قائد ملت کشمیر ریئس الاحرار چوہدری غلام عباسؒ

(ڈائیلاگ / سردار محمد طاہر تبسم)

ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس ریاست جموں و کشمیر کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں سر فہرست ہیں جنہیں بانی پاکستان حضرت قائد اعطم نے اپنی زندگی میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔جموں و کشمیر میں مسلمانوں نے ڈوگرہ استبداد کے ظلم و بے رحمی سے نجات حاصل کرنے کیلئے جتنی آئینی جدوجہد ،سیاسی کوششیں اور اجتماعی قربانیاں دیں اس نصف صدی کی جدوجہد میں اسکی قیادت و سیادت چوہدری غلام عباس نے کی۔ انکی ساری زندگی اور صلاحتیں جہد مسلسل سے عبارت ہیں۔ ریاستی عوام کو جھنجوڑ کر جگانے اور تحریک آزادی کے ساتھ جوڑنے میں انہو ں نے طویل صبر آزما اور مسلسل کاوشیں کیں۔انہوں نے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی اولین نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی بنیاد رکھی بلکہ اس پلیٹ فارم سے کشمیری عوام کو آزادی کشمیر اور الحاق پاکستان کا ایسا لافانی فلسفہ بھی دید کہ اہل کشمیر کی غالب اکثریت اس وقت بھی نظریہ الحاق پاکستان کو اپنی مقصد زندگی اور ایمان کا حصہ سمجھتی ہے۔ڈوگرہ مہاراجہ ھری سنگھ کے کے دور میں بے پناہ ظلم و جبر،قتل عام اور نہایت کٹھن حالت میں مسلم کانفرنس کا پتھر مسجد سرنگر میں 17-15اکتوبر1932میں قیام اس صدی کا بڑا معجزہ تھا۔ جس میں ریئس الاحرار کا کردار لافانی تھا۔پھر قیام پاکستان سے قبل 18جولائی 1947ء کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ واقع آبی گزر سری نگر میں مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کے اجلاس میں تاریخی قرار دادالحاق پاکستان کی منظوری ریاست کے تاریخ کے تابناک اور سنہر باب ہیں ۔جس نے اہل کشمیر نے پاکستان کے ساتھ ایسا دائمی اور انمٹ رشتہ جوڑا جو اپنوں اور بیگانوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود اسی قوت اور عقیدت کے ساتھ قائم و دائم ہے اور اس رشتے میں مسلم کانفرنس اور اسکی قیادت نے نامساعد حالات میں بھی کوئی دراڑ نہیں پڑنے دی بلکہ حکومتوں اور حکمرانوں کی من پسند پالیسیوں اور مصلحتوں کے باوجود یہ تعلق مضبوط ہے اور اس جدوجہد میں ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس ،غازی ملت سردار محمد ابراہیم اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی طویل جدوجہد اور بے پناہ خدمات ناقابل فراموش ہیں۔سردار عبدالقیوم خان کے الہامی نعرے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ نے اس تعلق کو مزید استحکام دینے میں بڑا کردار ادا کیا اور اہل کشمیر کے دلوں سے پاکستان کے ساتھ محبت ،عقیدت اور نظریاتی تعلق کو بے پناہ تقویت پہنچائی۔اب بھی انکے جانشین اسی مقصد حیات کیلئے ہم تن مصروف عمل ہیں۔ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس نے دوران طالب علمی جموں میں 1922ء ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی جس میں اکثریت مسلمان طلباء کی تھی۔عوام میں جذبہ آزادی سیاسی شعور اور عوامی اتفاق و اتحاد پیدا کرنے میں اس تنظیم نے بڑا کردار ادا کیا۔انہوں نے 1925ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور 1931ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ انکے اجتماعات میں بابائے اردو مولوی فضل الحق ،نواب بہادر یار جنگ اور مولانا غلام بھیگ نیرنگ بھی آتے رہے۔اپنی کتاب کشمکش میں چوہدری غلام عباس رقمطراز ہیں۔’’ریاست کا مسلمان اخلاقی،ذہنی،معاشرتی،مذہبی اور اقتصادی طور پر قریباََناکارہ اور عضو معطل بن چکا تھا۔ صداقت،شرافت،جرات ودلیری،حق گوئی و بے باکی،باہمی اخوت،اتفاق و اشتراکت کے تمام خصائص انسانی ایک ایک کرکے قدرت نے چھین لیئے تھے کیونکہ وہ مجبوری اور ناکامی پر حوز قائم ہو چکا تھا اور بجاے اس کے کہ وہ غلامی کی زنگ آلود اور کڑی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتا‘‘1930ء میں ریاست کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور وہ میدان کارزار میں کودنے اور آزادی کا نعرہ مستانہ بلند کرکے موت کے ساتھ کھیل جانے پر آمادہ ہو گئے تھے۔آگ کی چنگاریاں جا بجابکھر چکی تھیں اور شعلہ جوالا بننے کی منتظر تھی کہ 13جولائی1931ء میں سنٹرل جیل سری نگر میں نہتے مسلمانوں پر بے جا گولی چلا دی گئی جس میں 17مسلمان شہید ہو گئے۔عبدالقدیر خان کی تاریخی تقریر نے مسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ ریئس الاحرار اور شیخ عبداﷲ کو گرفتار کرلیا گیا۔ جب وہ فروری 1935ء میں رہا ہوئے تو مسلم کانفرنس دم توڑ رہی تھی۔انہوں نے اسے دوبارہ منظم و متحرک کیا اور 1935ء میں مسلم کانفرنس کے سالانہ کنونشن میں انہیں صدر منتخب کیا گیا۔ اس اجلاس سے مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور حکومتی ایوانوں میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی دھاک بیٹھ گئی۔حضرت قائد اعظم جب 1936ء میں کشمیر آئے تو انہوں نے وادی اور جموں اور پونچھ کے دورے کئے۔مسلم کانفرنس نے انکے اعزاز میں استقبالیہ کا اہتمام کیا۔شیخ عبداﷲ کے تیور بدل چکے تھے اور انہوں نے نیشنل کانفرنس کے قیام کی کوششوں کا آغاز شروع کردیا تھا۔1943ء میں مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں تحریک حریت کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس اجلاس میں پاکستان زندہ باد اور قائد اعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بھی بلند ہوے ۔میر واعظ مولانا یوسف شاہ کے مسلم کانفرنس میں متحرک ہونے سے اسکو بڑی تقویت ملی۔حضرت قائد اعظم 1944ء میں مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں تشریف لائے جس سے ریاست بھر کے مسلمان متحد ہوئے اور انہوں نے آزادی حاصل کرنے کا عزم مصمم کرلیا ۔ حضرت قائد اعظم نے ڈھائی ماہ قیام کے دوران مسلم کانفرنس کو کشمیر میں مسلم لیگ کا متبادل بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

ریئس الاحرار چوہدری غلام یباس نے قیام پاکستان کی تحریک میں بھی بھرپور عملی کردار ادا کیا۔ انہوں نے مسلم کانفرنس اور کشمیری عوام کی ہر موڑ پر رہنمائی کی اور انکی جدوجہد اور کوششوں سے آزای کشمیر کو تقویت ملی اور آزاد کشمیر کا یہ خطہ 18ماہ کی عملی جہاد کے نتیجہ میں آزاد ہوا اور 24اکتوبر1947ء کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں انقلابی حکومت قائم ہوئی جس نے اس آزاد خطے کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ فروری1948ء میں ریئس الاحرارجیل سے رہائی کے بعد جب سیالکوٹ کے راستے پاکستان آئے تو انکا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اسکے بعدوہ کراچی گئے اور گورنر جنرل حضرت قائد اعظم سے تفصیلی ملاقات کی۔ انہیں اپریل1948ء میں حکومت آزاد کشمیر کا نگران اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ریئس الاحرار کو کشمیر ریفیو جی ریلیف کمیٹی کا چیئرمیں بنایا جس میں تمام صوبائی وزراء اعلیٰ بطور رکن شامل تھے۔کشمیر مہاجرین کی بحالی کے سلسلے میں ریئس الاحرار نے بے پناہ کوششیں کیں اور انہیں زمینیں ،مکانات الاٹ کئے گئے چوہدری غلام عباس نے اپنی موجودگی میں 1956میں مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس منعقدہ مظفر آباد میں غازی ملت کو مسلم کانفرنس کا صدر اور مجاہد اول کو حکومت آزاد کشمیر کا صدر منتخب کرایا۔سردار محمد عبدالقیوم خان اپنی کتاب ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس میں لکھتے ہیں کہ ’’ریئس الاحرار اور غازی ملت کے درمیان اختلافات وزارت امور کشمیر کی مہربانی سے پیدا ہوئے‘‘چوہدری غلام عباس نے 1958ء میں کشمیر لبریشن موومنٹ(کے ایل ایم) شروع کی وہ متارکہ سرحد کو عبور کرنے کے سفر میں راولپنڈی میں گرفتار ہوئے اور انکے ساتھ ہزاروں کشمیری بھی پورے آزاد کشمیر میں گرفتار ہوئے۔ 1961ء میں مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان مسلم کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے جس میں چوہدری غلام عباس بھی موجود تھے۔ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس نہ صرف ریاست جموں وکشمیربلکہ وہ پاکستان کے اہم قومی رہنماؤں میں شامل تھے۔انکی سیاسی نظریاتی اور فکری محاذپر موثر کاوشیں تاریخ کشمیر کا زریں باب ہیں ۔وہ18دسمبر1967ء میں انتقال کرگئے انہیں فیض آباد راولپنڈی میں دفن کیا گیا جہاں انکا مزار اہل کشمیر کیلئے آزادی کشمیر اور الحاق پاکستان کی علامت سمجھا جاتا ہے۔انکی سالانہ برسی کی تقریب 18دسمبر کو امسال بھی پورے تزک و احتشام اور عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ حکومت آزاد کشمیر نے انکی برسی کو سرکاری طور پر منانے کا احسن فیصلہ کیا ہے۔مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان نے ریئس الاحرار چوہدری غلام عباس کی برسی شایان شان طریقے سے منانے کیلئے مختلف کمیٹیاں قائم کی ہیں جو اس اہم قومی پروگرام کو کامیاب بنانے کیلئے رات دن کوشاں ہیں ۔سردار عتیق احمد خان ریئس الاحرار کی سوچ و فکر ،جذبے اور نظریے کے فروغ کیلئے ہم تن مصروف عمل نظر آتے ہیں انہوں نے 19جولائی2009ء کو میرپور میں مسلم کانفرنس کے اجلاس میں قرار داد تجدید الحاق پاکستان منظور کرائی جس سے کشمیری عوام میں نیا عزم حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یک جہتی میں اضافہ ہو۔

موجودہ وقت میں مسلم کانفرنس اور اس کے نظریات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کشمیر ی عوام کو حق خود ارادیت مل سکے جس کا وعدہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے کر رکھا ہے۔ہم خیال جماعتوں کو اپنی سیاست سے بالاتر ہو کر اس سلسلے میں متحد ہو کر کوششیں کرنی چاہیے تاکہ کشمیر کے دونوں اطراف کے درمیان حائل خونی لیکر ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکے۔
 

S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 106886 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More