا، اور دنیا نے دیکھ لیا،امن میں دو ہی سال میں وہ حاصل ہوگیا، جس کو بصورت جنگ حاصل کرسکنے کے حزب اسلام کے پاس وسائل نہیں تھے۔بطوریاددہانی اس صلح کی دو ہی شقوں کا ذکر کرتے ہیں۔ قریش نے مسلمانوں کو زیارت خانہ کعبہ و عمرہ سے روک دیا حالانکہ قدیم روایت کے مطابق ان کو اس کا حق نہیں تھا ۔مگرآپ صلی اﷲ وسلم نے یہ شرط منظور فرمالی اوراپنے مسلمہ حق کو موخر فرمادیابغیر عمرہ ادا فرمائے واپسی کی شرط قبول فرمالی۔ دوسری شق یہ تھی اگر کوئی برگشتہ قریش بھاگ کر مسلمانوں کی امان میں آجائے تو اس کو واپس کرنا ہوگا ۔ لیکن اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس چلا جائے تو اس کو واپس نہیں کیا جائیگا۔مگرحضور صلعم نے اس کو بھی انگیز فرمالیا۔مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر شبخون کے باوجود یہ معاہدہ ’فتح مبین ‘ کی کلید ثابت ہوا۔

دورحاضر میں عوام کے دلوں پر دستک دینے اور ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے اہل اسلام کو ضرورت امن کی ہے۔کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جوش ایمانی میں بعض طبقوں میں جنگجوئیت کی جو لہر اٹھ کھڑی ہوئی ہے اس سے اسلام اوراہل اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (امریکا، روس ، برطانیہ، فرانس وچین) اور جرمنی کے ساتھ ایران نے بظاہر کچھ دب کر گزشتہ اتوار کی شب جنیوا میں جو عبوری معاہدہ کیا ہے، اس کو اسی نظر سے دیکھا جاناچاہئے کہ یہ معاندین اسلام کے جذبہ جنگجوئیت پر امن و سلامتی کے موقف کی فتح ہے۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ایران کے ارباب حل وعقد کس مسلک و مذہب کے پابند ہیں، ہماری نظر میں اس معاہدے کا ایک فریق اسلام کا نام لیوا ہے اور دوسرا صدیوں سے اسلام کا حریف ہے۔قدیم صلیبی جنگوں سے لیکر جدید صلیبی جنگ (جس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ) اور ۱۹ویں صدی میں کمیونسٹ روس کے ہاتھوں پڑوسی مسلم مملکتوں، مساجد و مدارس اور اقدار کی تباہی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ حالیہ دنوں میں امریکا اور یورپی ممالک نے عراق اور افغانستان پر براہ راست فوج کشی کرکے اور دیگر مسلم ممالک میں ’بہار عرب ‘ کے خوشنما نام پر جنکجویت کو فروغ دیکر جو تباہی مچائی ہے، وہ بھی عیاں ہے۔ اگریہ ساری طاقتیں دس سال تک ایک مسلم ملک کو حملے کی دھمکیوں کی زد میں رکھ کر اور صہیونی اسرائیل کے شدید مخالفت کے باوجود ایران کے ساتھ عبوری امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں تو اس کو ’فتح مبین ‘ ہی کہنا چاہئے۔امید ہے کہ اس کے گل بوٹے عنقریب زینت نظر ہونگے بشرطیکہ بصیرت وبصارت نے ساتھ دیا۔

معاہدے کی تفاصیل ابھی آرہی ہیں۔یہ عبوری معاہدہ ہے جو چھ ماہ کے لئے ہوا ہے۔اس مدت میں فریقین اعتماد سازی اور حتمی معاہدے کے لئے مذاکرات جاری رکھیں گے۔ گزشتہ دس سالوں میں ایران نے خانگی طور پر جو سائنسی فتوحات حاصل کی ہیں، اس کی کوئی مثال مسلم ممالک میں نہیں ملتی۔ مشکلات کے ان ایام میں اس خلیجی ملک نے خود کفالت کا سبق سیکھ لیا ہے۔جو حاصل کیا اس کی قیمت بہت چکانی پڑی۔ مگر خوداعتمادی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ایران کی سائنسی فتوحات میں وہ 19,462 مشینیں شامل ہیں جو اس نے یورینیم افزودگی کے لئے کھڑی کرلی ہیں۔ ان میں بجلی گھروں اور طبی ضرورتوں کے لئے یورینیم کی صفائی اور افزودگی ہوتی ہے۔ مذکورہ چھ ممالک اور ان سے زیادہ اسرائیل کو فکر یہ ہے کہ کہیں ایران ایک قدم آگے بڑھا کر اتنا طاقتور یورینیم نہ بنا لے جو اسلحہ سازی کے لئے درکار ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے ان ساتوں ممالک کے پاس بڑی تعداد میں نیوکلیائی اسلحہ موجود ہیں، مگر وہ یہ نہیں چاہتے کہ کوئی مسلم ملک بھی یہ صلاحیت حاصل کرلے۔ مسلم ممالک میں صرف پاکستان کے پاس یہ صلاحیت ہے مگر تازہ رپورٹوں سے یہ عقدہ کھلا ہے کہ پاکستان کو نیوکلیائی ملک بنانے میں امریکا کی باالواسطہ معاونت شامل تھی جو افغانستان پر روس کے قبضہ کے بعد اس کی حکمت عملی کا حصہ تھی۔دوسرا ہدف اس کا ہندستان بھی تھا۔ پاکستان کو نیوکلیائی ملک بناکر امریکا نے ایک تیر سے دونشانے سادھے ہیں۔ مگر ایران سے وہ اس لئے خوفزدہ ہے کہ اسرائیل ایران کی زد پر آسکتا ہے۔اسرائیل کی پریشانی یہ ہے خطے میں کسی بھی دوسرے ملک کے پاس نیوکلیائی اور فوجی طاقت اس کی داداگیری کوملیامیٹ کردیگی۔ فی الحال ان ممالک کا نشانہ یہ ہے کہ ایران کو اسلحہ سازی کی صلاحیت حاصل کرنے سے باز رکھا جائے۔

اگرچہ ان ممالک نے سلامتی کونسل سے کئی قراردادیں ایسی منظور کرارکھی ہیں جن مطالبہ کیا گیا ہے ایران اپنا نیوکلیائی پروگرام کلی طور سے بند کردے، لیکن جنیوا معاہدے میں سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ممبر اور جرمنی نے ایران کے اس موقف کو تسلیم کرلیا ہے کہ جوہری توانائی میں تحقیق و ترقی اس کا حق ہے۔اس معاہدے کی رو سے ایران اس شرط پر آمادہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنی وہ 9500 سینٹری فیوگ مشینیں جوابھی چالو نہیں ہوئی ہیں، بند رکھے گا۔ ان میں 1008 مشینیں ایڈوانس ہیں۔ لیکن جو مشینیں فی الحال چل رہی ہیں، ان کو بند نہیں کیا جائیگا۔ ان سے جوہری ایندھن بدستور تیار کیا جاتا رہیگا۔البتہ 20% تک افزودگی والا ایندھن نہیں بنایا جائیگا، جس سے اسلحہ سازی کے لئے مطلوب گریڈ کی تیاری بس ایک قدم ہی دور رہ جاتی ہے۔ایران بارہا یہ کہتا رہا ہے کہ اس ہدف نیوکلیائی اسلحہ سازی نہیں البتہ نیوکلیائی سائنس اور توانائی کا حصول اس کا حق جس سے وہ دستبردار نہ ہوا ہے اورنہ ہوگا۔

امریکا نے معاہدے کے بعد کہا کہ اس کی بدولت ایران کو نیوکلیائی اسلحہ سازی کے مرحلے میں داخل ہونے رکاوٹ پڑگئی ہے۔ اس طرح ایران نے نیوکلیائی ٹکنالوجی میں تحقیق کے حق کو محفوظ رکھا ہے۔ ایران کے بہت سے اثاثے پابندیوں کی وجہ سے یورپی بنکوں میں منجمد ہیں ۔معاہدے کی رو سے ان میں سے تقریباً 8؍ارب ڈالر غیرمنجمد ہوگئے ہے۔ جرمنی کے وزیرخارجہ نے اشارہ دیا ہے کچھ اور پابندیاں بھی بتدریج اٹھالی جائیں گی۔

یہ معاہدہ امریکی صدر بارک اوبامہ کی خصوصی دلچسپی سے ممکن ہوسکاجنہوں نے چھ سات ماہ قبل ایران کے ساتھ براہ راست خفیہ مذاکرات شروع کردئے تھے۔ ایرانی قیادت بھی کشیدگی کو ختم کرنے پر آمادہ تھی، اس لئے معاہدے پر پہنچنا ممکن ہوسکا۔ امریکا کی یہ خصوصی دلچسپی سمجھ میں آتی ہے۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے اس کی اقتصادی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔یورپی ممالک بھی اقتصادی بحران میں مبتلا ہیں۔ ایرانی تیل پر پابندی سے ان کی معیشتوں پر برااثر پڑا ہے۔ امید ہے کہ اب عالمی منڈیوں میں تیل کی گرانی کم ہوگی۔

امریکا ، ایران کی چشمک ختم ہونے سے خلیجی سیاست پر بھی دوررس اثرات مرتب ہونگیں۔ افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں میں ایران کی معاونت حاصل کرنے میں امریکا کی جھجک کم ہوگی۔ جاپان اورہندستان نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ امید ہے کہ اب ایران پاکستان ہندستان گیس پائپ لائن پروجیکٹ پایہ تکمیل تک پہچے گا اور چابہارپرجیکٹ نیز ایران کے راستے یورپ کے لئے تجارتی راہ داری کے فروغ کے منصوبے میں بھی تیزی آجائیگی۔

نیپالی الیکشن
نیپال میں حال میں منعقدہ چناؤ میں اعتدال پسند نیپالی کانگریس نے کل 240 میں سے 105 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے جب کہ کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کو 91سیٹیں ملی ہیں۔ پشپ کمل پرچنڈا کی ماؤ نواز پارٹی کو جو جنگجوئیت کے راستے سیاست میں آئی ہے ، صرف 26 سیٹیں ملیں۔ پرچنڈا دونوں سیٹوں پر چناؤ ہار گئے۔ انتخابی نتائج پر حواس باختہ پرچنڈا نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور پارلیمنٹ کے بائی کاٹ کا اعلان کردیا۔ اس کا مطلب صاف ہے۔ عوام نے جنگجوئیت کو مسترد کردیا اور جنگجو جمہوری فیصلے کو قبول کرنے پرآمادہ نہیں۔ ان نتائج کااثر ہندستان کے نکسلیوں پر کیا پڑتا ہے، دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ پاکستان کے صوبہ سرحد میں بھی گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں عوام نے جنگجوئیت کو مسترد کردیا تھا۔ اس سے دنیابھر کے جنگجوؤں کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔

نئے ،نئے آسارام
ابھی آسارام کا قصہ تازہ تھا کہ تہلکہ میگزین کے مدیر ترن تیج پال پر ان کی بیٹی سے بھی کم عمر کی ان کے دفتر کی ایک کارکن نے دست درازی کا الزام لگایا ہے۔ لڑکی نے ترن کی جوجو حرکتیں بیان کی ہیں ان کو دوہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ ایسا نامور دانشورجنسی ہوس میں ساری دانائی بھول گیا اور غلاظت میں جا ڈوبا۔سپریم کورٹ کے ایک سابق جج پربھی زیر تربیت ایک خاتون جج نے ایسا ہی الزام لگایا ہے ،جس کی تفتیش خود سپریم کورٹ کررہا ہے۔ہندستان کی ایڈیشنل سالسٹرجنرل محترمہ اندرا جے سنگھ نے انکشاف کیا ہے کہ کئی ججوں نے اپنی عدالتوں کے چیف ججوں کو مشورہ دیا تھاکہ خواتین کو دفاتر میں نہ رکھا جائے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے عدالتوں میں مالی کرپشن کے ساتھ جنسی کرپشن بھی موجود ہے۔
ا یک خبر اٹلی کے سابق وزیر اعظم سلویو برلسکونی Silvio Berlusconi کی بھی آئی ہے۔ پیسہ دیکر ایک 17سالہ رقاصہ کے ساتھ اپنی ہوس مٹانے،اور گواہوں کو خاموش کرنے کے لئے بے دریغ دولت خرچ کرنے کے جرم میں 77 سالہ برلسکونی ایک عدالت نے سات سال قید اور عمر بھر سیاست میں حصہ نہ لینے کی سزاسنائی ہے۔ ان پرچوری چھپے اپنے قصر میں نیم برہنہ لڑکیوں کے رقص کے بھی میلے لگانے کا الزام بھی ہے۔ وہ چار مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے۔ ان پر مالی بدعنوانیوں کا بھی کیس ہے۔ ویسے تومغربی معاشرے نے، جو خود کو عیسائی گردانتا ہے، زنا کاری کو اپنے اوپر جائز کرلیا ہے، لیکن چارمرتبہ ملک کے وزیراعظم چنے جانے برلسکونی کو سزا س لئے دی گی رقاصہ کی عمر 18سال سے کم تھی اور پیسہ دیکر آمادہ کی گئی۔ یورپی قانون کے مطابق بالغ افراد کو جنسی آزادی ہے۔ ہندستان میں بھی یہ روگ پنپ رہا ہے۔ زنا کو ہی نہیں ہم جنس پرستی کو مغربی نظریات کی پیروی میں جائز کردیا گیا ہے۔ جب زنا کی شناعت ختم ہوگئی تو عمر اورجبر کی شناعت کیسے قایم رہ سکتی ہے؟ اصل علاج وہی ہے جو 14صدی قبل اسلام نے بتایا تھا،’ زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو۔‘

میڈیکل کالج سہارنپور
دارلعلوم دیوبند کے ایک سینراستاد کے نمایاں فوٹو کے ساتھ نصف صفحہ کا ایک اشتہاربعنوان ’’تبریک و تحریک‘‘ دہلی کے متعدد اخباروں کے صفحہ اول پر شائع ہوا ہے، جس پر کئی لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ موصوف کی جہد مسلسل سے متاثرہوکر یادو سرکارنے سہارنپور میں زیر تعمیر میڈیکل کالج کا نام شیخ الہند مولانا محمود حسن میڈیکل کالج کردیا ہے۔ ’جامعہ اسلامیہ للبنات، دیوبند‘ کی جانب سے شائع اشتہار میں اس ’کارنامہ‘پر مذکورہ محترم استاد اوراس عنایت پر یادو سرکار کو تہنیت پیش کی گئی ہے۔اس میڈیکل کالج کا آغاز مایاوتی کے دورمیں ہوا تھا اور اس کا نام ’’شری کاشی رام ایلوپیتھک کالج ‘‘رکھا گیا تھا۔نام کی اس تبدیلی کا منشا ظاہر ہے مسلمانوں کو بہلانا پھسلانا ہے، مگر یہ صاف نظرآتا ہے کہ یہ نام کی یہ تبدیلی کاشی رام جی کی پیروکاربرادریوں کو شاق گزرے گی۔ جس طرح اپنی بے تدبیری اور بے حسی سے یادو سرکار نے علاقے کے مسلمانوں اور اکثر جاٹوں میں گہری خلیج پیدا کردی ہے ، کیامنشا یہ ہے کہ ویسی ہی خلیج مسلمانوں اور کاشی رام کی پیروکار برادریوں میں بھی پیدا کردی جائے؟ حیرت اس بات پر ہے کہ حضرت شیخ الہند جیسی برگزیدہ شخصیت سے وابستگی رکھنے والے ،اس تجویز پر کیسے آمادہ ہوگئے کہ کاشی رام کے نام سے منسوب زیر تعمیر ادارے پر شیخ الہند کا نام چسپاں کردیا جائے؟یہ تجویز ہماری دینی حمیت ، قومی غیرت اور ہمارے سیاسی مفاد کے قطعاً منافی ہے۔ اس سے ان زخموں پر نمک پاشی ہوگی جو مظفرنگر وشاملی میں مسلمانوں کو لگائے گئے ہیں۔ ملائم سنگھ یادو ایک کالج کا کیا اگر پورے ضلع کا نام بھی بدل کر کسی مسلم ہستی کے نام کردیں تب بھی ہماری ماں بہنوں کی عصمت دری،گھروں کی آتش زنی، گھر بدری اور قتل و غارت گری کی تلافی ممکن نہیں۔ ملائم سنگھ یادو اور ان کے متوسلین جان لیں کہ دیوبند، سہارنپور، میرٹھ ، مظفرنگر، شاملی اور باغپت کے مسلمانوں کو ان حربوں سے خریدانہیں جاسکتا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ ’جامعہ اسلامیہ للبنات ‘کو صدقات ،زکوٰۃ اور دیگر عطیات کی صورت میں جو اعانتیں ملتی ہیں ، کیا ان میں سے سیاسی اشتہار بازی اوربلا ضرورت تصویریں چھپوانے پر خرچ کاکوئی شرعی جواز ہے؟ یہ صریحاً امانت میں سرقہ ہے۔ اگر مدرسہ کے ارباب حل وعقد شرعی جواز کے بغیر یہ سب کچھ کررہے ہیں تو یہ کیسا جامعہ ’’اسلامیہ ‘‘ہے؟ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164865 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.