عبدالقادر ملا کی شہادت

گزشتہ دنوں بنگلہ دیشی شیخ حسینہ کی جانب سے جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما جناب عبدالقادر ملا کو71ء میں پاکستان کی حمائت کی پاداش میں پھانسی دی گئی تو بنگلہ حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی پاکستان میں بھی اگرچہ عوامی سطح پر بہت مظاہرے ہوئے لیکن حکومت کی جانب سے وہ موقف اختیار نہیں کیا گیا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا۔

کیوں کہ عبدالقادرملا کو پھانسی مکتی باہنی کے بھارتی ایجنٹوں کے مقابلے میں لڑنے اورپاکستان کی حمائت پردی گئی تھی اس سلسلے میں اس وقت ایک محب وطن پاکستانی کیلئے تکلیف مزید بڑھ گئی جب امریکہ،برطانیہ ،ترکی،آسٹریلیا اور جرمنی جیسے ممالک کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ،ہومن رائٹس کونسل اورایمنٹسی انٹرنیشنل اور دیگر کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں بنگلہ دیشی حکومت کے نام نہاد ٹربیونل کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے ایسے مقدمات کو عالمی عدالت میں چلانے کا مطالبہ کررہے تھے ایسے میں اگر خاموش تھا تو صرف وہ ملک جس پرعبدالقادر ملا قربان ہورہاتھا اور آخری لمحات میں بھی جس کی یاد اس کے دل میں بسی تھی اور آخری سانسوں میں بھی وہ پاکستان کے ٹوٹنے پر رنجیدہ تھا (یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے حسینہ حکومت 71ء کی جنگ آزادی میں پاکستان کے حامی مزید 152افراد کو سزائے موت سنا چکی ہے) خیر دودن کی خاموشی کے بعد قومی اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے بنگلہ دیش کے اس سیاہ اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ۔جماعت اسلامی کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کی ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے علاوہ سب نے حمائت کی اور65سالہ بزرگ رہنما کو پھانسی دینے پر اپنے جذبات کا کھل کرظہار کیا اس موقع پر وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خا ن نے کہا کہ:

''وہ خود کو ایک مسلمان پہلے اور محب وطن پاکستانی بعد میں کہتے ہیں''

اسی طرح کااظہارِ خیال دیگر ارکان اسمبلی نے بھی کیا جس پر قوم کو کسی حد تک اطمنان ہوا لیکن اس صورتحال میں ایسے نام نہاد دانشوروں کی بھی کمی نہیں جن کو یہ بے ضرر سی قراردادبھی گوارا نہیں اور ارکان اسمبلی کی جانب سے ان الفاظ کی ادائیگی پر تو ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں جن میں اسلامی ذہن کی عکاسی نظرآتی ہے۔نجم سیٹھی بھی ایسی ہی شخصیت ہیں۔نجم سیٹھی کو اس قرارداد اور ارکان اسمبلی کے عبدالقادر ملا کی شہادت پر جذبات پر تکلیف کیوں ہوئی یہ سمجھنے کیلئے پہلے ہم اپنے قارئین کے سامنے ان ''دانشور'' صاحب اور ان کی ''دانشوری'' کامختصر خاکہ پیش کئے دیتے ہیں کہ جناب ایسی شخصیت ہیں کہ اسلامی شعائر داڑھی،روزہ اور پردہ وغیرہ کا مذاق اڑانا جن کا پسندیدہ مشغلہ ہے اگرچہ اس کے علاوہ موصوف گندی نسل کے کتے پالنے اورشراب و شباب کی محفلیں سجانے کے بھی شوقین ہیں لیکن نظریہ پاکستان کی مخالفت اور اپنے مفادات کیلئے گرگٹ کی مانند رنگ بدلنا تو گویا ان کی وجہ شہرت ہے جس کی ایک جھلک ہمیں کبھی ''جناح سے ضیا'' نامی کتاب لکھنے اورکبھی بھارت میں پاکستان مخالف تقریر کے نتیجے میں گرفتاری کی صورت میں نظرآتی ہے موصوف ماضی میں کبھی فاروق لغاری کے در پر جھکے نظرآتے ہیں تو کبھی نوازشریف کے چرنوں میں پڑے نظرآتے ہیں،کبھی پرویزمشرف ان کا آقا و مولیٰ ٹھہرتا ہے تو کبھی زرداری صاحب۔

اب آتے ہیں اس کالم کی طرف جس میں ان کا اسلامی جمہوریہ پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں خبث باطن ایک بار پھر کھل کر سامنے آگیا کالم کا آغاز انہوں نے چوہدری نثار کے ایک بیان سے کیا جس میں انہوں نے خود کو پہلے مسلمان پھر محب وطن پاکستانی کہا تھا موصوف نے چوہدری نثار پر یہ ''الزام'' لگایا کہ وہ ارکان اسمبلی کے اسلامی جذبات کو ابھارنے کا ''جرم'' کرکے قرارداد لانے میں کامیاب ہوئے تاہم انہوں نے ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کا شکریہ اداکرنا ضروری سمجھا گویا کہ ان جماعتوں نے اس قرارداد کی مخالفت کرکے اہم قومی فریضہ سرانجام دیاہو۔اس کےساتھ ہی انہوں نے قوم کو یہ بھاشن بھی دیاکہ دوسرے ممالک کے مسلمان اپنی قومیت کو اسلامی شناخت پر ترجیح دیتے ہیں لہٰذا پاکستانیوں کو بھی ایسا کرنا چاہئے ملاحظہ فرمائیں وہ کیا لکھتے ہیں:

''دنیا کے دیگر خطوں میں رہنے والے مسلمانوں کی سوچ ہم سے مختلف ہے وہ مذہب پر اپنی قومیت کو ترجیح دیتے ہیں سعودی عرب،ایران ،عراق،کویت،فلسطین اور ملائشیا وغیرہ میں رہنے والے مسلمان خود کو پہلے اس ملک کا شہری ظاہر کریں گے اور مسلمان بعد میں اسی طرح انڈیا میں رہنے والے مسلمان بھی خود کو پہلے انڈین اور بعد میں مسلمان ظاہر کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کی سوچ ان سے مختلف کیوں ہے '' اس کیساتھ ہی موصوف کالم نگارنے ظاہرکیاکہ انہیں حال ہی میں ہونے والے اس سروے کے نتائج سے بھی سخت کوفت ہے جس کا ذکر خود اس نے اپنے کالم میں کیا ہے جس کے مطابق جب پاکستانیوں سے پوچھاگیا کہ وہ کون ہیں تو نوجوانوں کی زیادہ ترتعداد نے خود کو مسلمان پہلے اور پاکستانی بعد میں کہا ۔آگے چل کر انہوں نے اپنے اس سوال کا جواب بھی گویا خود ہی دیا جس میں ان کا خبث باطن کھل کرسامنے آگیا فرماتے ہیں: ''اس مسئلے کی جڑیں دراصل تقسیم ہند سے پہلے چلنے والی تحریک پاکستان کے نظریات سے جڑی ہوئی ہیں تحریک پاکستان کے رہنماؤں جن میں محمدعلی جناح بھی شامل تھے،نے جان بوجھ کر اسلامی جذبات کو ابھارا اور مسلمانوں کو اس بات پر قائل کیا کہ ہندواکثریت کے ملک ہندوستان میں ان کے مذہبی تصورات،ثقافت،سیاسی شناخت اور اور معاشی مفادات خطرے میں ہیں اس وقت کے معروضی حالات کے تناظر میں یہ نعرہ کام دے گیا اور مسلمان ایک الگ ریاست کے حصول کیلئے کمربستہ ہوگئے'' اور کالم کے آخر میں سیٹھی صاحب نے چوہدری نثار کے اسلامی خیالات کو پاکستانی مفادات کیلئے خطرہ قراردیدیا ۔قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نجم سیٹھی نے کس طرح کھلے عام دوقومی نظرئیے کا مذاق اڑایا اور بانی پاکستان پر گند اچھالا اب آپ اور میرے لئے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آئین پاکستان کو نہ ماننے کے جرم میں طالبان پر چڑھ دوڑنے والے نظریہ پاکستان کیلئے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کامذاق اڑانے اور بانی پاکستان کی کی لازوال جدوجہد کو کمراہ کن قراردینے والے اس شخص کے بارے کیاردعمل دیتے ہیں۔
قاسم علی
About the Author: قاسم علی Read More Articles by قاسم علی: 119 Articles with 90876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.