نواز۔۔۔۔۔ساڈا شیر ہے

نواز ۔۔۔۔۔ ساڈا شیر ہے۔باقی ہیر پھیر ہے۔ الیکشن کے دنوں میں جب یہ نعرہ لگتا تھا۔ تو میاں برادران کے سینے خوشی سے پھول جاتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نواز گروپ نے شیر کا انتخابی نشان پسند کیا تھا۔ شیر کے نشان نے کام دکھا دیا اور میاں نواز شریف کی پارٹی کامیاب ہوگئی۔ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔ اس لئے بادشاہت کا خواب شیر والی پارٹی بھی دیکھنے لگے۔ تو یہ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ لیکن جب ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پارٹی رہنما خود کو واقعی شیر سمجھنے لگے تھے تو اچانک شیر کو مشکل پڑ گئی۔ تخت و تاج تو گیا سو گیا جان کے لالے پڑ گئے۔ ایسے وقت میں بکری تو کیا چوہا بننا پڑے تو وہ بھی قابل قبول ہوتا ہے۔ سو جان ہے تو جہاں ہے کے مصداق پہلے جان بچانا ضروری ٹہرا۔ لیکن خوئے سلطانی آسانی سے نہیں جاتی ہے۔ شہزادوں کے شوق بھی شاہانہ ہوتے ہیں۔ شیر سے الفت ہی تھی ۔ جو وزیر اعلیٰ پنجاب کے صاحبزادے نے سائبیریا کے برفزاروں میں پایا جانے والا شیر منگوایا۔

برفزار ماحول میں پرورش پانے والے شیر کو تو وہی ماحول چاہئے۔ لاہور کی گرمی اس شیر کی برداشت سے باہر ہے۔ اس لئے اس شیر کو شریف خاندان کے رائے ونڈ فارم پر بجلی سے ٹھنڈا رکھے جانے والے ایک خصوصی احاطے میں رکھا گیا ۔ جب پورے ملک میں بجلی کی ہا ہا کار مچی ہو تو ایک شیر بچے کے لئے برف والا ماحول پیدا کرنے پر کتنی بجلی خرچ ہوگی۔ یوں بھی شوق دا کوئی مول نہیں ہوتا۔ لیکن مشکل یہ آن پڑی کہ شیر کی درآمد کی خبر میڈیا والوں کے ہاتھ لگ گئی۔ ذرائع ابلاغ میں ایک شور مچ گیا۔ کیونکہ اس نایاب شیر کو ایئر کنڈیشن پنجرے میں رکھا جاتا تھا۔ پاکستان میں اس وقت زبردست گرمی پڑ رہی ہے اور اس گرمی میں ملک بجلی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے میٹر اور ایئر کنڈیشن پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جب یہ خبر شائع ہوئی کہ اس احاطے کو مقامی طور پر بجلی سے ٹھنڈا رکھا جاتا ہے تو ملکی اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں شدید تنقید شروع ہو گئی۔ بجلی کے اس شدید بحران میں جب شہروں میں دس سے بارہ گھنٹے کی روزانہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ تو ایک شیر بچے کے لئے یہ عیاشی کیوں۔ اس تنقید کے پیش نظر یہ حکم دیا گیا کہ اس شیر کو فوری طور پر حکام کے حوالے کر دیا جائے۔

جنگلی حیات کے عالمی ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ شریف خاندان اب اس شیر کو رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ والے کہتے ہیں اس شیر کو صوبے سرحد کی حکومت کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں کہ کیوں صوبے سرحد کی حکومت کا انتخاب کیا گیا تاہم ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سرحد میں موسم پنجاب کی نسبت ٹھنڈا رہتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مادہ شیر ہے۔ اور شریف خاندان اس کے بچے کھلانا چاہتا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے سرحد والوں سے کہا کہ وہ ایک شیر دے دیں۔ تاکہ وہ اس شیرنی کے بچے دیکھ سکیں۔ سرحد والوں کا کہنا ہے کہ بھائی شیرنی ادھر بھیج دو۔ اس لئے یہ شیر وہاں بھیجا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ وزارت ماحولیات نے ایسے جانوروں کی برآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ لیکن یہ پابندیاں تو ہما سما کے لئے ہوتی ہیں۔ ہمارے حکمران بھی عجیب ہیں۔ کسی کو گھوڑے پالنے کا شوق ہے تو کسی کو کتے پالنے کا اور کسی کو شیر پالنے کا۔۔۔۔۔۔عوام کو پالنے کا کسی کو خیال نہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387542 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More