لکھ پتی مقروض پاکستانی قوم

بےباک صاحب محلے کے چوک میں کھڑئے ہوئے گلوُ حلوائی کی دوکان سےقرض پر لائی ہوئی باسی مٹھائی بانٹ رہے تھے اور جب لوگ اُن سے پوچھتے کہ یہ کس خوشی میں تو فورا خوش ہوکر کہتے لکھ پتی ہوگے لکھ پتی۔ ہمیں شوگر ہے مگر مفت میں مٹھائی مل رہی تھی اس لیے بےباک صاحب سے آگے بڑھکر گلے ملے اور اپنے قومی رہنماؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بےباک صاحب کےسامنے ہاتھ پھیلا دیے، بےباک صاحب نے ہمارئے پھیلے ہوئے ہاتھ میں انکل سام کے انداز میں دو لڈو رکھے اور بولے لکھ پتی بننا مبارک ہو، بدبودار لڈو حلق سے اتارتے ہوئے ہم نے پوچھا کیا مطلب، ہم کیسے لکھ پتی ہوگے؟ تو بے باک صاحب بولے صرف آپ ہی نہیں پوری قوم بلکہ آنے والی نسل تک لکھ پتی ہوگی ہے۔ محلے میں رہنے والے سقراط صاحب جو اپنے لڈوُ کھاکر مزید کےلیے ہاتھ پھیلائے کھڑئے تھے خوش ہوکر لڈوں کےلیے ہاتھ پھیلائی آتی ہوئی تانیہ صاحبہ سے کہنے لگے مبارک ہوتانیہ جی ہماری پوری قوم لکھ پتی ہوگی ہے۔ تانیہ جی ذرا چونکی اور بےباک صاحب سے سوال کیا کہ آپکو کیسے پتہ چلا کہ ہم لکھ پتی ہوگئے ہیں؟ پہلے تو بےباک صاحب نے انکل سام کے انداز میں سقراط اور تانیہ جی کو لڈو دیئے اور بولے کیا آپ لوگ اخبار نہیں پڑھتے، ارئے اخبار میں صاف صاف لکھا ہے کہ ستمبر 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پاکستانی مجموعی طور پر 96422 روپے کا مقروض ہوچکا تھا تو لازمی ابتک لاکھ کا مقروض تو ہوگیا ہوگا تو ہوئے نہ لکھ پتی، اب یہ بات اور ہے کہ مقروض لکھ پتی۔

پاکستان میں کرپشن کا دور دورہ ہے، خصوصاً پاکستانی سیاست تو سرتاپا اس غلاظت میں لتھڑی ہوئی ہے۔ جو بھی حکمران آتا ہے وہ مختلف خفیہ و عیاں طریقے اختیار کرکے قومی خزانہ لوٹتا اور لوٹی ہوئی دولت اپنے اکائونٹس میں جمع کرا دیتا ہے۔ بینک بھی تعلقات اور اثرورسوخ دیکھ کر طبقہ بالا کو قرضے دیتے ہیں۔ قرضے لینے والے رقم کھاتے یا باہر لے جاتے ہیں اور انھیں واپس کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ یوں تو کرپشن پاکستان بننے کے فورا بعد ہی شروع ہوگیا تھا مگر 1988ء کے بعد سیاست دانوں اور افسرشاہی کا یہ وطیرہ بن گیا کہ بھاری بھاری رشوتیں لو اور انھیں ذاتی اکائونٹس میں جمع کرا دو۔ ایک اندازے کے مطابق 1988ء کے بعد سےابتک پاکستان کا قومی خزانہ کرپشن کی وجہ سے ساٹھ تا سو ارب ڈالر (54کھرب 60 ارب روپے تا 90 کھرب 10 ارب روپے) سے محروم ہوگیا۔ 1988ء سے پاکستان پر دو خاندان یعنی بھٹو اور شریف خاندان حکمرانی کرتے رہے۔ جہاں تک قومی معیشت کی تباہی کا معاملہ ہے، ان میں زیادہ فرق نہیں۔ درمیان میں مشرف حکومت بھی آئی کرپشن جب بھی تھی مگر بھٹو اور شریف خاندان کی طرح نہیں۔ جنرل مشرف پر آپ بہت سارئے الزامات لگاسکتے ہیں مگر معاشی کرپشن میں بھٹو اور شریف خاندان بہت آگے ہیں۔

بینظیر بھٹو نے پہلی بار 1988ء میں اقتدار سنبھالا۔ 1990ء میں کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات پر ان کی حکومت ختم ہوئی۔ 1993ء میں پھر حکومت میں آئیں۔ 1996ء میں کرپشن کے مزید الزامات نے دوبارہ ان کی حکومت برطرف کرا دی۔ دونوں ادوار دیکھے جائیں تو بینظیر بھٹو اور آصف زرداری اس وقت کرپشن میں دھنس چکے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کنیڈا کی حکومت نے صرف اس بنیاد پر بینظیر بھٹو کو کنیڈا کا ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا کہ ان پر سوئس عدالتوں میں کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔ آصف زرداری پرسوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا ، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے، برطانیہ میں راک وڈ سٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ اور اسپین میں آئیل فار فوڈ سکینڈل سمیت متعدد الزام لگاے گے۔ یہ بھی الزام لگا کہ آصف زرداری نے حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں کئی ہزار ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی خریدی، چھ شوگر ملوں میں حصص لیے۔ برطانیہ میں نو، امریکہ میں نو، بلمیا اور فرانس میں دو دو اور دوبئی میں کئی پروجیکٹس میں مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی۔ جبکہ اپنی پراسرار دولت کو چھپانے کے لئے سمندر پار کوئی چوبیس فرنٹ کمپنیاں تشکیل دیں۔

جنرل ضیا الحق نے 1980ء میں شریف خاندان کو ان کا ادارہ، اتفاق برادرز واپس لوٹا دیا۔ بعدازاں نواز شریف جرنیلوں سے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ چنانچہ جلد ہی وہ پنجاب کے وزیرِخزانہ بن گئے۔ انھوں نے سیاسی کامیابیاں تیزی سے حاصل کیں اور 1985ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ بعدازاں 1990ء میں وزیراعظم بنے۔ 1980ء سے 1990ء تک نوازشریف خصوصاً پنجاب میں سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ شروع میں’’اتفاق برادرز‘‘ محض ایک فائونڈری کا مالک تھا۔ لیکن اگلے دس برس میں یہ ادارہ تیس کمپنیوں کا مالک بن گیا۔ یہ کمپنیاں اسٹیل، چینی، کاغذ اور ٹیکسٹائیل سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی مجموعی آمدن 400ملین ڈالر (36 ارب 40 کروڑ روپے) سالانہ تک پہنچ گئی۔ پاکستان میں یہ دستور ہے کہ جو اقتدار تک پہنچے، وہ پھر جو چاہے کر سکتا ہے۔ بینظیر و زرداری کے مانند شریف خاندان نے بھی بیرون ممالک (آف شور) کمپنیاں کھولیں۔ انہی بیرونی کمپنیوں کی مدد سے شریف خاندان نے پھر پارک لین، لندن میں چار عالی شان فلیٹ خریدے جو مختلف ادوار میں ان کے زیرِاستعمال رہے۔ نوازشریف حکومت کے دونوں ادوار میں کرپٹ پاکستانی امرا وسیع پیمانے پر بینکوں سے قرضے لیتے رہے۔ دوسری طرف ٹیکسوں کی رقم چوری کرنا ان کا وطیرہ رہا۔1993ء میں جب نوازشریف کی پہلی حکومت ختم ہوئی، تو اتفاق گروپ دیوالیہ ہوگیا۔ اس وقت گروپ کی صرف تین کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔ بقیہ کمپنیوں پر تقریبا ساڑھے ساتھ ارب روپے کا قرضہ چڑھ چکا تھا۔ 1999ء میں جب مشرف حکومت نے نادہندگان کی فہرست شائع کی، تو انھوں نے چارارب ڈالر (364ارب روپے) میں سے تین ارب ڈالر (273 ارب روپے) بینکوں کے لوٹانے تھے۔ فہرست کی رو سے شریف خاندان 60 ملین ڈالر (پانچ ارب 46 کروڑ روپے) کا نادہندہ تھا۔

موجودہ نواز شریف کی حکومت کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران 1128ارب تک اضافہ ہوگیا ہے۔ شاید یہ اعداد و شمار اب تک دگنے ہو چکے ہوں لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سرکاری قرضے اور واجبات جون 2013 کے آخر تک 16228 ارب روپے تھے جو ستمبر2013ء میں بڑھ کر 17356 ارب روپے تک جا پہنچے۔ ستمبر2013ء کے اعداد و شمار کی روشنی میں اس مدت تک ہر پاکستانی مجموعی طور پر 96422 روپے کا مقروض ہوچکا ہے جبکہ2008ء میں ہر پاکستانی شہری 37172 روپے کا مقروض تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک اس رقم میں 59250 روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ 2012ء میں ہر پاکستانی شہری پر یہ بوجھ تقریباً 80 ہزار روپے کے لگ بھگ تھا۔ یکم جولائی 2013ء سے ستمبر2013ء تک مقامی سطح پر قرضے اور واجبات بڑھ کر 656 ارب روپے تک بڑھ گئے جس کا روپے کی بے قدری سے کوئی تعلق نہیں۔ زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات تو یہ ہے کہ جون 2013ء میں اسٹیٹ بینک میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر 01.11 ارب ڈالرز تھے جو اب کم ہو کر 04.3 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر میں 8 ارب ڈالرز کی کمی واقع ہوئی ہے۔ نواز شریف حکومت کے اقتصادی جادوگروں کے پاس سوائے پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ یا اب نوجوانوں کو قرض دینے کے علاوہ کوئی اسکیم نہیں ۔ مندرجہ بالا اعدادوشمار دیکھ کر لگتا ہے کہ کرپشن جاری ہے یہ بات اور ہے کہ غریب آدمی کا اب جینا مشکل ہوگیا ہے۔

بےباک جی آج تو آپ ہمیں گلوُ حلوائی کی دوکان سےقرض پر لائی ہوئی باسی مٹھائی کھلاکر یہ بتا رہے ہیں کہ ہم "لکھ پتی مقروض پاکستانی قوم" ہیں، مگر ایک بات یاد رکھیں کہ اس باسی مٹھائی سے اس قوم کی صحت ہی خراب نہیں ہورہی بلکہ اُس کا دماغ بھی خراب ہورہا ہے، بس دعا کریں کہ حکمراں اب بھی سنھبل جاِیں تو اچھا ہوگا ورنہ تاریخ بتاتی ہے کہ پھر حکمرانوں کا گریبان ہوتا ہے اور عوام کا ہاتھ اور اُس وقت ان کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 447877 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More