مذاکرات کی پیشکش پر حکومت سنجیدگی دکھائے

اتوار کی صبح بنوں چھاؤنی میں فورسز کے قافلے میں دھماکے کا سنگین واقعہ پیش آیا، اس حملے میں ایف سی کے 22اہلکار جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جبکہ 30 کے قریب اہلکار بری طرح گھائل ہوئے۔ میڈیا نے ہسپتال ذرائع کے حوالے سے خبردی ہے کہ زخمیوں میں سے 15 اہلکاروں کی حالت تشویش ناک ہے۔ بنوں واقعہ فورسز پر حملے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، پاک فوج کے جوان اور افسر برسوں سے اس نوعیت کے حملوں کی زد میں ہیں۔ دراصل نائن الیون کے بعد اس وقت کے فوجی صدر نے جو حکمت عملی اختیار کی، اس نے پاکستان کو میدان جنگ میں بدل دیا۔ 6 ہزار کے لگ بھگ سیکورٹی اہلکار، 30 ہزار شہری اور مسلح گروپوں کے ہزاروں ارکان اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ اتوار کو بنوں اور پیر کی صبح جی ایچ کیو کے قریب فوجی چوکی پر حملوں جیسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خونریزی کا سلسلہ مزید جاری رہے گا۔

سیاسی، مذہبی اور سماجی حلقوں نے فورسز پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ محب وطن حلقے آگ وخون کے اس کھیل پر انتہائی غم زدہ ہیں۔ اپنے ہی ملک کے شہری اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھالیں، اس پر کون ہوگا جس کے دل میں درد کی ٹیسیں نہ اٹھتی ہوں۔ وزیرداخلہ چودھری نثار کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔ جب جنگ ہورہی ہو تو فورسز پر حملے جیسے واقعات کا خدشہ منڈلاتا رہتا ہے۔ مشرف نے بغیر کسی منصوبہ بندی کے محض امریکی اشارے پر لاکھوں فوجیوں کو قبائلی علاقوں میں پہنچا دیا تھا۔ جو لوگ مشرف کی پالیسیوں کے حامی نہیں تھے، وہ فوج کے مدمقابل آگئے۔ اس سے ایک ایسی جنگ چھڑگئی جو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

کالعدم تحریک طالبان نے بنوں حملے کے فوراً بعد حکومت کو ’’بامقصد مذاکرات‘‘ کی پیشکش کی ہے۔ طالبان ترجمان نے مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے حکومت سے جنگ بندی میں پہل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ فورسز پر حملہ اور اس کے فوراً بعد مذاکرات کی بات بظاہر بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ اس پر بہت سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں۔ بعض لوگ اسے طالبان کی چال قرار دے رہے ہیں مگر عسکری اور سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والوں کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اصل میں جب بھی اس طرح کی لڑائی ہورہی ہوتی ہے، فریقین مذاکرات سے قبل اپنی طاقت شو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے ان کا مقصد مذاکرات کی میز پر زیادہ سے زیادہ فوائد کا حصول ہوتا ہے۔ غالباً طالبان کی حکمت عملی بھی یہی ہے۔ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے قبل حکومت اور عسکری اداروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حملے کے بعد مذاکرات کی پیشکش کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو بات کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔

قارئین کو یاد ہوگا جب حکیم اﷲ محسود کو ڈرون طیاروں نے نشانہ بنایا تو ٹی ٹی پی کے ترجمان نے اپنے نئے امیر ملا فضل اﷲ کی جانب سے یہ واضح کیا تھا کہ اب کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، لیکن اب مذاکرات پر آمادگی سے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان بھی بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ شاید اس پیشکش کے پیچھے ان لوگوں کی کوششیں بھی ہوں جو ڈرون حملے کے بعد طالبان کی نئی قیادت سے کسی نہ کسی طور رابطے میں رہے۔

بنوں اور راولپنڈی حملوں کے بعد مذاکرات کے حامی افراد حکومت پر طالبان سے ڈائیلاگ تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں مگر ایک مخصوص ٹولہ حکومت کو کوئی اور راستہ دکھارہا ہے۔ میڈیا، سیاسی جماعتوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کی صفوں سے تعلق رکھنے والا ایک گروہ مسلسل اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ فوج کو مسلح گروہوں سے زیادہ طاقت سے ٹکرادیا جائے۔ بظاہر تو یہ لوگ امن کے لیے ایسے ’’دانشورانہ‘‘ مشورے دیتے ہیں مگر پس پردہ ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کو آپریشن کے بعد ہونے والی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وزیرستان میں بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تو آگ پورے ملک میں پھیل جائے گی، جسے روکنا پھر کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد کے لیے پورے ملک کو جلانا چاہتے ہیں۔ یہاں ایک سوال پوچھا جاسکتا ہے ، جو لوگ آپریشن آپریشن کی بات کرتے ہیں وہ بتائیں کیا گزشتہ دس، بارہ برسوں سے قبائلی علاقوں میں آپریشن نہیں ہورہا؟ اگر نہیں ہورہا تو پھر روزانہ درجنوں عسکریت پسندوں کے مارے جانے اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے دعوے کیا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ قبائلی علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں قوت کے استعمال کا تجربہ کیا جاچکا ہے، جو بری طرح ناکام رہا۔ کراچی کی مثال ہمارے سامنے ہے، یہاں چودھری اسلم نے درجنوں افراد کو طالبان قرار دے کر پولیس ’’مقابلوں‘‘ میں مارا تو کیا یہاں سے ’’طالبان‘‘ کا صفایا ہوگیا؟ ہرگز نہیں، قوت کے استعمال سے عسکریت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

بلاشبہ حکومت نازک موڑ پر کھڑی ہے، اس پر طالبان سے نئی جنگ چھیڑنے کے لیے دباؤ ہے۔ سیکورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کی لاشوں کو کندھا دینا حکومت کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، ایسے ماحول میں غصہ اور انتقام کے جذبات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ بیشتر میڈیا ہاؤسز حکمرانوں کو لڑائی کے لیے تھپکی دے رہے ہیں، امن وامان کے نازک معاملے پر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ پوائنٹ اسکورنگ بھی ہورہی ہے۔ زرداری صاحب نے تو آنکھ موند کر پانچ برس گزارلیے مگر موجودہ حکومت قیام امن کا ایجنڈا لے کر اقتدار میں آئی ہے، اس کے لیے آنکھ اور کان بند کرنا ممکن نہیں۔ تو پھر کیا کیا جائے؟ برابر کا جواب دینے کی پالیسی اختیار کی جائے؟ ماضی کے تجربات اس حکمت عملی کو مسترد کرچکے ہیں۔ برابر کے جواب سے سوائے لاشوں کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ محض سیکورٹی سخت اور ہائی الرٹ کرنا بھی مسئلے کا حل نہیں، 24 گھنٹے سخت سیکورٹی حصار میں رہنے والے ادارے اور افراد بھی حملوں کی زد میں آتے رہے ہیں۔

ڈکٹیٹر کی بھڑکائی گئی آگ پر صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے ہی پانی ڈالا جاسکتا ہے۔ حکومت کو شعلے اگلنے والوں کی بجائے مذاکرات کے حامیوں کی بات پر کان دھرنے چاہئیں۔ ن لیگ کی حکومت سابقہ حکومت کی بہ نسبت زیادہ اچھی ساکھ کی حامل ہے، اس کے پاس طالبان تک پہنچنے کے بھی ایک سے زائد چینل موجود ہیں۔ چند ماہ قبل جب حکومت نے حکیم اﷲ محسود سے مذاکرات کی کوشش کی تو کئی دروازے کھل گئے تھے، بات چل نکلی تھی، اب بھی حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو اس کے پاس ایسے چینل موجود ہیں جو کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیگی حکومت کے پاس مولانا فضل الرحمن جیسی شخصیت موجود ہے، ان کا قبائلی علاقوں میں کسی بھی دوسرے سیاست دان سے زیادہ اثر ورسوخ ہے۔ مولانا سمیع الحق بھی اس حوالے سے اہم ہیں، ان پر خیبرپختونخوا حکومت کو بھی اعتماد ہے۔ مولانا احمد لدھیانوی اور مولانا فضل الرحمن خلیل کے اثر ورسوخ سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کے پاس ایسے رابطہ کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے، جنہیں طالبان کی صفوں میں بھی عزت واحترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہو۔ طالبان کی مذاکرات کی پیشکش کو غنیمت سمجھنا چاہیے، غصہ اور انتقام کے جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش ہی ملک وقوم کے مفاد میں ہے۔ کوئی دوسرا فیصلہ ملک و قوم کو مزید مشکل میں ڈال سکتا ہے ، اﷲ نہ کرے۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 103273 views i am a working journalist ,.. View More