سیکولرازم کی شکست اور سرمایہ دارانہ سیاست کی جیت

کہتے ہیں کہ کسی چیز کو باقی رکھنا ہو تو مسلسل اس کا تذکرہ کرنا چاہئے،اور خوب کثرت سے اس کا چرچا کرتے رہنا چاہئے تو وہ چیز قائم ہوتی ہے،بالکل اس طرح سے ہمارے ملک میں ہوئے حالیہ انتخابات سے کئی مہینوں قبل سے مودی کا چرچا تھا،اردو اخبارات،سوشل سائٹس،الیکٹرونک میڈیا،غرض ہر ذرائع ابلاغ کا بھر پور استعمال کیا گیا چاہے منفی انداز میں ہی کیوں نہ ہو پر مودی کا تذکرہ خوب کثرت سے کیا گیا،اور آر ایس ایس تو تقریباً پانچ چھ سالوں سے مستقل مودی ماحول بنانے کے عمل میں سر گرم تھا،تب جا کر عین انتخاب کے دنوں میں لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی،تب تک بہت دیر ہوچکی تھی،بہرحال اب حکومت بھی اور اقتدار بھی مودی کے پاس ہے اسی سیاسی کھیل کی شروعات پڑوسی ملک کے تعلقات سے کی ہے،یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ نریندر مودی کی حکومت میں پاک بھارت تعلقات اور بھارتی مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخی کامیابی نے حکمرانوں کے اس دعوے کی نفی ضرور کردی ہے کہ بھارت ایک سیکولرا سٹیٹ ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی آبادی رکھنے والی ریاست بھارت اپنے آئین کو سیکولر قرار دیتی ہے، لیکن انتخابات میں ایک انتہا پسند متعصب شخص کی کامیابی نے یہ واضح کردیا کہ یہ ریاست اپنے سماج کوسیکولرائز کرنے میں عملی طور پر ناکام رہی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ سیکولر چہرہ صرف دنیا کو دکھانے کے لیے ہے۔۔۔نریندر مودی کا بھارت کا وزیر اعظم بننا کسی طور بھی انتہا پسندی سے خالی تصور نہیں کیا جاسکتا۔نریندر مودی کی نظریاتی اور سیاسی پرورش آر ایس ایس کی سر پرستی میں ہوئی ہے اور انھیں ایک ہندو قوم پرست اور سخت گیر رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ مودی نے جوانی میں ہی ہندو انتہاپسند تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور 70 کی دہائی سے ہندو پرچارک یا تنظیم کے مبلغ کے طور پرکام کرنے لگے تھے، جبکہ بی جے پی کی سیاست کا روز اوّل ہی سے محورومرکز مسلم دشمنی اور مسلم بیزاری رہا ہے۔ اس جماعت کی بنیاد ’’ہندوتوا‘‘ پر ہے۔ اسی جماعت کے لیڈر ایل کے ایڈوانی نے 1992ء میں ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو مسمار کر کے اس کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے رتھ یاترا کی تھی۔ مسجد کی شہادت کے بعد پورے بھارت میں مسلم کش فسادات کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا، پھر مودی کے دور حکومت میں 2002ء میں گودھرا سٹیشن کے واقعہ کو جواز بنا کر گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیا اور اس دوران مختلف واقعات میں ہزاروں مسلمانوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اگرچہ نریندر مودی اس میں ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے ہیں، مگر بطور وزیراعلیٰ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس طرح کے واقعات نہ ہونے دیتے۔ عالمی برادری نریندر مودی کو ہندوستان میں مسلمانوں کے قاتل کی حیثیت سے جانتی ہے، اسی بنا پر امریکہ نے اپنے ملک میں مودی کے داخلے پر پابندی بھی لگادی تھی۔

ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی پر جہاں ایک طرف یہاں کے مسلمان سہمے ہوئے ہیں، وہیں دوسری جانب کئی تجزیہ کار مودی کی کامیابی کو بھارتی سیکولر ازم کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور سیکولر بھارت کے مستقبل کے بارے میں متفکر نظر آتے ہیں۔ ایک معتبر دانشور، سابق سفارتکار اور دو بھارتی ریاستوں کے سابق گورنر گوپال کرشنا گاندھی نے نریندر مودی کے نام اپنے کھلے خط میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’جہاں لاکھوں لوگ مسرور ہیں کہ آپ وزیراعظم بن رہے ہیں، وہیں اس سے کئی گنا زیادہ لوگ اس بات سے پریشان ہیں، بلکہ بہت زیادہ پریشان ہیں۔‘‘ ’’آپ نے 31 فیصد لوگوں کی توجہ ضرور حاصل کی ہے، لیکن 69 فیصد لوگوں کا یہ خیال نہیں ہے کہ آپ دیش کے بہترین رکھوالے ہیں۔ ان لوگوں نے تو ’’دراصل‘‘ اس بات سے بھی اختلاف کیا ہے کہ ہمارے دیش کی ہئیت کیا ہے اور جناب مودی! دیش کا تصور ہی وہ بات ہے جہاں اصل اہمیت ہمارے آئین کی ہے۔ میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ ’’دیش‘‘ کے نظریہ پر نظرثانی فرمائیے۔ اقلیتوں کے بارے میں آئین کے وڑن کو اپنائیے، اسے تبدیل، کمزور یا اپنے لیے موافق مت بنائیے۔ اقلیتوں کو یقین دہانی کروائیں، ان کے سرپرست مت بنیں، ترقی تحفظ کا نعم البدل نہیں ہے۔ آپ نے ’’ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں لیپ ٹاپ‘‘ یا کچھ ایسی ہی بات کی، لیکن ان تصاویر نے اقلیتوں کو احساس تحفظ نہیں دیا، کیونکہ اس کے جواب میں سامنے آنے والی تصاویر نے انہیں خوفزدہ کر دیا ہے، جن میں ایک غنڈے نے ایک ہندو کا روپ دھار رکھا ہے اور اس کے ایک ہاتھ میں ہندو صحیفے کا ڈی وی ڈی ہے اور دوسرے میں دھمکی آمیز ترشول۔ کچھ ماہ قبل مظفر نگر میں 42 مسلمانوں کی ہنگاموں میں ہلاکت نے اقلیتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ’’خبردار! تمہارے ساتھ یہ کیا جائے گا۔‘‘’’ ایک جمہوریت میں کسی کو بھی اس دھمکی کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ صرف مسلمان ہی نہیں، تمام اقلیتیں زخموں سے چور ہیں۔ دلت اور ادی واسی، خصوصاً عورتیں، اپنی زندگی کا ہر لمحہ ذلت اور استحصال میں گزار رہے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے کھل کر سامنے آئیں۔ آپ سے منسوب ایودھیا میں رام مندر اور ہندو مسلم پناہ گزینوں کے فرق کے بیانات خوف پیدا کرتے ہیں، ناکہ اعتماد۔ اجتماعی خوف مملکت بھارت کی خوبی نہیں ہو سکتا۔‘‘

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے چیلنج کے سامنے اس ملک کا سیکولر ازم مختلف قسم کے خوابوں اور امیدوں میں جیتا رہا۔،پاپولر سیاست کا ایک المیہ ہمیشہ سے یہ رہتا ہے کہ اس میں سیاسی قیادت ایک ایسے ایجنڈے کا شکار ہوجاتی ہے جس میں تعصب اور نفرت کی سیاست کو طاقت حاصل ہوتی ہے۔ بی جے پی کی قیادت اور اس کے ووٹروں میں اس کی پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس تعصب کی سیاست کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کریں۔ جہاں تک مودی کے ترقی کے ماڈل کا تعلق ہے، تو اس پر بھی بھارت میں خوب تنقید جاتی ہے۔ بہت سے سیاسی دانشوروں کا خیال ہے کہ مودی کے ترقی کے ماڈل میں کرپشن اور بدعنوانی موجود ہے۔ وہ کارپوریٹ سیاست کی مدد سے بھارت میں سرمائے کی سیاست کے پھیلاؤ کے حامی ہیں۔ غیر ملکی مالیاتی ادارے بھی مودی کے پیچھے کھڑے ہیں۔ لیکن اس کھیل میں اگر کسی کا خیال ہے کہ مودی بھارت کے عام آدمی یا غریب کو کوئی ریلیف دے سکیں گے، تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ بھارت کی اس نئی سرمایہ دار سیاست میں بھارت کے عام آدمی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی بھارت کی جمہوری سیاست میں سیاسی و معاشی استحصال کا شکار رہا ہے اور مزید استحصال کا شکار رہے گا۔ اس کھیل میں جب مذہبی سیاست جڑ پکڑے گی تو عام آدمی کا ایجنڈا اور زیادہ پس پشت چلا جائے گا۔جہاں بھارت کی سیکولر سیاست خطرے میں ہے وہیں کی جمہوریت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ بھارت کی سیاست بھی عملی طور پر سرمائے کی سیاست میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ان انتخابات میں سیکولرازم کو شکست ہوئی، اور سرمایہ دارانہ سیاست کو کامیابی ملی ہے۔ جس انداز میں بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے بی جے پی اور مودی کی حمایت کرکے کانگریس اور دیگر جماعتوں کے خلاف میڈیا کی مدد سے گٹھ جوڑ کیا وہ بھارت کی سیاست کے لیے نیا خطرہ ہے۔کیونکہ اگر بھارت کی جمہوری سیاست محض دولت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے، تو اس کا فائدہ ایک مخصوص طبقہ کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جو انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ سیاسی، سماجی اور معاشی محرومی بھی ہے۔ بعض اوقات اس طرز کی مزاحمت میں نفرت کی سیاست کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں عوام سے بہت زیادہ وعدے کرلیے ہیں، جو یقینا فوری طور پرپورے نہیں ہوں گے۔ اس لیے بھارت کے ووٹروں میں جب مایوسی پیدا ہو گی تو نریندر مودی ان میں مزید ’’ہندوتوا‘‘ کی سیاست کو تقویت دینے کی کوشش کریں گے۔بھارت کے انتخابات اور نئی حکومت بننے کے بعد نریندر مودی ایک بڑے امتحان میں داخل ہوچکے ہیں۔ ان کے سامنے ایک طرف ترقیاتی ایجنڈا ہے تو دوسری طرف ہندو سیاست کو تقویت دینا ہے۔ ان کے پاس جہاں بہت سے اچھے مواقع ہیں، وہیں ان کے بارے میں بہت سے لوگوں میں بدگمانیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ نریندر مودی کو ایک بڑاعہدہ ملا ہے،جس کے وہ کئی سالوں سے خواہاں بھی تھے اچھا ہوگا کہ وہ اس کو پوری طرح بھارت کی ترقی اور خوشحالی کے لئے استعمال کریں۔مودی ملک کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر فائزہوہی چکے توسوال یہ اٹھتاہے کہ وہ ملک کوکس راہ پر لے جائیں گے کیاوہ آرایس ایس کے ذریعہ کھینچے ہوئے خطوط پرملک کے مستقبل کا تانا بانا بنیں گے جن میں دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی اوریکساں سول کوڈ وغیرہ شامل ہے یاپھرہندوستانی جمہوریت کا بھرم رکھتے ہوئے اس کی عظمت میں اضافہ کریں گے۔چوں کہ مودی وہ شخص ہے جس نے آرایس ایس کا پرچارک بننے کیلئے ۱۸سال کی عمرمیں اپنی نئی نویلی دلہن تک کوتیاگ دیا اس لئے اگرسیکولرعوام کے ذہن میں خدشات وشبہات جنم لے رہے ہیں تواسے بے وجہ قرارنہیں دیاجاسکتا لیکن انہوں نے جس طرح سے ہندوستان سے قریبی حریف ملک پاکستان کے وزیراعظم کواپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعوکیا، وہ ایک مودی میں ایک خوشگوارتبدیلی کا اشارہ ہے۔مودی کے وزیراعظم بننے سے مسلمانوں کواحساس کمتری ونفسیاتی خوف میں مبتلاہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیوں کہ خداکا شکر ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اوربی جے پی کواتنی بھی اکثریت نہیں ملی ہے کہ وہ آئین کے بنیادی اصولوں سے چھیڑچھاڑکرسکے۔۔!
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 225 Articles with 252637 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More