یہ کیا ہے؟

ہر طلوع آفتاب کے ساتھ بتایا جاتا ہے کہ جنرل مشرف اور طالبان مذاکرات معاملات میں فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں……مسلح افواج اور منتخب حکومت کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے……

یہ سن سن کر میرے تو کان پک گے ہیں۔لیکن خیر کوئی بات نہیں ۔لیکن مجھے اپنے کانوں کے پکنے کی پرواہ نہیں بلکہ خوشی اس بات کی تھی کہ چلو مسلح افواج اور منتخب حکومت کم از کم جنرل مشرف کے معاملہ پر ایک پیج پر تو ہیں……اب جڑیں پکڑتی جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے……یہ بھی کہا گیا یا قوم کو خوش خبری سنائی گئی کہ جنرل مشرف کے حوالے سے حکومت پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔

اگر حکومت کے دعوے سچے ہیں تو افواج پاکستان کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والے بیانات کیا خبر دے رہے ہیں؟افواج پاکستان کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے۔کہ ’’ نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق عسکری قیادت نے فوج کے خلاف وفاقی وزرا خواجہ سعد رفیق اور خواجہ محمد آصف کے بیانات کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ اور اس پر اپنی شدید تشویش ظاہر کی ہے۔عسکری قیادت نے کہا ہے کہ اگر وزیر دفاع فوج کے خلاف بیانات دینگے تو اسکا کیا تاثر ابھرے گا؟وزیر دفاع کا کام فوج کا مورال بلند کرنا ہے گرانا نہیں……عسکری قیادت نے کہا ہے کہ فوج کو قومی ادارہ تصور کیا جائے ۔‘‘

گذشتہ روز خود آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے غازی بیس تربیلا میں سپیشل سروسز گروپ کے ہیڈ کوارٹر کے دورہ کے موقعہ پر کہا کہ ’’فوج ہر ادارے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔اور اپنے ادارے کے وقار کا بھی ہر حال میں تحفظ کریگی۔اس وقت ملک اندرونی اور بیرونی مشکلات سے دوچار ہے۔جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ ہماری ایس ایس جیفورس دنیا کی بہترین فورس ہے جسے ہر مشکل میں کام کرنا آتا ہے۔اور ایس ایس جی کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں قابل تحسین ہیں۔ اور پاک فوج ایس ایس جی کی جنگی مہارت اور بہادری پر فخر کرتی ہے جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پاک فوج نے قومی سلامتی اور تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور پاک فوج یہ فریضہ ہمیشہ ادا کرتی رہے گی‘‘

اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جنرل مشرف کیس کے حوالے سے فوج میں بے چینی پائی جاتی ہے۔اور یہ بے چینی محض جنرلوں تک محدود نہیں بلکہ نیچے سپاہی تک کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ اپنے دفاعی تجزیہ نگار اکرام سہگل کے بقول غازی بیس تربیلا میں آرمی چیف نے ادارے کے وقار کے حوالے سے جوکچھ کہا ہے وہ انہوں نے ایک جوان کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا ہے۔ارباب اقتدار کو اس بات کواچھی طرح اپنے دل و دماغ میں سمو لینا چاہیئے کہ فوج میں بے چینی ہے۔اس لیے اسے اپنے وزرا اور ،مشیروں کی زبان پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ نتائج ……

دو وفاقی وزرا جو خیر سے کاشمیری ہیں اور وہ بھی خواجہ النسل کاشمیری ہیں۔دو نوں سیاست میں سوچ اور نظریات کے حوالے اپنا ایک مقام اور تشخص رکھتے ہیں۔ دونوں کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ……دونوں کے اندر باغی جاوید ہاشمی چھپا ہوا ہے۔ دونوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ صاف گو ہیں اپنے دل کی بات بغیر کسی لگی لپٹی کے بغیر کہنے کی روایت رکھتے ہیں…… دونوں کی جمہوریت سے وابستگی ایمان کے درجے پر فائز ہے۔دونوں ہی مارشل لا کو ملک کے لیے زہر قاتل تصور کرتے ہیں…… یہ سب باتیں اپنی جگہ درست اور صحیح ہیں ۔مگر اب ان دونوں خواجاوں کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ اب وہ اپوزیشن میں نہیں ۔حکومت میں ہیں اور وفاقی وزارت کا منصب ان کے پاس ہے۔کم از کم خواجہ آصف تو کوئی بات کہنے سے قبل اس بات کو مدنظر رکھیں کہ وہ وفاقی وزیر دفاع ہیں۔

افواج پاکستان کی تشویش بجا ہے۔ حکومت کو اپنے پرجوش اور متوالے وزرا کو صبر اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کا درس دینا چاہیئے۔ کیونکہ ابھی جمہوریت نرسری میں ہے تناور درخت نہیں بن پائی کہ جو بڑی سے بڑی آندھی میں بھی اپنی جگہ پر قائم رہے۔ اس لیے جنرل مشرف کیس پر کسی قسم کی بحث میں الجھ کر کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا کرنے سے بچا جائے اور جنرل مشرف کے مستقبل کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہوگا-

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.