بھارت میں ایٹمی دھماکوں کا جنون

بھارت میں دفاعی تحقیق و ترقی کے ادارے ڈی آر ڈی او کے سینیئر سائنسدان کے سنتھانم نے۱۱ برس بعد دنیا کو یہ کہہ کر حیران کردیا ہے کہ بھارت نے مئی انیس سو اٹھانوے میں پوکھران میں جو جوہری آزمائشی دھماکے کیے گئے تھے، وہ حکومتی دعوؤں کے بر عکس پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے دفاعی جوہری پروگرام کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کو مزید آزمائشی دھماکے کرنے کی ضرورت ہے۔ سنتھانم آزمائشی جوہری دھماکوں کے وقت پوکھران میں موجود تھے۔ اور اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے جوہری دھماکے کئے تھے۔ اب ان کا دعویٰ ہے کہ ’ تھرمونیوکلیر ’ یا ہا ئیڈروجن بم کے دھماکوں کی شدت سائنسدانوں کی توقعات سے کہیں کم تھی۔ ۰۹۹۱ میں ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور انہیں دھماکوں کے بعد پاکستان میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی زبردست بین الاقوامی دباؤ کے باوجود جوابی آزمائشی دھماکے کیے تھے۔ جوہری دھماکوں کی آزمائش کے وقت پوکھرن میں سابق صدر اے پی جے عبدالکلام اور اس وقت کے قومی سلامتی کے صلاح کار برجیش مشرا بھی موجود تھے۔ لیکن برجیش مشرا نے کے سنتھانم کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیسٹ پوری طرح کامیاب رہا تھا اور ایٹمی سائنسدان عبدالکلام نے اس کی تصدیق بھی کی تھی۔ اسی نوعیت کے دعوے اس وقت غیر ملکی اداروں نے بھی کیے تھے جو اپنے انتہائی حساس آلات سے زیر زمین دھماکوں کی شدت کافی باریکی سے ناپنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ آلات زلزلوں کی شدت ناپنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

کے سنتھانم نے یہ دعویٰ ایسے وقت کیا ہے جب بھارت اپنے جوہری پروگرام کو وسعت دینے میں مصروف ہے اور اس نے حال ہی میں امریکہ، فرانس، اور روس سے اس سلسلے میں نئے معاہدات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت نے ابھی تک سی ٹی بی ٹی کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ بھارتی سائنسدان کے اس دعوے نے دنیا کو جہاں حیران کیا ہے وہاں بھارت میں بھی ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ سینئر جوہری سائنسدان آر آر سبرامنیم نے کے سنتھانم کے دعوی کو قابل یقین کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنتھانم کو حقیقت کا علم ہوگا کیونکہ وہ اس پورے عمل میں شامل تھے اور ٹیسٹ کے وقت وہاں موجود تھے۔ ’انہی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے جوہری سائنسدان گوپال کرشنا نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اس وقت بھی ماہرین کو یہ ماننے میں کافی دشواری ہوئی تھی کہ پہلا ہی آزمائشی دھماکہ چالیس کلوٹن کا تھا۔ ’ اس وقت بھی کہا گیا تھا کہ ٹیسٹ اگر اتنا کامیاب رہا ہے تو یہ ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔ بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمیرل سریش مہتا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ بھارت کے پاس بھرپور دفاعی جوہری صلاحیت موجود ہے اور یہ کہ پوکھران دھماکے پوری طرح کامیاب تھے۔

پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نئے سرے سے ایٹمی دھماکے کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے راہ ہموار کررہا ہے۔ پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا کہنا ہے کہ بھارت اگر ایٹمی دھماکے کرنا چاہتا ہے تو اسے ایسا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ بھارت کی حکومت ملکی مفاد میں فیصلے کرتی ہے۔ ایک امریکی ماہر کا کہنا ہے کہ جب آپ اپنی سابقہ غلطیوں کی بنیاد پر نیا منصوبہ بناتے ہیں تو آپ نئے سرے سے تجربہ کرنے کے لئے پاگل ہوجاتے ہیں۔ اور بھارت یہی کر رہا ہے۔ سنتھانم کے بیان سے آزمائشی دھماکوں کی کامیابی پر بحث دوبارہ شروع ہوگئی ہے کیونکہ حکومت یہ دعوے کرتی رہی ہے کہ اب اسے مزید جوہری آزمائشی دھماکے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کا براہ راست تعلق اس بات سے بھی ہے کہ آیا حکومت کو آزمائشی دھماکوں پر پابندی کے معاہدے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے چاہئیں یا نہیں۔

حکومتی سائنسدانوں کا دعوی تھا کہ آزمائشی دھماکے کی شدت پینتالیس کلوٹن تھی لیکن سنتھانم اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ یہ دھماکہ بیس کلو ٹن سے زیادہ نہیں تھا۔ہندوستان نے پوکھرن میں گیارہ اور تیرہ مئی انیس سو اٹھانوے کو پانچ جوہری آزمائشی دھماکے کیے تھے اور اس پورے عمل کی ذمہ داری ڈی آر ڈی او نے سنبھالی تھی۔ ان دھماکوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے خلاف عالمی برادری نے تعزیری پابندیاں عائد کر دی تھیں جو کئی برسوں تک جاری رہیں۔

بھارت خطے میں سیاسی بالادستی کے لئے جوہری تجربات کر تا رہا ہے۔ حال ہی میں ہندوستان نے اپنی ٹیکنالوجی سے بنی ہوئی پہلی جوہری آبدوز سمندر میں اتاری ہے۔ یہ آبدوز جوہری میزائلوں سے لیس ہے اور سمندر کی گہرائیوں سے اپنے ہدف پر نشانہ لینے کی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔ ’اریہنت‘ نامی یہ آبدوز ایٹمی ری ایکٹر سے چلتی ہے اور اس کی سمندر کی سطح سے زیر آب جانے کی رفتار بہت تیز ہے۔

اریہنت آبدوز تقریباً دو برس تک مختلف تجرباتی مراحل سے گزرے گی اور اسے باضابطہ طور پر 2011 میں ہندوستانی بحریہ میں شامل کیا جائے گا۔ اسی طرح کی دو مزید جوہری آبدوزیں 2015 تک تیار کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ آبدوز روس کی ’چارلی-1‘ آبدوز کی ساخت پر بنائی گئی ہے اور یہ جوہری میزائل سے حملے کرنے اور جوابی حملے کر سکتی ہے۔ اس کی لمبائی 104 میٹر ہے اوراس کی رفتار پجپن کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس آبدوز سے سو میٹر کی گہرائی سے میزائل فائر کیے جا سکتے ہیں۔ اریہنت پانی کے نیچے سو سے زیا دہ دنوں تک رہ سکتی ہے۔ اسے پیغام سرانی کے لیے بھی پانی کی اوپری سطح نہیں آنا پڑے گا۔ اس پر 80 میگا واٹ کا جوہری ری ایکٹر لگا ہوا ہے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جوہری آبدوزوں کی شمولیت سے خطے میں ہندوستانی بحریہ کی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی۔ ہندوستان بحر ہند میں اپنی بحری طاقت کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بحریہ کی جدید کاری کے عمل میں اس کی نظر روایتی حریف پاکستان پر نہیں بلکہ چین پر ہے۔

بھارت اور روس میں جوہری معاہدہ ہو چکا ہے۔ جس کے تحت روس بھارت کے لیے چار جوہری ری ایکٹرز بنانے میں ہندوستان کی مدد کرےگا۔ روس جنوبی بھارت کے کوڈن کولم میں پہلے ہی سے ایک ہزار میگاواٹ کی وسعت والے ایک ری ایکٹر کو بنانے میں مصروف ہے۔ اس معاہدے پر بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور روسی صدر دیمتری مدیدیو نے دستخط کیے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد بھارت نے پہلے فرانس کے ساتھ اور اب روس کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے معاہدہ کیا ہے۔ اس سمجھوتے سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک پابندیوں کا سامنا کرنے کے بعد بھارت کو امریکہ نے سویلین جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی مہیا کر دی ہے۔ اس معاہدے سے امریکہ کو بھارت کے سویلین جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت کے بدلے امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی اور توانائی کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ امریکی صدر بش اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے معاہدے پر دستخط جولائی دو ہزار پانچ میں کیے تھے جس کے بعد کئی برسوں کے مذاکرات کے بعد واشنگٹن میں دونوں ممالک کے وزراﺀ خارجہ نے گزشتہ ہفتے اس معاہدے کو حتمی شکل دے دی۔ اس معاہدے کے تحت بھارت نے جوہری تجربات کا حق محفوظ رکھا ہے تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں وہ معاہدہ ختم تصور کرے گا۔ لیکن کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سمجھوتے سے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

’اس معاہدے کے تحت بھارت کو جوہری ایندھن فراہم کیا جاسکے گا جو وہ اپنی دفاعی پیداوار کی جانب لگا سکے گا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت یورینیم کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کرسکے گا۔ اگرچہ بھارت میں چند ایسے ریکٹرز ہیں جو سویلین یعنی بجلی کی پیداوار کے لیے ہیں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ یورینیم صرف انہیں ریکٹرز میں استعمال ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بھارت اپنی پیداوار تین، چار اور دس گنا تک بڑھا سکے گا۔ بھارت تین سے تیس جوہری ہتھیار سالانہ تیار کر سکے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی گزشتہ دنوں امریکہ سے اسی قسم کے معاہدے کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ سے کہا کہ وہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان امتیازی سلوک نہ کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ معاہدے کے بعد اب پاکستان کا بھی حق ہے کہ اس طرح کے معاہدے کا مطالبہ کرے۔

موید یوسف امریکہ میں بوسٹن یونیورسٹی میں پڑھانے کے علاوہ کالم نگار بھی ہیں۔ اس معاہدے کو وہ کئی حوالوں سے ایک غیرمعمولی معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل ان رعایات کے ساتھ یہ معاہدہ نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل چین اور روس کو بھی ری پروسیسنگ کی سہولت مہیا نہیں تھی۔‘ صرف اسرائیل، پاکستان اور بھارت اس کیٹگری میں آتے ہیں۔ اسرائیل نے چونکہ جوہری ہتھیاروں کا اعتراف نہیں کیا ہے تو پھر صرف پاکستان اور بھارت ہی دو ایسے ملک رہ جاتے ہیں۔ جب بھارت کو یہ سہولت دی تو پاکستان کو بھی دینی چاہیے۔ بعض مبصرین کے خیال میں بھارت سے اس ڈیل کے ذریعے امریکہ علاقے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا چین اور پاکستان کے درمیان کسی ایسے معاہدے کی وہ شدید مخالفت کرے گا۔ ایسے میں کیا پاکستان کو چین کی جانب دیکھنا چاہیے؟

ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے سلسلے میں کئی اہم سوالات پیدا کر دیے ہیں۔تاہم یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ اس معاہدے کے بعد ہندوستان اور امریکہ کے نئے دفاعی تعلقات کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ آئی اے ای اے ادارے کے ڈائرکٹر جنرل محمد البرداعی کا کہنا ہے ’مجھے لگتا ہے کہ یہ معاہدہ ہندوستان کے لیے، دنیا کے لیے، جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے اور دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے آزادی دلانے کی ہماری کوششوں کے لیے بہت اچھا ہے۔‘

بعض ماہرین کے خیال میں اس معاہدے کے بعد جوہری عدم پھیلاؤ کی مہم کو دھچکہ لگا ہے کیونکہ ہندوستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں لیکن اس نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں اور اس پر سے پابندی بھی ہٹ گئی ہے۔ لندن میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز میں جوہری معاملات کے ماہر مارک فٹڑپیٹرک اس معاہدہ کو جوہری عدم پھیلاؤ کی مہم کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’اس معاہدے سے دوسرے ملکوں کو یہ پیغام جائے گا کہ انڈیا کی ضرورت سے زیادہ حمایت کی جا رہی ہے۔ اس کے بعد پاکستان، ایران اور شمالی کوریا اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے اس معاہدے کا سہارا لیں گے۔ اس کے علاوہ مصر جیسے ممالک مستقبل میں اپنے لیے اس معاہدے کو ایک نمونے کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔‘ یہ امر کافی دلچسپ ہے کہ پینتالیس ملکوں کے جوہری گروپ نے ہند امریکہ معاہدے کو اتفاق رائے سے منظوری دی جب کہ ملک کے اندر سیاسی جماعتوں کے اندر اس معاہدے پر شدید اختلافات ہیں۔ حزب اختلاف کی حماعت بی جے پی نے اسے ’ملک کے اقتدار اعلٰی سے سمجھوتہ ‘ قرار دیا تو وہیں بائیں بازو کی جماعتیں بھی اسے’امریکی سامراجیت کے آگے گھٹنے ٹیکنے‘ کے مترادف بتا رہی ہیں۔

اس معاہدے کے نفاذ سے آئندہ دس برس میں جوہری ری ایکٹروں سے تیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ جوہری توانائی کے محکمے مطابق سنہ 2050 تک ایٹمی ری ایکٹروں سے دو لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے۔ طویل مدتی منصوبے کے تحت اس صدی کے وسط تک ہندوستان کی بجلی کی ضروریات کا 26 فیصد جوہری ٹیکنالوجی سے پورا کیا جائے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ ہندوستان میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی طرف پہلا اہم قدم ہے۔ بھارت میں اس وقت پندرہ ایٹمی ری ایکٹر موجود ہیں لیکن یورینیم کی کمی کے سبب ان سے دو ہزار میگا واٹ سے بھی کم بجلی پیدا ہو پا رہی ہے۔ اس معاہدے کے نفاذ سے آئندہ دس برس میں جوہری ری ایکٹروں سے تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدہ کی جا سکے گی ہندوستان تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس کی مجموعی داخلی پیداوار صرف پانچ برس میں دوگنی ہوگئی ہے لیکن سڑکوں، جدید بندرگاہوں، سٹوریج اور سب سے اہم بجلی کی کمی کے سبب اس ترقی کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے۔ چین اگر آج ہندوستان سے برسوں آگے چل رہا ہے تو صرف اس لیے کہ اس نے ترقی کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل آج سے تیس برس پہلے شروع کر دیا تھا۔ اور وہاں جو منصوبے بنائے گئے وہ حال کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ مستقبل کے تقاضوں کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں جو جدید ڈھانچے تیار ہو رہے ہیں وہ امریکہ اور یورپ سے برسوں آگے ہیں۔ ہندوستان میں بجلی کی کتنی قلت ہے اس کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مہاراشٹر جیسی ترقی یافتہ صنعتی ریاست میں بھی صنعتوں کے لیے روزانہ کئی گھنٹے بجلی کی سپلا ئی بند کرنی پڑتی ہے۔ کانپور جیسے صنعتی شہر بجلی اور دوسری سہولیات کی کمی کے سبب’تباہ‘ ہوگئے اور نوئیڈا اور غازی آباد جیسے علاقوں میں صنعتی یونٹ چلائے رکھنے کے لیے ہر برس ہزاروں کروڑ روپے جنریٹر ڈیزل پر صرف ہوتے ہیں۔

پاکستان کی جوہری ٹیکنالوجی پر بھارت ہی نہیں امریکہ، اسرائیل اور اسلام دشمن قوتوں کی ایک عرصے سے نظر ہے۔ بھارت کے ایٹمی قوت کے جنون میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ بھارت کو اپنے تمام منصوبوں میں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گوشتہ دنوں اس بارے میں ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس نے پاکستان کو جو غیر مشروط جوہری ٹیکنالوجی کی پیشکش کی ہے اس پر ہم اس کے مشکور ہیں لیکن امریکہ کو چاہیے کہ وہ ہمیں بھی وہی ٹیکنالوجی دے جس کا اس نے بھارت سے معاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پر امن جوہری ٹیکنالوجی رکھنا ہر ملک کا حق ہے اور اس ضمن میں وہ ایران کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے ساتھ ایران کے جاری مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں تاہم ریفرل پالیسی کی حمایت نہیں کرتے۔

پاکستان کے جوہری اثاثوں پر امریکی تشویش اب کوئی نئی بات نہیں رہی۔ پاکستان کے جوہری اثاثوں کی حفاظت کے بارے میں امریکہ کے سرکاری حلقے مسلسل تشویش کا شکار رہے ہیں۔ گو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن نے کہا ہے کہ وہ جوہری اثاثوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی پاکستان کی صلاحیت سے مطمئین ہیں۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو اسلام آباد سے اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ پاکستان کے نیوکلیر ہتھیار شدت پسندوں سے محفوظ ہیں۔ یہ بیانات ایک ایسے وقت پر سامنے آئے تھے جب پاکستان کے صدر آصف زرداری اور انٹیلی جینس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا امریکی صدر باراک اوباما اور دیگر اعلیٰ حکام سے پہلی ملاقات کرنے امریکہ پہنچے تھے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ بھارت اور فرانس کے درمیان ایٹمی تعاون کے معاہدے کے لئے فرانس کا دورہ کرچکے ہیں۔ دونوں ملکوں نے بعض خاص شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اچھا تعاون کی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

بھارت کے برعکس امریکہ اور اقوام متحدہ خطے میں ایران اور شام جیسے ملکوں کا پیچھا کررہا ہے۔ عراق میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا ڈرامہ رچا کر اس ملک پر امریکی قبضے کو بھی ساری دنیا جانتی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایران نے ایک ہزار تین سو کلوگرام یورینیم جمع کر لیا ہے جبکہ شام کے پاس بھی یورینیم کی موجودگی کے آثار پائے گئے ہیں۔ یہ پرپیگنڈہ بھی کیا جارہا ہے کہ ایران کے پاس جتنی مقدار میں یورینیم ہے وہ ایک جوہری بم بنانے کے لیے کافی ہے۔

اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل امریکہ کے ان دعووؤں کی بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ ستمبر 2007 میں اسرائیل نے شام کے جس مقام پر حملہ کرکے اسے تباہ کیا تھا، وہ ایک جوہری ری ایکٹر تھا جس نے ابھی کام کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کے جوہری ادارے آئی اے ای اے کو شام کے الکبیر جوہری مرکز سے یورینیم کے آثار ملے تھے۔ اسرائیل نے شام کے اس جوہری مرکز کو 2007 میں ایک میزائل حملے میں تباہ کر دیا تھا۔ ایران پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی ہدایات کے برعکس یورینیم کی افزودگی جاری رکھے ہوئے ہے۔ سیکورٹی کونسل نے ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کی تمام سرگرمیاں اس وقت تک بند کر دے جب تک جوہری توانائی کے عالمی ادارے ’آئی اے ای اے‘ کے نگران اس کے یورینیم افزودگی کے پروگرام کا معائنہ نہیں کر لیتے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور اس کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ مغربی ممالک اور امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو ہمیشہ تشویش کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔اسرائیل ماضی میں عراق اور شام کی جوہری تنصیبات کو حملے کرکے تباہ کر چکا ہے۔ پاکستان کے جوہری اثاثوں کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جوہری اثاثے مکمل حفاظت میں ہیں اور ان اثاثوں کی حفاظت کے لیے پاکستان کو کسی ملک کے تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ا نہوں نے کہا کہ جو ممالک بھارت کے ساتھ جوہری معاہدےکر رہے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدے کرتے ہوئے اپنا دوہرا معیار ترک کرنا چاہیے۔

پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہمیشہ محفوط ہاتھوں میں رہے ہیں، لیکن ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے پاکستان پر امریکی دباﺅ جاری ہے۔ امریکہ کے اتحادی ملک دنیا میں کسی مسلمان ملک کے پاس ایٹمی قوت نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان دنیا کا واحد مسلمان ملک ہے جس نے یہ طاقت نہ صرف حاصل کرلی ہے بلکہ اس کا مظاہرہ بھی کیا ہے، بھارت کو امریکہ نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں آزادی دے کر خطے میں عدم توازن پیدا کردیا ہے، پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت کو پرامن مقاصد کے لئے استمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید توانائی کے بحران میں مبتلا ہے۔ اگر پاکستان کو بھی ایٹمی بجلی گھر کی سہولت حاصل ہو تو اس کی معاشی مشکلات کم ہوسکتی ہیں، عالمی برادری کو اپنے دوہرے معیارات پر نظر ثانی کرتے ہوئے پاکستان کو بھی وہی سہولتیں دینی چاہئے، جو بھارت کو دی گئی ہیں،
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387558 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More