انتخابات کے بعد کا سفر نامہ

لوک سبھا انتخابات اختتام کے قریب ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران ہم صحافیوں نے اپنے قارئین کو مودی سے بہت ڈرایاہے۔ لیکن کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ مسلمان اﷲ کے سوا بھی کسی سے ڈرتا ہے۔ اس وقت کئی ممالک میں مسلمان آزمائشوں سے گزر رہے ہیں۔ مصر میں نئے فرعون اﷲ کے نام لیواؤں کو سزائے موت سناسناکر خوفزہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہی کچھ حال ہمارے مشرقی پڑوسی ملک کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں مودی کا غلغلہ توا یک بلبلہ ہے۔آج نہیں توکل پھوٹ جائیگا۔ انہوں نے جو بلند بانگ دعوے کئے ہیں اور نوجوان نسل کو جو خوشنما سپنے دکھائے ہیں، وہی ان کے زوال کے لئے کافی ہوجائیں گے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ وہ وزیر اعظم بن پائیں گے ۔ بفرض محال مرکز میں کسی اہم منصب تک پہنچ بھی گئے تو بھی جمہوری ہندستان میں، جس کی کثیر آبادی ان کے فرقہ پرستانہ نظریہ کی تائید نہیں کرتی، یہ کوئی ایسی آزمائش نہیں کہ ہم بلاوجہ خوفزدہ یا پریشان ہوجائیں۔مودی کیا چیز ہیں، زمانہ نجانے کیسے کیسے شاطروں کو کھا گیا۔ البتہ آر ایس ایس کا زورضرور بڑھے گا ،جو مختلف عنوانوں سے گزشتہ 60سال سے بڑھتا رہا ہے۔

جہاں تک سیکولر اور غیر سیکولر کا سوال ہے تو گستاخی معاف سیکولرحکومتوں میں بھی اقلیتوں پر کیا کم زیادتیاں ہوئی ہیں؟ اورپھر برصغیر کے مسلمانوں پرتو اس سے بھی بدتردور گزرچکے ہیں۔20ستمبر سنہ1857 ء کو جب دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو مورخ لکھتا ہے کہ ہفتوں مہرولی سے دلی دروازہ تک ہر درخت پر مسلمانوں کی لاشیں اس طرح لٹکی تھیں جیسے بیا کے کھونسلے لٹکے ہوتے ہیں اور کسی کی مجال نہیں تھی کہ پھانسی کے پھندے سے لاش کو اتار کر دفنا دے۔ پوری سلطنت میں ہزارہا مسلمانوں کے گھروں کو مسمار اور ان کی املاک کو ضبط کرلیا گیا ۔ پھرسنہ 1947ء میں ظالموں نے صوفی سنتوں کی سر زمین پنجاب کو انسانوں کے خون سے رنگ ڈالا۔ مالکان کے ملک میں موجود ہونے کے باوجود کسٹوڈین نے ہزاروں املاک کو ضبط کرلیا۔ بے شمار خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔ اس کے بعدکے دور میں ملک کے ہر اس شہراور قصبہ میں جہاں کسی صنعت یا تجارت میں مسلمان نمایاں تھے، ایک منظم سازش کے تحت فسادات کرائے گئے تاکہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا جاسکے۔ میرٹھ، مرادآباد، فیروزآباد،بھدوہی، بھیونڈی، بھاگل پور،علی گڑھ، لکھنؤ اور احمدآباد وغیرہ کے فسادات کو کون بھلا سکتا ہے۔ گجرات میں کانگریس کے دورحکومت میں منصوبہ بند طریقے سے مسلم کش فساد ہوتے رہے۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ملک بھر میں آگ لگی۔ ممبئی فساد کے بعد سری کرشنا کمیٹی کی رپورٹ آئی ، کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ مگر ان سب تدبیروں کے باجود ہندستان کے مسلمان عمومی طور پر پہلے سے زیادہ خوشحال اور ذی شعور ہیں۔ پہلے کے مقابلے زیادہ بچیاں اوربچے پڑھ رہے ہیں۔ درمیانی طبقہ ابھررہا ہے۔ آبادی سنہ1951 میں ساڑھے تین کروڑ سے بڑھ کر سنہ 2011 میں اٹھارہ کروڑہوچکی ہے۔دہلی جیسے شہر میں میلوں تک پھیلے ہوئے کئی علاقوں میں مسلمانوں کی نئی بستیاں بس گئی ہیں ۔اتنی بڑی آبادی کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹاسکتا۔ اس لئے مودی ہوں یا کوئی اور، ہمیں کسی نئے فرعون کے اندیشے سے وسوسوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے تو یہ کہ ہم خاموشی کے ساتھ اپنی دینی ، اخلاقی، تعلیمی اور مالی حالت کی اصلاح اور بہتری کی فکر کریں۔ فضول خرچیوں، آپسی دشمنیوں اور مسلکی جھگڑوں سے بچیں اوریہ کوشش کریں کہ ہر مسلمان اپنے آپ کو ملک اور قوم کے لئے بہتراورمفید شہری بنائے۔ لوگ ہمارے کھانے والا ایک منھ ہی نہ دیکھیں،ہماری کام کرنے والی دس انگلیاں بھی ان کونظر آئیں۔

ہندستان مذہبی رواداری کا ملک رہا ہے۔ ہمیں اپنے رویہ سے اس رواداری کو فروغ دینے والا ہونا چاہئے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ مذہبی، لسانی ، علاقائی یا نسلی تنگ نظری پھیلاتا ہے تو ہمیں اس کے ردعمل میں خود بھی ویسا ہی کرنے سے بچنا چاہئے۔ وقت کی دھارا کو اسی طرح موڑا جاسکتا ہے۔ رہی موجودہ سیاسی صورت حال تو اس پربطور تبصرہ راحت اندوری کے یہ اشعار کافی ہیں۔
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہونگے
کرایہ دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندستان تھوڑی ہے

خاتون خانہ:
حال ہی میں خواتین کے تعلق سے تین عدالتوں کے تین فیصلے آئے ہیں۔ دو فیصلے نان ونفقہ سے متعلق ہیں ، جو باہم متضاد ہیں ۔ ان پر تبصرہ انشاء اﷲ اگلے ہفتہ ۔ فی الحال ایک ایسا کیس جس میں عدالت نے ’’خاتون خانہ‘‘ کی خدمات کے’’ بیش قیمت ‘‘ ہونے کے نظریہ کا اعادہ کیا ہے۔چارسال قبل مشرقی دہلی کے سیلم پور علاقہ میں ایک خاتون ٹرک سے کچل کر اس وقت لقمہ اجل بن گئیں ، جب وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ موٹرسائکل پرجارہی تھیں۔ انشورنس کمپنی نے تھرڈ پارٹی شق کے تحت معاوضہ دینے سے اس عذر کے ساتھ انکار کردیا کہ متوفیہ گھریلو خاتون تھی،کوئی برسرروزگار خاتون نہیں تھی۔ ایڈیشنل سیشن جج کرن بنسل نے 29 اپریل کے اپنے فیصلہ میں اکتوبر 2013کے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا اقتباس نقل کیا ہے جس میں کہا گیا ہے ’’خاتون خانہ کی خدمات بیش قیمت ہوتی ہیں۔ ان کو روپیہ پیسے سے نہیں تولا جاسکتا۔‘‘ اور یہ کہ، ’’ گھر یلو خاتون کی خدمات سماج کے لئے بیش قیمت ہوتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر، بچوں اور دیگر اہل خانہ کی بے لوث خدمات انجام دیتی ہے،گھر کاانتظام چلاتی ہے۔ اس کی خدمات کا موازنہ ان خدمات سے نہیں کیا جاسکتا جو دوسرے شعبوں میں انجام دی جاتی ہیں۔ ماں یا بیوی گھڑی گھنٹہ کے حساب سے کام نہیں کرتی۔وہ رات دن خدمت میں لگی رہتی ہے الا یہ کہ وہ گھر سے باہر بھی کوئی کام کرتی ہو۔ ایک خاتون خانہ اپنے شوہر اور بچوں کی ہر راحت اورضرورت کا خیا ل رکھتی ہے۔ ان کے لئے کھانا بناتی ہے، کپڑے دھوتی ہے، گھر کو درست رکھتی ہے ۔چھوٹے بچوں کو پڑھاتی ہے اور ان کے روشن مستقبل کے لئے ان کی بیش قیمت رہنمائی کرتی ہے۔گھریلو ملازمہ گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ تو بٹا سکتی ہے مگر ماں یا بیوی کا بدل نہیں ہوسکتی۔جو بے لوث خدمت ایک خاتون خانہ اپنے شوہر اور بچوں کی کرتی ہے، اس کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔‘‘فرق یہ ہے سپریم کورٹ ایک این آر آئی خاتون کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کلکتہ کے AMRI اسپتال کو چھ کروڑ روپیہ بطور ہرجانہ اداکرنے کا حکم دیا تھا جب کہ جسٹس بنسل نے صرف 15 لاکھ روپیہ معاوضہ ادا کرنے کا حکم بیمہ کمپنی کو دیا ہے۔

عدالتوں کے ان فیصلوں سے اس عورت کاوقار بلند ہوا ہے جو ہمہ وقت گھر میں رہتی ہے اور اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھر کا نظام چلانے میں لگا دیتی ہے۔ورنہ حکومت نے تو خاتون خانہ کو ہجڑوں، طوائفوں اور پاگلوں میں زمرے میں رکھ دیا تھا، جس پر سپریم کورٹ نے سخت سرزنش کی تھی۔ یوں تو خواتین ہردور میں معاشی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہی ہیں، مگر ان کااصل مقام اورکام ’’خاتون خانہ‘‘ کا ہی ہے۔ آج عورت کے اس اہم رول کو نظرانداز کیا جارہا ہے اور یہ سمجھا جارہا ہے مرد کی طرح ہرعورت کو معاش کمانے والے والا ہونا چاہئے۔ چنانچہ ہماری وہ خواتین جو گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ملازمت بھی کرتی ہیں،دو پاٹوں کے درمیان پس جاتی ہیں۔ دن بھر باہر کام کرتی ہیں اور گھر آکر گھر یلوکام کاج بھی کرتی ہیں۔اس طرح گھر کی آمدنی میں بیشک اضافہ ہوجاتا ہے مگر عورت کاجوبنیادی کام ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھر کا نظم و انتظام، وہ یقینا متاثرہوتا ہے۔ بچوں پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔خصوصاً چھوٹے بچے ماں کہ ہمہ وقت توجہ سے محروم رہتے ہیں اور ماں سے ان کی وابستگی متاثرہوتی ہے۔جدید ذہن خواتین کو معاش کمانے کی مشین بنادینے کو ’’آزادی نسواں‘‘ کے پرفریب نعرے میں چھپادیتے ہیں، حالانکہ بغیر کسی مجبوری عورت پر گھریلوذمہ داریوں کے ساتھ معاش کمانے کا بوجھ ڈالنا سراسر زیادتی ہے اور عورت کا استحصال ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ
گزشتہ ہفتہ ’حج وعمرہ سے اجتناب کی فاسد ترغیب‘ عنوان سے مضمون کی اشاعت کے بعدایک صاحب نے ایس ایم ایس میں لکھاکہ’’ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ سعودی حکومت نے عمرہ کے لئے چالیس سال عمر لازمی کیا ہے، کیا انتالیس سال والا عمرہ نہیں کرسکتا؟کیا عمرہ کے لئے روکنا درست ہے؟ ‘‘ ان صاحب کو یہ غلط فہمی نجانے کیسے ہوگئی ،کیونکہ ماہ مارچ میں ہی دو ہفتہ کے وقفہ سے ہمیں دو مرتبہ حرم شریف حاضری کا شرف حاصل ہوا اور ہم نے دونوں مرتبہ نوجوان لڑکوں لڑکیوں اورکم عمر بچوں کو بھی وہاں دیکھا۔ کچھ کمسن بچے تو احرام میں تھے اور ذوق و شوق کے ساتھ طواف و سعی کرتے نظرآئے۔مسجد عائشہ کے باہراحرام فروشوں کے پاس بچوں کے احرام اور چپل بھی دیکھے۔دوسری مرتبہ حاضری میں ہمارے ساتھ ایک فیملی میں ایک چھوٹی بچی بھی تھی۔ مسجد نبوی میں بچے نظرآئے۔کہیں کوئی روک ٹوک نہیں ہوئی۔اس لئے ان کی اطلاع غلط ہے۔

دوسری بات انہوں نے یہ لکھی کہ اکیلے آدمی کو عمرہ کا ویزہ نہیں ملتا، فیملی یا گروپ کے ساتھ ہی ملتا ہے۔ یہ بات درست ہے۔ مگر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بہت سے لوگ عمرہ کا ویزالے کر جاتے اور غیرقانونی طور سے روزگار کے لئے رک جاتے ہیں۔اس کو روکنے کے لئے یہ تدبیر کی گئی کہ نوجوان آدمی فیملی یا گروپ کے ساتھ آئے ۔ غیرقانونی تارکین وطن کے معاملے میں دنیا بھر کے ممالک حساس ہیں۔ خصوصاً اس لئے کہ بعض جرائم پیشہ بھی سزا سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی صورت سعودی عرب میں بھی پیش آتی ہے۔یہ سوچنا بجا ہے کہ ہرشخص کو اپنی سہولت کے مطابق حج اورعمرہ کے لئے آنے کی اورقیام کی اجازت ہونی چاہئے ،مگر انتظامی نقطہ نظر سے اس دور میں یہ ممکن نہیں۔چنانچہ اگر کچھ ضابطے نافذ کئے گئے ہیں تواس کا مطلب یہ نہیں کہ حج اور عمرہ سے روکا جارہاہے۔ البتہ عازمین عمرہ کے لئے اس نئی شرط پر نظر ثانی کی گنجائش ہے کہ قیام کے لئے ویزا کی درخواست کے ساتھ کسی مندرجہ فہرست ہوٹل میں بکنگ ہونی چاہئے۔ بعض عازمین ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کا کوئی عزیزوہاں ایسا ہوجس کے پاس قیام کیا جاسکتا ہو۔(ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164671 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.