کیا اس کو انصاف کہتے ہیں؟

عدلیہ کے اعلا منصبوں پر فائز ہستیوں سے، جو کرپشن مٹانے کے لئے پرعزم ہیں، معذرت کے ساتھ ایک سوال ہے۔ کیا انصاف اسی کو کہتے ہیں جو کانپور کے ایک غریب پوسٹ مین اوماکانت مشرا کو 29سال بعد ملا ہے؟ مشراپر جو گزری اس پر فرقہ پرستی یا ذات پرستی کا لیبل بھی چسپاں نہیں کیاجاسکتا کہ وہ خوداعلا ذات کے ہندو ہیں۔ اس کوہم عدالتی نظام کی بدعنوانی سمجھیں یا حکام کی بے حسی، فرض ناشناسی اور سنگ دلی کہ ایک چھوٹا سا معاملہ اتنے طویل عرصہ تک لٹکا رہا؟

مشرا کی عمر اُس وقت کوئی 34سال تھی۔ وہ کانپور کے ہرجندر نگرڈاکخانہ میں پوسٹ مین تھے۔ ان کوکچھ منی آرڈر تقسیم کرنے کے لئے دئے گئے۔ جو تقسیم نہیں ہوسکے وہ حسب قاعدہ واپس لاکر آفس میں دیدئے ۔ ڈاکخانہ میں جب کیش ملایا گیا تو 57روپیہ 60پیسے کم نکلے۔ جانچ آفیسر (آئی او) اندرکمار نے مشراکو ملزم قراردیا اور کہا کہ انہوں نے منی آرڈر کی رقم میں سے غبن کیا ہے۔ جانچ رپورٹ کی بنیاد پر مسٹر آرڈی پوری نے 13؍جولائی 1984کو سرکاری رقم میں خرد برد کا کیس درج کرادیا ۔ مشرا کو معطل کر دیا گیا۔ممکن ہے یہ معمولی رقم جمع کردینے سے ان کی نوکری بچ جاتی مگر عزت نفس کا کیا ہوتا؟ معاملہ عدالت میں گیا۔ وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے عدالت کا چکر لگاتے رہے ۔ مگر ان 29برسوں میں استغاثہ کی طرف سے نہ کوئی گواہ پیش ہوا، نہ کسی تاریخ پرتفتیش کنندہ افسراندرکمار حاضرہوئے اور نہ شکایت کنندہ مسٹر پوری آئے۔ اس دوران کیس کی فائل درجنوں ججوں کے سامنے آئی۔کسی نے یہ زحمت نہیں کی کہ سماعت مکمل کرکے فیصلہ لکھ دیتا۔ بس تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی ۔مشرا کی قسمت کا ستارہ 348 تاریخیں پڑنے کے بعد چمکا، جب گزشتہ ہفتہ جج نے فائل کو پڑھا اور مشرا کو بے قصور قراردے کر غبن کے الزام سے بری کردیا۔ مشرا اب 63سال کے ہوچکے ہیں۔ تین سال پہلے ریٹائر ہوگئے۔ مگر ساری زندگی چوری کے کلنک کے ساتھ مصیبت میں گزاردی۔ نہ بچوں کی تعلیم وتربیت ہوسکی اور نہ راحت کی سانس آئی۔ اس مفلسی کے عالم میں اس مقدمہ پر کم از کم 17ہزار 4سو روپیہ خرچ کئے۔ان کی یہ الم ناک کہانی ان کے نوجوان وکیل شکیل احمد بندیلوی نے ایک مقامی ٹی وی چینل پر سنائی۔نیشنل میڈیا میں ان کی یہداستان مودی کی ریلیوں، ’لیوان رلیشن ‘ اور ترن تیج پال کی جنس زدگی کی غلاظتوں میں دب کررہ گئی۔

یہ ایک اکلوتی کہانی نہیں ہے۔ایسی ہزاروں کہانیاں مل جائیں گیں۔ اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ کیس پنڈنگ ہیں۔ اکیلے سپریم کورٹ میں یکم نومبر کو 65893کیس زیرالتوا تھے۔مختلف عدالتوں ایسے ہزاروں کیس ہیں جن کو سرسری سماعت کے بعد فارغ کیا جا سکتا ہے۔ مگر فائل پڑھنے میں بہرحال وقت لگتا ہے۔

کچھ اور مثالیں
جموں سے ارن شرما کی ایک رپورٹ 2؍دسمبر کے انڈین ایکسپریس میں شائع ہوئی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے گزشتہ سال قیدیوں کے حملے میں فوت ہوجانے والا پاکستانی شہری ثناء اﷲ جن دھماکوں کے الزام میں سزا کاٹ رہا تھا، وہ دراصل اس دوران پولیس کی تحویل میں تھا جب وہ دھماکے ہوئے تھے۔ثناء اﷲ کو غیر قانونی طور پر ہند میں داخل ہونے کے جرم میں 1989 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ تین سال کی سزا کاٹنے کے بعد پاکستان منتقل کئے جانے کے لئے پولیس کی تحویل میں دیدیا گیاتھا ۔ اسی مدت میں جموں اور نواح میں دس دھماکے ہوئے، جن میں پولیس نے اسی کوملزم بناکر عدالت میں پیش کردیا اور دعوا یہ کیا کہ ملزم نے خود اقبال جرم کرلیا ہے۔ چنانچہ اس کو عمر قید کی سزا ہوگئی۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پولیس کی تحویل میں ’اقبال جرم‘ کس طرح کرایا جاتا ہے۔ مگر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جو شخص برسوں سے جیل میں اور پولیس کی تحویل میں تھا، اس نے دس مقامات پر دھماکے کس طرح کردئے؟ اور عدالت نے اس پہلو پر توجہ کیوں نہیں کرسکی؟

جیل میں 15سال
گواہاٹی کی جیل سے ایک پاکستانی فصیح اﷲ حسینی کو اس کے ملک واپس بھیجنے کے لئے 2دسمبر کو دہلی لایا گیا ہے۔ اس کو سنہ 1999ء میں آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہونے کے شک میں پکڑا گیا تھا۔ ذیلی عدالت نے اس کو ثبوت نہ ہونے کی بنا ء پر بری کردیا۔مگر پولیس نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ۔ اب ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کردی ہے ۔ اس طرح بغیر کسی ثبوت ایک شخص اپنی زندگی کے بیش قیمت 15سال جیل میں کاٹنے پر مجبورہوگیا۔ہماری عدالتیں اس طرح کے معاملات میں کسی خاطی افسر کو سزا نہیں دیتی، کیونکہ ساری پولیس فورس کا ’حوصلہ گرجانے‘ کا ڈر ہوتا ہے۔ حسینی کے بارے میں اب بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کھلی ہوا میں سانس کب لے سکے گا اور وطن واپسی سے قبل کتنے عرصہ اور قیدیوں کی طرح زندگی گزارنی ہوگی۔

علاج کیا ہے؟
یہ چند کیس انصاف میں تاخیر اور پولیس کی دھاندلی کی مثال ہیں۔ اس نظام کی اصلاح کی ضرورت کا اعتراف تو سرکار کو بھی ہے اور سپریم کورٹ کو بھی۔ ضرورت ہے کہ موثر اقدامات کی۔ خاص طور سے ان کیسوں میں جن میں ضمانت بھی ممکن نہیں ہوتی ، سماعت سرعت کے ساتھ پوری ہونی چاہئے تاکہ اگر ملزم بے قصور ہے تو اس کی زندگی کے قیمتی ماہ و سال جیل میں نہ گزر جائیں۔معمولی جرائم کے لئے اگر ریگولر عدالتوں کے پاس وقت کی تنگی ہے توریٹائرڈ ججوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ان کے لئے بعد عدالت کا وقت مقرر کیا جاسکتا ہے۔مقدموں کی اس بھرمار سے پیروکار عاجز رہتے ہیں، جیلوں میں غیر ضروری ہجوم رہتا ہے اور کرپشن پھلتا پھولتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عدالتوں میں بدعنوانی اورلوٹ کھسوٹ دیگر سرکاری محکموں سے کم نہیں۔ عدلیہ کواس کرپشن کی کتنی فکر ہے؟

’لیو ان رلیشن‘یا دوسری شادی
ہندی لغت میں ’ رکھیل ‘ اور’ سرے تِن‘ lqjSfruاس عورت کے لئے آیا ہے جو بغیر باضابطہ شادی بیوی کی طرح رکھ لی جائے۔ اس کو ’اُپ پتنی‘ یعنی ’ضمنی بیوی‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ کسی ہندودھرم شاسترمیں ایک سے زیادہ شادی کی ممانعت نہیں ، بلکہ کثرت ازدواج کی بیشمار روایات موجود ہیں، مگر مغربی ذہنیت زدہ حکام نے جب ہندوکوڈ بل بنایا تو اس میں دوسری بیوی رکھنے کو جرم قرار دیدیا۔ لاء کمیشن نے اپنی رپورٹ نمبر 227( اگست 2009) میں، جس کا مسودہ ڈاکٹر طاہر محمود نے تیار کیا تھا، اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ بعض حالات میں مرد کے لئے دوسری عورت کا رکھناناگزیر ہوتا ہے، اس لئے قانون پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ ہونا یہ چاہئے کہ استثنائی حالات میں قانون دوسری شادی کی اجازت دے۔ مگر اب ہویہ رہا ہے کہ عدالتیں ’رکھیل‘ کو ’لیو ان رلیشن‘ کا نام دے کر جائز قرار دینے پرآمادہ ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں علیحدہ کئے جانے کی صورت میں ایسی عورتوں کی زبوں حالی اوران سے پیداہونے والے بچوں کی کسمپرسی پر تشویش ظاہر کی ہے اور مرکز سے کہا ہے کہ وہ ان کے حقوق کے لئے قانون بنائے۔ مگر کھنڈوا کی ایک عدالت نے اس سے دوقدم آگے بڑھ کر ایک ایسی ہی خاتون کواصلی بیوی کے ساتھ گھر، گرہستی اور شوہر میں برابر کا شریک بنادیا ۔ دونوں ایک ہی گھر میں رہیں گی، مرد 15-15دن دونوں کے پاس رہیگا۔ دونوں کواس کی منقولہ اور غیرم منقولہ املاک میں برابر کا حق ہوگا۔ دونوں کے بچے بھی ترکے میں حصہ دار ہونگے۔ قانون کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگریہ شخص اپنے رسم ورواج کے مطابق یا سول ایکٹ کے تحت اس دوسری عورت سے شادی کرلے، تو سزا کا مستحق قرار پائیگا اور جیل جائیگا۔ ’لیو ان رلیشن ‘کے نام پر کس چیز کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے؟ یہی نہ کہ بغیرجائز شادی جنسی تعلق کو قبولیت بخشی جائے اورازدواجی زندگی کو اسی طرح مسخ کردیا جائے جس طرح مغربی معاشرے میں ہورہا ہے ؟

ہمارا دین اورہمارا ضمیر ایسے ’ضمنی‘ رشتوں کو گمراہی، سخت گناہ اور حرام قراردیتا ہے ۔ ہم ایسی گمراہی سے اﷲ کی پناہ مانگتے ہیں۔ہمارا دین ہی نہیں، تمام مذاہب اور ہمارے ملک میں مروجہ رسم و رواج اوراقداربغیر شادی جنسی رشتوں کو گناہ اور عیب تصورکرتے ہیں۔ کسی عدالت کویہ کہنے کا حق نہیں کہ ایسا رشتہ ’گناہ ‘کے زمرے میں نہیں آتا۔ اخلاقی اقدار اور گناہ و ثواب مروجہ قانون کے دائرے میں نہیں آتے، اس لئے عدالتوں کو ان پر تبصرہ سے گریز کرنا چاہئے۔ بدقسمتی سے ہماری عدلیہ میں جنسی رشتوں میں تقدس کے قدیم نظریہ کے خلاف رجحان پنپ رہا ہے، اسی لئے جسٹس گانگولی جیسے کیس سامنے آرہے ہیں، جن پرایک خاتون وکیل کے جنسی استحصال کا الزام لگا ہے۔یہ وہی جج صاحب ہیں جو ۲۔جی اسپکٹرم کیس کی سماعت کے دوران بہت بلند مورل گراؤنڈ پر نظر آتے تھے اورجنہوں نے تمام لائسنس رد کردئے ،جس سے اس سیکٹر کی افزائش پر منفی اثر پڑا اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ سبرامنیم سوامی، جنہوں نے یہ ہنگامہ کھڑا کیا تھا اب کہہ رہے ہیں کہ جسٹس گانگولی کوچیرمین، انسانی حقوق کمیشن ، مغربی بنگال کے منصب سے استعفا دینے کی ضرورت نہیں۔

اس مسئلہ کا سادہ سا حل یہ ہے سرکار یہ تسلیم کرے کہ ’یک زوجگی ‘ کا اصول ناقص اور ناقابل عمل ہے۔ یہ قانون بے حیائی اور ظلم کے دروازے کھولتا ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی گنجائش ہونی چاہئے۔ البتہ بیویوں کے حقوق انصاف کے ساتھ ادا ہوں۔

مودی اور دفعہ 370
ہندستان کے دستور کے مطابق لوک سبھا میں اکثریت کا لیڈر وزیراعظم اور اسمبلی میں اکثریت کا لیڈر وزیراعلامقرر کیا جاتا ہے۔چنانچہ منتحب ممبران کا ہی یہ آئینی حق ہے کہ وہ وزیراعظم اور وزیر اعلا کا انتخاب کریں۔ لیکن کیونکہ بھاجپا دستوری نظام میں یقین نہیں رکھتی، اس لئے رائے عامہ کو ورغلانے کے لئے وہ چناؤ سے پہلے ہی اپنے وزیراعظم اور وزیراعلاکے امیدوارکا اعلان کردیتی ہے۔ اس مرتبہ اس نے وزیراعظم کے منصب کے لے ایک ایسے شخص کا نام اچھالا ہے جو اچھل کود کے سوااور کچھ نہیں جانتا۔ آئین کی دفعہ 370پر اس کا حالیہ بیان پڑھ کر نریش اگروال کی وہ پھبتی ذہن میں تازہ ہوگئی جو انہوں نے مودی کے ماضی کے حوالے سے کسی تھی۔ مودی کو معلوم ہی نہیں کہ دفعہ 370کیا ہے اور اس کو کیوں ختم نہیں کیا جاسکتا؟اس کو ختم کرنے کا مطلب آئین کی بنیادی ساخت میں تبدیلی ہوگی جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے ممکن نہیں۔ مودی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کشمیر کا باضابطہ ایک معاہدے کے تحت ہند کے ساتھ الحاق ہوا ہے،دیگر دیسی ریاستوں کی طرح انضمام نہیں ہوا ہے۔اس معاہدے کو بدلا نہیں جاسکتا۔ بھاجپا کو ساری تکلیف اس بات کی ہے کہ اس دفعہ کی وجہ سے کشمیر میں دیگر اقوا م کے لوگوں کو لیجاکر نہیں بسایا جاسکتا اور اس طرح اس کی موجودہ اکثریت کو اقلیت کو میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مودی کو یہ بھی معلوم نہیں مرکزمیں این ڈی اے کے برسراقتدار آتے ہی سنگھیوں کے مطالبہ پر ایک کمیشن قائم کیا گیا تھا ،جس کے سپرد آئین میں تبدیلیاں تجویزکرنا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تبدیلیوں کی تجاویز کو مسترد کردیا تھا ،جن کا مطالبہ بھاجپاکرتی رہتی ہے، ان میں دفعہ 370کا کاالعدم کیا جانا بھی شامل تھا۔مودی کے اس بیان پر کشمیر نے ایک آواز ہوکر ان کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وزیراعلا عمر عبدﷲ نے کہا ہے کہ مودی ’یا تو حقائق سے ناواقف ہیں یا جھوٹ بول رہے ہیں۔ ‘ہمارا مشاہدہ ہے کہ مودی میں یہ دونوں صفات موجود ہیں۔ وہ حقائق سے ناواقف ہیں اور غلط بیانی سے کام لینے کے عادی ہیں۔ان کا نظریہ قومی سطح کا نہیں ۔ ان کی تقریروں کامعیار پست ہے اور اس سے قومی سیاست کا وقار گرا ہے۔ جن لوگوں نے ان کو اپنا لیڈر چنا ہے، ان کے بارے میں کیا کہاجائے؟ ان کی پسند بھی دروغ گوئی ،عدم واقفیت اور پست ذہنیت ہی ہے۔ان کو قوم کاوقار نہیں بلکہ اقتدار عزیز ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 165121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.