امن مذاکرات کی کامیابی سے مشروط

ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ،دنیا بھر کی نظریں حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر لگی ہوئی ہیں ،قومی قیادت کا فرض ہے کہ وہ ان مذاکرات کی کامیابی کیلئے ہرممکن کوشش کرے ۔ کامیابی کے لئے سیزفائر وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش میں ہی ملک کی بہتری ہے۔اگر ہر فرد اپنے مطالبات منوانے اور طالبان کے مطالبات کی فہرست میں شامل کروانے کے چکر میں پڑگیا تو خدشہ ہے کہ مذاکراتی عمل طوالت اور تعطل کا شکارنہ ہوجائے ۔ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے کہ مذاکرات کو حکومت اور طالبان کے درمیان ہی رہنے دیا جائے اور کسی تیسری قوت کو فائدہ اٹھانے کا ہرگز موقع نہ دیا جائے ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف نے چار رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے بعد طالبان کی طرف سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سربراہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق ہیں،مولانا سمیع الحق نے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے ڈرون حملوں و نیٹو سپلائی کے خلاف جماعۃ الدعوۃ سمیت دیگر تنظیموں کے ساتھ ملکر ملک گیر تحریک چلائی،گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے ملاقات میں انہیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ٹاسک دیا تھا بعد کسی کی ناراضگی کے بعد تردید کروا دی گئی،لیکن جب حکومتی کمیٹی بنی اور طالبان نے بھی اعلان کیا تو پھر مولانا سمیع الحق پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا جس پر طالبان نے پیغام دیا کہ مولانا سمیع الحق ہمارے قائد ہیں۔مذاکراتی کمیٹیوں کے مابین ملاقات کے بعد ایک دو رکنی وفد طالبان سے ملاقات کے لئے شمالی وزیرستان گیا جس کو حکومت نے ہیلی کاپٹر بھی فراہم کیا ۔وفد نے پرامن ماحول میں طالبان سے بات چیت کی اور واپس آئے،اس دوران فضا میں ڈرون طیارے بھی گردش کرتے نظر آئے جس سے جہاں علاقہ بھر کے مکینوں ،مذاکراتی کمیٹیوں میں خوف و ہرا س تھا انہیں بار بار مقامات تبدیل کرنا پڑے تو دوسری طرف وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی ڈرون طیاروں کی آمد پر پریشان نظر آئے ۔انہوں نے مولانا سمیع الحق سے بھی رابطہ کیا اور کہا کہ اگر اب مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک دشمنی ہو گی۔ایک دو روز میں حکومتی اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات متوقع ہر ،وزیر اعظم نواز شریف بھی مطمئن نظر آتے ہیں کہ حالات ٹھیک سمت جا رہے ہیں۔اب اس ملک میں امن ہونا چاہئے۔پاکستانی عوام امن چاہتے ہیں ، قومی سلامتی اور استحکام پاکستان کے لیے امن ناگزیر ہے ۔ 12 سال سے امریکی غلامی ، امریکی ڈکٹیشن اور اپنے ہی عوام کے ساتھ فوج کو الجھانے کی پالیسی ناکام ہو گئی ہے ۔قومی اتفاق رائے ہے کہ پرامن اور پائیدار بنیادوں پر مذاکرات کے ذریعے امن تلاش کیا جائے ۔ امن مذاکرات اسی وقت کامیاب ہوں گے جب حکومت ، فوج ، انٹیلی جنس ادارے ہر طرح کے اندرونی و بیرونی دباؤ سے آزاد ہو کر امن مذاکرات کامیاب کرائیں ۔ حکومتیں اور افواج پاکستان بارہ سال سے دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہیں لیکن دہشتگردی ، تخریب کاری ، ردعمل ، انتقامی کاروائیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ ملک کا انگ انگ زخمی ہے ۔ دشمن ملک کو ناکام ریاست ثابت کرنے میں کامیاب ہورہاہے اس لیے یہ امر واقعہ ہے کہ بارہ سال سے جاری پالیسی ناکام ہے ۔ قومی سلامتی اور داخلہ و خارجہ پالیسی ترتیب دینے کی نئی حکمت عملی بنائی جائے ۔ پوری قوم کو دشمن کے خلاف متحد کیا جائے ۔پاکستان کا آئین قرا ر دیتاہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے اور قرآن و سنت سے متصادم قانون نہیں بنایا جاسکتا۔ تعلیم ، معیشت ، معاشرت ، سماجی اقدار قرآن و سنت کے رہنما اصولوں کے مطابق نافذ کرنا ضروری ہیں لیکن حکمران آئین کی روح کے مطابق ریاستی نظام چلانے میں ناکام رہے ہیں اسی وجہ سے ملک میں شدت ، انتہاپسندی ، انتقام ، اقرباپروری ، کرپشن اور قومی خزانہ پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔ خود کش حملوں اور بم مارنے سے شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی استعماری ، ریاستی اور بیرونی سرمایہ سے چلائی جانے والی این جی اوزکی قوت سے ملک کو سیکولر بنایا جاسکتاہے ۔ ملک میں اسلامی تہذیب اور سیکولر تہذیب کی نظریاتی کشمکش فیصلہ کن موڑ پر ہے ۔ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے انشاء اﷲ کامیابی حق کی ہو گی اور حق ہی غالب ہوگا۔ پاکستان میں شریعت کا نفاذ آئین کا تقاضاہے ۔ امریکہ کسی صورت بھی پسند نہیں کرے گا کہ اس کے بٹھائے ہوئے لوگ اس کے احکامات سے روگردانی کریں ۔ دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کو آگے بڑھائیں ۔ ملک میں آئین و دستور کا تحفظ انہی لوگوں کا فرض ہے جنہوں نے اس ملک کو اسلام کے عملی نفاذ کے لیے حاصل کیا تھا ۔ شریعت کا نام سن کرکسی کو پریشان نہیں ہونا چاہئے ۔شریعت کوئی خطر ناک یا ڈراؤنی چیز نہیں بلکہ انسانیت کی راہنمائی اور بھلائی کیلئے اﷲ تعالیٰ کا قانون ہے ، نفاذ شریعت کا مطالبہ نہ تو نیا ہے اور نہ غیر آئینی ،آئین پاکستان میں قرآن و سنت کو ملک کاسپریم لاء تسلیم اوریہ عہد کیا گیا ہے کہ ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا،حکمران 73ء کے آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کردیں تو نہ صرف ملک مسائل کے گرداب سے نکل آئے گا بلکہ قیام پاکستان کے مقاصد کی بھی تکمیل ہوگی اور بین الاقوامی برادری میں ہمارا قومی وقار بھی بحال ہوجائے گا۔ ملکی ترقی اور عوامی فلاح کیلئے اغیار کے ناکام نظاموں کو آزمانے اور دربدر ٹھوکریں کھانے کے باوجودہم اﷲ کی طرف رجوع کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔جو لوگ شریعت کے نام سے چڑ تے ہیں وہ دراصل آئین پاکستان کی نفی کرتے ہیں ۔ملا ازم اور طالبانائیزیشن کی باتیں کرنے والے دراصل اسلام کے خلاف اپنا غصہ نکالتے ہیں ۔مذاکرات کی کامیابی ملک و قوم کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہوگی۔ اصل مذاکرات حکومت اور طالبان کے درمیان ہی ہونگے ۔طالبان کمیٹی کے نام سے کام کرنے والی موجودہ کمیٹی صرف رابطہ کار اور مددگار کا کردار ادا کررہی ہے ،تاکہ حکومت اور طالبان کے درمیان پائے جانے والے خدشات دورکرکے مذاکرات کے ماحول کو ساز گار بنایا جائے ۔ امریکہ اور بھارت کی تمام تر سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجودمذاکرات کامیاب ہونے کی امید ہے ۔سیکولر اور اسلام مخالف لابی قوم کے اندر ناامیدی اور مایوسی پھیلا رہی ہے۔ آئین کو غیر اسلامی کہنے کی بجائے آئین پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا جانا چاہئے ۔ جس آئین کا پہلا نقطہ ہی یہ ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوگا اور اس کا آئین قرآن و سنت کے تابع ہوگا اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا قومی یکجہتی کے لئے مضر ہے ۔قوم 73ء کے آئین پر متحد ہے، اس اتحاد کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ حکمران غیر آئینی ہتھکنڈوں کو چھوڑ کر آئین کی بالا دستی کو تسلیم کرلیں ۔جن لوگوں کو شریعت اور آئین کی بات کرنے والوں سے تشد د کی بو آتی ہے وہ براہ راست اسلام کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کے ماننے والوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناکر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ امریکہ، بھارت اور ا ن کے اتحادی افغانستان میں بدترین شکست پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی منظم سازشوں پر عمل پیرا ہیں۔ پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی بیرونی قوتیں کروار ہی ہیں۔ کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان کی جانب ہتھیار کا رخ کرنا بھی درست نہیں ہے۔امریکی و بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں بم دھماکے کروارہی ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح یہاں مسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے مذموم ایجنڈے پورے کر سکیں۔ ہم سب کو متحد ہو کر ان سازشوں کو ناکام بناناہوگا۔ کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی کلمہ گو بھائی کو نشانہ بنائے۔ اسلام تو کسی بے گناہ کافر کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس حوالہ سے قرآن وسنت میں بے شمار شرعی دلائل موجود ہیں۔ ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے اﷲ تعالیٰ کی حدوں کو نافذ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں فوج، پولیس اور علماء کرام کو طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیاجارہا ہے۔ ملک میں شرعی حدود نافذ کی جائیں ملک میں ہر طرح کی دہشت گردی ختم ہوجائے گی اور یہ خطہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 179382 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.