مجرم تومجرم رہے گا

آج کل سابق آمرپرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل کے چھ تحت چلنے والے مقدمہ کو موضوع بناکر بہت سے رنگ برنگ طوطے ٹیں ٹیں کررہے ہیں۔میں نے سوچابہتی ٹیں ٹیں میں ہم بھی اپنی مینا کہانی سنا لیتے ہیں۔ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ۔چاہئے کوئی منتخب حکومت گراکر ملک میں مارشل لاء یا ایمرجنسی لگادے یا پھر منتخب حکومت ملک دشمن غدار کو آرمی چیف بنا دے ۔بھئی ہم تو عوام ہیں ہمیں کیا ہمارے منتخب حکمران بیرونی دباؤپر غدار وطن کو چھوڑ دیں یا ہمیں مزید قرض کی لعنت میں ڈبوکر مار ڈالیں ۔کیا ہواجو ہمارے حکمران محب وطن نہیں ہم تو محب وطن عوام ہیں ۔عدلیہ یاحکومت پرویزمشرف کو سزا دے یا جزا ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن ذہن میں بہت سے سوالات اُٹھتے ہیں ۔حالات واقعات کے مطابق لاشوں کے ڈھیر پر کھڑا ہوکر مکے دیکھانے والا اپنے وقت کا مغرور،طاقتور آمراس وقت آئین کے شکنجے میں پوری طرح پھنس چکا ۔اگر حکومت وقت کسی قسم کا دباؤ قبول نہ کرے تو اُس کا بچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آرہا ہے ۔ملک کے منتخب وزیر اعظم کو عہدے سے زبردستی اُتار کر جیل اور پھر جلا وطن کرنے والا آج اپنے آپکو ملک کا وفادار ثابت کرنے کیلئے دل کے عارضے میں مبتلا ہوگیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر میاں نوازشریف اور سابق آرمی چیف ر جنرل پرویزمشرف دونوں ہی ملک کے وفا دار ہیں تو پھر آئین کس نے توڑا ؟جمہوریت کا راگ الاپنے والے بہت سے طوطے آج مشرف ،مشرف الاپ رہے ہیں ۔بندہ پوچھے اگر مشرف اور اُس کی آمریت اس قدر اچھی تھی تو جمہوریت ،جمہوریت کھیلنے کا مقصد کیا ہے؟عدالت فوجی ہو یا سول کیا فرق پڑتا ہے مجرم تو مجرم ہی رہے گاپرویزمشرف کیوں فوجی عدالت میں اپنا مقدمہ لیجانے کی ضد کررہا ہے؟کیا فوجی عدالت کسی غدار کو چھوڑ سکتی ہے؟آئین کے آرٹیکل 6کے تحت آئین کو معطل کرکے مارشل لاء یا ایمرجنسی نافذ کرنا ملک سے غداری اور بغاوت کے ذیل میں آتا ہے۔ر جنرل پرویزمشرف نے یہ جرم کیا ہے اس بات میں کوئی شک باقی نہ ہے اس صوتحال میں حکومت کا اندرونی یا بیرونی دباؤ قبول کرتے ہوئے پرویزمشرف کو دبئی یا کسی دوسرے ملک بھیجنا بھی ملک سے غداری ہی سمجھاجانا چاہئے ۔اگر حکومت وقت یا اعلیٰ عدلیہ کسی قسم کا سمجھوتہ کرتی ہے تو ملک میں چلنے والی جمہوریت اور آئین کی حکمرانی دونوں پر سوالیہ نشان لگ جائیں گے ۔دنیا کی کوئی بھی ریاست غداروں کو معاف نہیں کرتی جس کی مثال بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کی سزائے موت ہے جنہوں نے بنگلہ دیش بنے سے پہلے اپنے وطن پاکستان کے افواج کا ساتھ دیا حالانکہ یہ غداری نہیں ہے پھر بھی بنگلہ دیشی حکومت نے اُن کوغداری اوربغاوت کے جرم میں سزاموت دے دی۔یہاں تو معاملہ ہی صاف ہے پرویزمشرف نے منتخب حکومت پر شب خون مارا اور اُس وزیراعظم کو جلاوطن کیا جسے عوام نے ایک بار پھر اپنے اعتماد سے نواز کر محب وطن ثابت کردیا ہے ۔اگر پرویزمشرف کو آئین کے مطابق سزا نہیں دی جاتی تو اس ملک میں جمہوریت کبھی بھی نہیں چل سکتی ۔یعنی پرویز مشرف کو بیرون ملک منتقل کرکے معاملہ ختم کرنا ملک میں جمہوریت کا بستر ہمیشہ کیلے گول کرنے کی طرف آخری قدم ثابت ہوسکتا ہے ۔چوہدری شجاعت کے مطابق آرمی چیف غدار نہیں ہوسکتا ۔اگر ایسا ہے تو چوہدری صاحب بتا دیں کے آئین کے آرٹیکل چھ کا کیا کیا جائے؟جس کے تحت ملک کے آئین کو معطل کرکے مارشل لا یا ایمرجنسی لگانا غداری اور بغاوت کے ذیل میں آتا ہے ۔چوہدری صاحب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ پرویزمشرف نے ایک سے زیادہ مرتبہ ملکی آئین معطل کیا اور مارشل لا اور ایمرجنسی دونوں نافذ کئے پھر بھی اُسے بے گناہ کہنے کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں چوہدری صاحب بھی اس جرم میں شامل ہیں اور وقت پڑھنے پر اُن کے خلاف بھی اس قسم کا مقدمہ چلنے کا امکان ہوسکتا ہے ۔میں ماہر قانون تو نہیں لیکن ہونا تو یہی چاہئے کہ غدارکے تمام ساتھی بھی غدار سمجھیں جائیں۔لیکن میاں نواز شریف کا غدار مشرف کے ساتھیوں پر نوازشیں کرنا اورصرف مشرف کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کامقدمہ چلانا سمجھ سے بالاتر ہے ۔مشرف دور کے کتنے ہی وزیر آج بھی حکومت میں شامل ہیں جبکہ کئی اپوزیشن میں بیٹھ کر مزے کررہے ہیں ۔راقم کی نہ توپرویز مشرف کے ساتھ کوئی رشتہ داری ہے اور نہ ہی میاں نوزشریف سے اس لئے عوامی حلقوں میں اُٹھنے والے سوالات کو بلا امتیاز پیش کرنے کی جسارت کررہاہوں ۔عوام سمجھتے ہیں کہ پرویزمشرف ہو میاں نوازشریف ہوآصف زرداری یا کوئی اور سب کے ساتھ ملکی آئین اور قانون کے مطابق سلوک ہوچاہئے اور اگر آئین اور قانوں میں کسی قسم کی کمی ہے تو اُسے فوری طور پر دور کیا جانا چاہئے۔یعنی اگر حکومت پرویزمشرف کو آٹیکل 6کے تحت چلنے والے مقدمہ میں رہاکرنے کی کوئی صورت نکالتی ہے تو اُسے بھی آئین میں شامل کردیا جائے تاکہ آئندہ ملکی آئین کو معطل کرکے مارشل لاء یا ایمرجنسی لگانے والے جنرل کو نیا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔سعودی یا کسی دوسرے ملک کی حکومت کے کہنے پر غدار کو رہا کرنے کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ جس نے بھی وطن سے غداری کرنی ہووہ اپنے لئے کسی ایسے ملک کی حمائت کا بندوبست کرلے جو اُسے غداری کے مقدمہ سے چھڑوانے کی طاقت رکھتاہو۔اس طرح بات بالکل صاف ہوجائے گی کہ ملک میں کسی بھی اہم عہدے کیلئے محب وطن ہونے کی بجائے بیرونی حمائت شرط ہوگی ۔
 
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 519602 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.