بادشاہ سلامت! بیدار ہوئیے․․․

ڈرتے ڈرتے بادشاہ سلامت کو نیند سے بیدار کرنے کی جسارت کرتے ہوئے خادم نے اطلاع دی: حضورِ والا تھرپارکر کی تحصیل مٹھی میں قحط کے باعث 41 بچے بھوک اور بیماری سے جاں بحق ہو گئے ہیں۔بادشاہ سلامت کے پردہ سماعت سے جو آواز ٹکرائی تو آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے۔ ٹوپی سر پر رکھی اور فرمایا: کیا؟ 41 بچے بھوک اور بیماری سے مر گئے ۔ میری سلطنت میں؟ قحط کی صورتحال! یہ کیسے ممکن ہے؟

پھر اٹھے، اپنے حواری ہمراہ کیے اور نکل پڑے قحط زدہ علاقے کی جانب۔موقع پر پہنچ کر رعایا کا حال دیکھا اورطب خانے سے بچوں کی اموات کی تصدیق کی تو پتہ چلا کہ حالات و واقعات تو اطلاع کی درستگی پر موقوف ہو رہے ہیں۔ پھر کیا تھا۔ بس بپھر گئے اور فوراٌ شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے انصاف فراہم کرنا شروع کیا۔آس پاس کھڑے افراد بغلیں جھانکنے لگے کہ دیکھیں کون کون مجرم ٹھہرتا ہے۔ منصف بادشاہ کی آواز گونجی: ضلع تھرپارکر کی تحصیل مٹھی کے عوامی طب خانہ کے طبی نگران راہب کو غفلت برتنے کی پاداش میں ہتھکڑیاں لگا دی جائیں اور مجری مقدمات درج کئے جائیں۔صحت کے ضلعی منتظم کو بھی نوکری سے برخاست کیا جاتا ہے۔ضلع کے منتظمِ مویشیاں اور ان کے نائب کو عہدوں سے معطل کر دیا جائے۔ مزید براں نائب کمشنر بھی معطل ہے جبکہ نگران پولیس افسر کا تبادلہ کر دیے جانے کا حکم بھی صادر ہوتا ہے۔ احکامات کی تعمیل ہو!!!

انصاف کی فراہمی سے فرصت پائی تو قحط و موت زدہ رعایا کی تکالیف کے ازالے کی خاطر شاہی خزانے کے منہ کھول دیے۔ متاثرہ خاندان کو دو دو لاکھ روپے عطاکرنے اور 60 ہزار گندم کی بوریاں فوری فراہم کرنے کا فرمان بھی جاری کیا۔ اس کے علاوہ آفت زدہ علاقے کے لئے 10 کڑوڑ روپے کی مزید امداد کا اعلان بھی کیا۔ اس قدر سبک رفتار انصاف اور محبت و شفقت دیکھ کر رعایا خوشی سے دیوانی ہو گئی اور اپنے معصوم بچوں کی اموات بھلا کر بادشاہ اور سلطنت کے حق میں خوب خوب دعائیں کرنے لگی۔
بادشاہ سلامت کے انصاف، رعایا کی محبت اور سلطنت کی کامیابی کی کہانی یہاں اختتام پذیر ہوتی ہے اور چند گزارشات سر اٹھاتی ہیں!!

بادشاہ سلامت سے عرض ہے کہ کچھ سزا اپنے لئے اور کچھ سزااپنے حواریوں کے لئے بھی تجویز ضرور کرتے جو انہی علاقوں سے بطور ایم این اے اور یم پی اے منتخب ہو کراسی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں دھڑلے سے براجمان ہیں۔

کچھ دن پہلے قومی سیکیورٹی پالیسی کے ری ایکٹیو ہونے کا رونا رو یا تھا اب یہ بھی پتا چل گیا کہ ری ایکٹیو پالیسیاں ہماری نفسیات کا حصہ ہیں۔ پرو ایکٹیو ہونے کے لئے سوچنے ، سمجھنے ، پرکھنے، فیصلہ سازی اور لائحہ عمل ترتیب دینے کی صلاحیت ہونا ضروری ہے جس سے ہم قطعی طور پر نا بلد ہیں۔تھرپارکر کی موجودہ صورتحال سندھ حکومت کی غفلت کے سوا کچھ بھی نہیں گردانی جا سکتی۔ تھرپارکر کراچی سے محض 300کلومیٹر کی دوری پر پاک بھارت سرحد کی جانب واقع ہے ۔ اگر حکومت فعال ہو تو یہ فاصلہ اتنا نہیں کہ حکومت، نمائندوں اور اداروں کو پتا ہی نہ چلے کہ ان علاقہ جات میں حالات کس نہج پر ہیں لیکن بات ہے ترجیہات کی۔زیادہ دور کی کوڑی نہیں لانے لگا! سال 2000 میں تھر پارکر ہی میں جانوروں میں بیماری پھیلنے کے باعث 90 فیصد مویشی ہلاک ہو گئے تھے جن پر ان علاقوں کی بود و باش کا انحصار ہے۔ تب حکومتِ وقت نے کیا اقدامات اٹھائے کہ مستقبل میں ایسے پیدا ہونے والے حالات کو بڑھ کر آفات میں تبدیل ہونے سے پہلے ہی نمٹایا جا سکے یا حالات کو بالکل ہی بے قابو ہونے سے روکا جا سکے۔ یقینا کسی قسم کے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے وگرنہ آج صورتحال کچھ بہتر ہوتی۔یہ ہمارا قومی خاصہ ہے کہ ہم پانی کو آتا دیکھ بھی لیں تو آنکھیں موندے رکھتے ہیں، پانی کے سر سے گزر جانے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ہاتھ پاووں مار کر اس میں ڈوبنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسی صورت میں تو بس یہی ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ پیر چل گئے چل گئے، جو بچ گیا بچ گیا، جو نہ بچا نہ بچا! اس کی قسمت اورا ﷲ کی مرضی۔ یہاں تو ہم نے پانی کی طرف منہ کر کے دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔مست محول مٹھے چول۔

آج کل ورلڈ ریکارڈ بنانے کا سیزن جاری ہے۔ شہباز شریف صاحب اگر شاہ صاحب اجازت دیں تو گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو تھرپاکر لے جائیں۔پاکستان نے غفلت، لاپرواہی اور اندھے پن کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے اور اس عالمی ریکارڈ سازی کے عمل میں اب تک 41 بچے جان گنوا چکے ہیں، ہزاروں افراد بھوک اور بیماری سے ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں جبکہ مزید جانیں جانے کا پورا پورا چانس موجود ہے۔اس کے علاوہ سندھ کے گوداموں میں پڑی وہ گندم بھی ریکارڈ کو چار چاند لگا دے گی جو ان گوداموں میں رکھی رکھی سیلن زدہ ہو گئی پر کسی بھوکے شخص کے پیٹ کا ایندھن نہیں بن پائی۔

سندھ یا یوتھ فیسٹیول کے خلاف ہرزہ سرائی مقصد نہیں مگر یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ایسی فنکاریاں وہ اقوام کرتی اچھی لگتی ہیں جن کے ہاں معاشی استحکام ہو، روزگار موجود ہو، عوام میں معاشی و معاشرتی عدم توازن نہ ہو،امن و امان ہو، قحط کی صورتحال نہ ہو۔ جتنا پیسا ہم نے سندھ یا یوتھ فیسٹیول میں اڑا دیا، شاید نہیں یقینا ،اس پیسے کا درست صَرف ہوتا تو پاکستانی صوبے سندھ کے ضلع تھرپاکر میں موت، بیماری اور بھوک یوں قحط کی رَو ڈیرے نہ ڈالتی ۔

ویسے ٹوئٹر کے شہزادے کی طرف سے ایک ٹویٹ تو بنتی ہے: مارسو مار سو، سندھ مار سو۔ مانی( روٹی)، کپڑو(کپڑا)، گھر(مکان) نہ دے سو!

شرم کا مقام ہے ایٹمی قوت کے لیے! بھوک و افلاس بے قابو ہو رہی ہے، مائیں اپنے بچے قتل کرنے پر مجبور ہیں، عوام جی رہی ہے کہ مر گئی کچھ اتا پتا نہیں، قاتلوں سے معافی تلافی ہو رہی ہے، مُلا سروں پر سوار ہے، عقل و فراست گھاس چرنے بھیج چھوڑی ہے، الٹے سیدھے ورلڈ ریکارڈ بنانے میں مشغول ہیں، ذہنی ناکامیوں کا یہ عالم ہے کہ بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے ایک کرکٹ میچ جیت جائیں تو آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، عوام کو جائز حقوق سے دور رکھتے ہیں، مہنگائی کے جن پر کوئی زور نہیں، انسانی جان کی قیمت روپوں میں تولی جاتی ہے، ملک میں قحط پڑ جانے تک کی خبر نہیں ہوتی اور نعرے مارے جاتے ہیں گڈ گورننس اور اسلام کے قلعے کے۔ پاکستان زندہ باد پائیندہ باد۔

Jahid Ahmad
About the Author: Jahid Ahmad Read More Articles by Jahid Ahmad: 19 Articles with 12203 views Columnist for Roznama "Din"... View More