مولانا محمد عارف الدین

لائبریری تحریک کے فروغ میں شہید حکیم محمد سعید کے دست ِراست

پاکستان میں لا ئبریرین شپ کے پیشے کی ترقی اُن اکا برین لا ئبریری سائنس کی مرہون منت ہے جنہوں نے آزادی کے پر چم تلے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔انہو ں نے پاکستان میں لائبریرین شپ کے پودے کا بیج بویا، اس کی آبیاری کی اور اپنی تما م زندگی اس پیشے کے فروغ اور ترقی کے لئے وقف کر تے ہو ئے اسے ایک تناور درخت بنا دیا جس کے فیض سے آج نئی نسل فیض یاب ہو رہی ہے۔ ان محترم شخصیا ت میں ڈاکٹر عبدالمعیدمر حوم ، سید ولا یت حسین شاہ مر حوم ، فضل الٰہی مر حوم ، محمد شفیع مرحوم، اختر ایچ صدیقی مرحوم، جمیل نقوی مر حوم،فر حت اﷲ بیگ اور مولانا محمد عارف الدین شامل ہیں۔کراچی میں ابتدائی لا ئبریری سر گرمیاں انہی احباب کی مرہون منت تھیں۔کراچی لائبریری ایسو سی ایشن( ۱۹۴۹ء)، پا کستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ (۱۹۵۰ء) ،انجمن فروغ وترقی کتب خانہ جات اسپل (۱۹۶۰ء) ، کراچی یونیورسٹی لائبریری سائنس المنائی ایسو سی ایشن (۱۹۵۷ء) کے قیام اور خدمات میں ان احباب نے کلیدی کردار ادا کیا ۔

۱۹۶۰ء تا ۱۹۹۸ء کے درمیان انجمن فروغ وترقی کتب خانہ جات ،اسپل(Sociey for Promotion and Improvement of the Libraries, SPIL)،شہید حکیم محمد سعیداور مولاناعارف الدین ایک ایسی مثلث تھی کہ جس کے تینوں ستوں ملک میں کتب خانوں کی تحریک اور تر قی کے حوالے سے ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم تھے۔ عارف صاحب نے کالج لائبریرین کی حیثیت سے پیشہ ورانہ خدمات کا آغاز کیا، نیپا (NIPA) کے ریسرچ لائبریرین کے فرائض انجام دیے،بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سٹی لائبریرین رہے اور ہمدرد لائبریری کے لائبریرین اور ڈائریکٹر کے فرائض بھی خوش اسلوبی کے ساتھ اداکیے لیکن اسپل (SPIL) آپ کی پہچان ہے، اسپل کے حوالے سے آپ جانے جاتے ہیں اس انجمن نے عارف الدین صاحب ہی کی وجہ سے نصف صدی کا پیشہ ورانہ سفرانتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ طے کیا اس دوران انہیں شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی سر پرستی اور رہنمائی حاصل رہی۔

راقم الحروف کو پاکستان لائبریرین شپ کی جن شخصیات پرسوانحی و تعارفی مضامین لکھنے کا اعزازحا صل ہوا ان میں ڈاکٹر عبدالمعید، محمد عادل عثمانی، الحاج محمد زبیر، ابن حسن قیصر، جمیل نقوی ، آئی اے ایس بخاری، پروفیسر اختر حنیف، فرحت اﷲ بیگ، الطاف شوکت ، رشید الدین احمد اور سمیع اﷲ شامل ہیں۔بعض احباب سے انٹر ویوز بھی کیے ۔ عارف الدین صاحب سے گفتگو کی خواہش اور کوشش ایک عر صہ دراز سے تھی ۔ اکثر آپ سے گفتگو کر نے کی کوشش کی لیکن آپ نے ہمیشہ اپنے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔عارف صاحب بہت ہی محبت کر نے والے ، شفیق ، نرم گو ا ور انکساری اور عاجزی کا پیکر ہیں۔انتہائی محنت اور جوش و جذبہ کے ساتھ کام کرنا،اپنے آپ کو پیچھے رکھنا ، خاموشی کے ساتھ اس طرح کام کر ناکہ بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس پروگرام میں عارف صاحب کہیں بھی نظر نہیں آئے در حقیقت وہ تمام کا تمام انہیں کا کارنامہ تھا۔ اسپل (SPIL) کے تحت بڑے اور اعلیٰ پیمانے پر سیمینار، کانفرنسیں اور ورکشاپ منعقد ہو ئے کسی پروگرام میں بھی عارف صاحب اسٹیج پر نظر نہیں آئے۔ وجہ یہ نہیں کہ آپ اسٹیج پر بول نہیں سکتے تھے در اصل یہ آپ کا مزاج اور عادت کا حصہ تھا۔خود کو پیچھے رکھتے ہوئے دوسروں کو آگے بڑھانا ، یہ بات بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ عارف صا حب کو سب سے پہلے ۱۹۷۱ء میں اس وقت دیکھا جب راقم الحروف نے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں داخلہ لیا ۔ شیروانی اور علی گڑھ پا جامے میں ملبوس لیاقت علی خان کیپ لگائے ٹرمپ (Trupm)موٹر سائیکل پر اکثر عادل عثمانی صاحب اور ڈاکٹر غنی لا کرم سبزواری صاحب کے پاس ڈاکٹر محمود حسین لائبریری اور شعبہ لائبریری سائنس جو لائبریری کی پانچویں منزل پر تھا آیا کر تے تھے۔بعد میں یہ موٹر سائیکل ویسپا Vespa اسکوٹر اور پھر سوزوکیری میں تبدیل ہوگئی ۔ سنا ہے کہ کبھی عارف صاحب سائیکل پر بھی دوڑے پھرا کرتے تھے۔آپ سے باقاعدہ تعا رف ۱۹۷۳ء میں اس وقت ہوا جب راقم الحروف نے ہمدرد لائبریری کی تنظیم و ترتیب کے کام میں عارف صاحب کی سر براہی میں حصہ لیا ۔کچھ عر صہ بعد اسپل (SPIL) عارف صاحب سے تعلق کا باعث ہوئی۔۱۹۹۶ء میں ایسا وقت بھی آیا کہ شہید حکیم محمد سعید اسپل کے صدر ، عارف صاحب سیکرٹیر ی اورمجھے جوائنٹ سیکرٹیری ہو نے کا اعزاز حاصل ہوا۔

عارف صاحب ۲۷ اپریل ۱۹۱۹ ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۶ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے میٹرک پاس کیا قیام پاکستان کے بعد آپ نے پاکستان ہجرت کی۔ ۱۹۵۵ء میں کراچی لائبریری ایسو سی ایشن کا سر ٹیفیکیٹ کورس کیا ، ۱۹۶۲ء میں امریکہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیہ سے لائبریری سائنس کا کورس کیا ۔ پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز۱۹۵۵ء میں سندھ مسلم کالج کے لائبریرین کی حیثیت سے کیا ۱۹۶۱ء تک کالج لائبریرین رہے۔ ۱۹۶۱ء سے ۱۹۷۵ء تک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن (NIPA) کے لائبریرین رہے ۔ ۹۷۵اء میں بلدیہ کراچی کے سٹی لائبریرین اور ۱۹۷۶ء میں ہمدرد لائبریری سے منسلک ہوئے۔ بیت الحکمہ کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دیے۔ عربی سوسائٹی سے بھی منسلک ہوئے اور کئی برس سوسائٹی کی تر قی کے لیے کام کیا۔ عارف صاحب کی پیشہ ورانہ
خدمات اسپل کے حوالہ سے ہیں ۔آپ اس انجمن کے بانی رکن ہیں اس کی تمام تر سرگرمیاں شہید حکیم محمد
سعید کی سر پرستی میں اور عارف صاحب کی رہین منت تھیں۔

راقم الحروف نے عارف صاحب سے یہ گفتگو ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ء بروز بدھ جناب عادل عثمانی صاحب کی رہائش گاہ واقع گلستان جوہر میں کی تھی اس گفتگو کے دوران جناب عادل عثمانی بھی موجود تھے۔عارف الدین صاحب کی پیشہ ورانہ سرگرمیان اسپل (SPIL) کے حوالے سے رہی ہیں در حقیقت
اسپل (SPIL) ہی آپ کی پہچان ہے یہی وجہ ہے کہ آپ سے گفتگو کا محور اسپل (SPIL) رہی۔

سوال۔ سب سے پہلے کیا آپ اپنے پس منظر پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے۔
جواب ۔ میر اتعلق ہندوستان کی ریاست حیدرآباددکن سے ہے۔عثمانیہ یونیورسٹی سے میڑک کرنے کے بعدپاکستان ہجرت کی اورکراچی کواپنا مستقل مسکن بنالیا۔اب کراچی سے اپنی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا،کراچی یونیورسٹی سے بی اے کرنے کے بعد ۱۹۵۵ء میں کراچی لائبریری ایسوسی ایشن کا سرٹیفیکیٹ کورس کیا اس کی بنیاد پر سندھ مسلم کالج کراچی کے لائبریرین کی ملازمت مل گئی،اس طرح لائبریرین شپ کے پیشہ سے منسلک ہوگیا۔۱۹۶۲ء میں امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی میں لائبریرین کی تربیت کے لیے گیا۔سندھ مسلم کالج کے علاوہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمینسٹریشن(NIPA) میں ریسرچ
لائبریرین کے فرائض انجام دئے،بلدیہ عظمیٰ کراچی میں سٹی لائبریرین رہا اور ہمدرد لائبریری کے چیف
لائبریرین اوربیت الحکمہ کے ڈائریکٹر کے فرائض بھی انجام دئے۔

سوال۔ اسپل (SPIL) کب اورکیسے قائم ہوئی؟
جواب ۔ میری سوچ یہ تھی کہ کتب خانو ں کی ضرورت شہریوں کو ہے لائبریرینز کونہیں وہ تو ان کانظام چلانے اور شہریوں کو بہتر سے بہتر لائبریری خدمات فراہم کرنے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں،میں یہ سمجھتاتھاکہ ملک میں لائبریری تحریک کافروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں شہریوں کی تنظیم(Citizen Body)زیادہ فعال اورموثرکردار ادا کرسکتی ہے۔میں نے اس کاذکرمسز گل کے مینوالا سے کیا،انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے ایک خط ڈرافٹ کیااس پرمیرے اور مینوالا کے دستخط تھے،یہ جنرل باڈی کا اجلا س تھا جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والی علمی اور ادبی شخصیات،دانشوروں اور دیگر مقتد ر لوگوں نے شرکت کی لائبریرین شپ کے حوالے سے میرے علاوہ پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گرو پ کے صدر فضل الٰہی،ابن حسن قیصر اور سید ولایت حسین شاہ شریک تھے۔اس اجلاس میں ایک دستور ساز کمیٹی تشکیل پائی اس کے سربراہ پروفیسراے بی اے حلیم،سابق وائس چانسلرکراچی یونیورسٹی تھے،اراکین میں مسز گل کے مینوالا،ڈاکٹرسرور حسن ،سید امجد علی اور میں شامل تھا۔کمیٹی نے کئی اجلاسوں کے بعداسپل کا دستور تشکیل دیا۔دستورکے مطابق جنرل باڈی کی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز
کاانتخاب عمل میں آیا۔پھرا س بورڈ آف ڈائریکٹرز نے مجلس منتظمہ کاانتخاب کیا۔چنانچہ دستور کی رو سے اسپل کا اولین بورڈ آف ڈائریکٹرز ایس ایم کالج میں منعقد ہونے والے جنرل باڈی اجلاس میں معرض وجود میں آیاا س کے مطابق حکیم محمد سعیدشہید اس کے تاسیسی صدرمنتخب ہوئے جو اپنی شہادت تک اس عہدہ پر فائز رہے،پروفیسر احمد علی پہلے جنرل سیکریٹری،مسز گل کے مینوالا ٹریزرر (Treasurer) اور میں جوائنٹ سیکریٹری تھا،اراکین میں پروفیسر اے بی اے حلیم،،ڈاکٹر محمود حسین،جناب ممتاز حسین ،
سیدامجدعلی،مس صفیہ خان اورسید ولایت حسین شامل تھے۔ اس طرح اسپل معرض وجود میں آئی۔

سوال۔ اسپل کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی جب کہ ملک میں کئی انجمنیں کام کررہی تھیں؟
جواب ۔ ٹھیک ہے ا س وقت بعض پروفیشنل ایسوسی ایشنز قائم ہوچکی تھیں ایک تو بات یہ ہے کہ میں ذاتی طورپر محسوس کرتاتھا کہ کتب خانوں کی ترقی ملک کے بااثر اورکتب خانوں کاادراک رکھنے والے شہری جب تک اس تحریک میں عملی طورپر شریک نہیں ہوں گے بات آگے نہیں بڑھے گی میں چاہتاتھا کہ کتب خانوں سے محبت کرنے والا شہریوں کاایک مضبوط گروپ(Strong Group of Library Friends)تشکیل دیاجائے ان کی وجہ سے Development بڑھے گی ایک اور بات جو میں محسوس کرتاتھا کہ لائبریرین شپ سے وابستہ لوگوں کی اکثریت ابھی نچلے (Lower) گریڈ میں ہے کتب خانوں کی ترقی اورفروغ کی بات حکومت کے اعلیٰ ایوانوں میں اس قدر توجہ سے نہیں سنی جائے گی،جو بات بااثر شہریوں کی ہوگی،ان کی وجہ سے کتب خانوں کی ترقی ہوگی اوروہ فروغ پائیں گے۔

سوال۔ اسپل(SPIL)نے پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اورکتب خانوں کی ترقی میں کیا کرداراداکیا؟
جواب ۔ اسپل کی تاریخ دیکھیں اس کے تحت پورے ملک میں لائبریری تحریک اور کتب خانوں کی ترقی اورفروغ کے لیے جو سیمینار ، ورکشاپ اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ان کے ذریعہ ہم نے پہلے کتب خانوں کی ترقی اور فروغ کے لیے رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کی اور جب رائے عامہ ہموارہوگئی اور شعور
بیدار ہوگیا تو اس کے بعد کتب خانوں کی ترقی اورفروغ کے لیے پلان،تجاویز اور ترقیاتی اسکیمیں تیارکی گئیں اور حکومت کوپیش کی گئیں۔اسپل نے تین کتب خانے مکمل طورپر قائم کئے ان میں دوکراچی میں اور ایک کوئٹہ میں،بے شمار کتب خانوں کے قیام میں عملی طورپر حصہ لیا ان کی مددکی،اسپل ہی نے سب سے پہلے ملک میں لائبریری قانون کے عملی نفاذ کی جدوجہد کا آغازکیا،۱۹۶۱ء لائبریری قانون کاایک مسودہ تیارکیا اور نفاذ کے لیے حکومت کوپیش کیاگیا،پہلا لائبریری ترقیاتی منصوبہ اسپل نے تیار کیا،کراچی پبلک لائبریری اسکیم تیار کی،کراچی میں لائبریری بورڈ اسپل کی جدوجہد کے باعث تشکیل پایا، ۱۹۶۸ء میں نیشنل کمیشن برائے افرادی ترقی اورتعلیم National Commission on Manpower and Educationکو کتب خانوں کی ترقی کے لیے یاد داشت پیش کی،چوتھے پانچ سالہ منصوبہ میں لائبریریز کی ترقی کی تجاویز پیش کیں،۱۹۷۰ء میں(National Pay Commission) کو ملک میں لائبریرین شپ کے پیشے سے وابستہ افراد کی تنخواہوں کی تجاویز پیش کیں۔اپنی شہادت سے دوسال قبل ۱۹۹۶ میں حکیم محمد سعید نے پاکستان نیشنل لائبریری کے دورے کے موقع پر پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے عہدیداران سے ملاقات کی اورپی ایل اے کا تیارکردہ لائبریری قانون کا مسودہ حکومت پنجاب وسند ھ کونفاذکے لیے پیش کیا۔اسی طرح اور بے شمار ترقیاتی کام ہیں جو اسپل نے گزشتہ ۴۳ برسوں میں انجام دئیے ہیں،یہ تمام معلومات آپ کو اسپل کی مطبوعات میں تفصیل کے ساتھ مل جائیں گے۔

سوال۔ شہید حکیم محمد سعید نے اپنی بیٹی کو جہیز میں ایک لائبریری بھی دی تھی سنا ہے کہ اس لائبریری کی کتب کا انتخاب آپ نے کیا تھا؟
جواب ۔ جی ہا ں یہ درست ہے حکیم صاحب نے اپنی اکلوتی بیٹی کوجہیز میں منتخب کتب پرمشتمل ایک
(Library Collection) دیا۔اس لائبریری کی کتابوں کا انتخاب میں نے اورمسزللی اینی ڈی سلوا
نے مل کرکیاتھا۔
مطبوعہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل جلد۳۶شمارہ ۵۔ دسمبر ۲۰۰۵)
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ ۲۰۰۹ء میں شامل)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288302 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More